طاہر بھائی کو کوئی ایوارڈ کیوں نہیں ملا؟/ثاقب لقمان قریشی

میں اکثر اقوام متحدہ کی ایجنسیز، انٹرنیشل اور دیسی این-جی-اوز کے مافیا کے خلاف لکھتا رہتا ہوں۔ میں انکے خلاف کیوں اور کیسے ہوا؟ دس بارہ سال قبل جب میں نے اسلام آباد کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں عالمی اور دیسی این-جی-اوز کے کچھ ایونٹس میں جانا شروع کیا تو پہلے دن سے میرے ذہن میں سوالات گردش کرنے لگے۔ عالمی اور دوست ممالک کی این-جی-اوز ہماری دیسی این-جی-اوز کو پیسے کیوں دیتی ہیں؟ ان پیسوں کی سائنس کیا ہے؟ این-جی-اوز کے ایونٹس بڑے بڑے ہوٹلوں میں کیوں ہوتے ہیں؟ سارے پراجیکٹ اور پیسہ اسلام آباد کی چند دیسی این-جی-اوز میں ہی کیوں بانٹا جاتا ہے؟ دیسی این-جی-اوز عالمی اداروں سے پراجیکٹ لینے کیلئے کس قسم کے جائز اور ناجائز ذرائع استعمال کرتی ہونگی وغیرہ وغیرہ۔
عالمی این-جی-اوز کا مافیا شائد یہ سمجھتا ہے کہ اسلام آباد کی چند این-جی-اوز کے سوا پاکستان میں اور کوئی این-جی-او انکے معیار کے مطابق کام نہیں کرسکتی؟ عالمی این-جی-اوز کے مافیا کی غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے میں نے ملک کے کونے کونے سے تعلیم یافتہ سوشل ورکرز کے انٹرویوز کرنا شروع کر دیئے۔ کے-پی سے بلوچستان تک میں نے ایسے زبردست معذور افراد کے انٹرویوز کیئے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ این-جی-اوز کا عالمی مافیا پھر بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔
جس طرح عالمی اداروں کی فنڈنگ فراڈ ہے اسی طرح انکے دیئے ایوارڈز بھی فراڈ ہیں۔ آپ کسی بھی عالمی فنڈنگ پر چلنے والی دیسی این-جی-اوز یا عالمی ایوارڈ یافتہ معذور شخص سے اسکے کام کے حوالے سے براہ راست سوال کرنا شروع کر دیں تو جواب مل جائے گا۔
ملک کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والے معذور افراد اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایوارڈ کیوں نہیں ملتا۔ آج ایسے ہی ایک سوشل ورکر کی کہانی بیان کرنے جا رہا ہوں۔ جس نے ملک میں معذور افراد کی بحالی کیلئے سب سے ذیادہ کام کیا۔ لیکن اسے آج تک کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔ معذور افراد کو ملنے والے عالمی ایوارڈ کی تفصیل میں اوپر بیان کر چکا ہوں۔ جبکہ معذوروں کو ملنے والے قومی سطح کے ایوارڈز کے ججز بھی یہی لوگ ہوتے ہیں۔ جو عالمی اداروں کے آلہ کار ہوتے ہیں۔
طاہر بھائی کا تعلق کوٹ نجیب ہری پور سے ہے۔ تین بہنیں اور تین بھائی، سب شادی شدہ ہیں۔ ایک بھائی ایچ آئی ٹی ٹیکسلا میں کام کرتے ہیں، ایک پرائیویٹ جاب کرتے ہیں۔ طاہر خود ایک سرکاری سکول میں لیب اٹینڈنٹ کی جاب کرتے ہیں۔ والد صاحب کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ والد کی وفات 2003 میں اور والدہ کی 2015 میں ہوئی-
میٹرک کے پرچوں سے چند روز قبل انھیں شدید کمزوری محسوس ہونے لگی، اس دوران ٹانگوں کو بہت کمزور محسوس کرنے لگے۔ ایک دن گھر میں اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہیں پائے۔ گھر کے سارے افراد سمجھے شائد یہ مذاق کر رہے ہیں۔ بتانے پر گھر والے پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ امتحانات کے دوران بہت مشکل سے سینٹر تک جاتے۔ پھر ایک پرچہ دیتے ہوئے بے حوش ہوگئے۔
ٹیسٹ کروانے پر سپائن کارڈ ٹیومر کی تشخیص ہوئی جسکا علاج ملک کے نامور ڈاکٹروں سے کروایا گیا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اب آپ کی ساری زندگی ویل چیئر پر گزارنی ہے۔
طاہر کہتے ہیں ایک چلتا پھرتا بندہ جب اچانک ویل چیئر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ زندگی سے دلبرداشتہ بھی ہوجاتا ہے اور مایوس بھی۔ یہ بھی بہت عرصہ مایوسی کا شکار رہے۔ پھر اسے اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے انھوں نے اسے دل سے قبول کیا اور ایک ٹیلر کی دکان پر بیٹھنا شروع کر دیا۔ والد صاحب جوان بیٹے کو گود میں اٹھا کر دکان تک لے جایا کرتے۔ پھر تین پہیوں والی سائیکل خرید لی جس نے زندگی کافی آسان بنا دی۔
ٹیلرنگ کا کام چھوڑنے کے بعد تین پہیوں والی سائیکل پر مختلف اشیا کی سپلائی کا کام شروع کر دیا اور اسی پر پورا شہر گھومنا شروع کر دیا۔ پھر تین پہیوں والا موٹر سائیکل لینے کا خیال آیا۔ ایک دن یہ کچہری کے باہر کھڑے تھے کہ ایک وکیل صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جس سے دریافت کیا کہ یہ موٹر سائیکل کوئی این-جی-او کیوں نہیں دلا دیتی۔ وکیل صاحب نے کچھ این-جی-اوز کے نمبر دیئے۔ طاہر بھائی نے این-جی-اوز کا بہت پیچھا کیا لیکن بات نہیں بنی۔ پھر ایک دن وکیل صاحب نے بلایا اور انکے ہاتھ میں چھبیس ہزار روپے تھما دیئے اور کہا یہ انکی بیٹی نے امریکہ سے کسی کی مدد کیلئے بھیجے ہیں۔ میری نظر میں ان پیسوں کا آپ سے ذیادہ اور کوئی مستحق نہیں۔ ادھر ادھر سے پیسے جمع کرکے انھوں نے تریسٹھ ہزار روپے کا موٹر سائیکل خرید لیا۔ اسطرح سپلائی کے کام میں مزید بہتری آئی۔
پھر ایک دوست نے لیپرڈ کورئیر میں جاب کروا دی۔ محنت کا یہ عالم تھا کہ یہ موٹر سائیکل پر ڈیرھ سو کلومیٹر تک روزانہ گھوم کر ڈاک سپلائی کیا کرتے۔ جب کورئیر سروس کے کام سے تھک گئے تو انھوں نے سرکاری ملازمت کیلئے دوخواستیں دینا شروع کیں۔ پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ 2012 میں انھیں ایک سکول میں لیب اٹینڈنٹ کے طور پر سرکاری ملازمت مل گئی جس کے بعد زندگی پر سکون انداز میں گزرنے لگی۔
طاہر بھائی نے ہمیں بتایا کہ 2009 میں ان سے ایک بزرگ نے ویل چیئر کی درخواست کی جسے یہ پورا نہیں کرسکے۔ کچھ عرصہ بعد انکی وفات ہوگئی۔ طاہر بھائی کیلئے یہ گہرا صدمہ تھا کہ ایک بندہ ان سے فریاد کرتے کرتے دنیا سے چلا گیا اور یہ اسکی مدد نہیں کر سکے۔ یہ واقعہ انکی زندگی میں اہم موڑ ثابت ہوا اور پھر انھوں نے خصوصی افراد کو ویل چیئر فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔
طاہر بھائی ویل چیئر کو خصوصی افراد کا ہتھیار قرار دیتے ہیں اور ملک کے ہر اس خصوصی شخص کو ویل چیئر فراہم کرنا چاہتے ہیں جو اسے خریدنے کی استطاعت سے محروم ہے۔
کام کا آغاز اپنے علاقے سے کیا۔ جب کوئی ضرورت مند انکے پاس آتا یہ اس کے کوائف جمع کرکے مخیر حضرات کے پاس جاتے، پھر فنڈ اکٹھا ہونے پر ویل چیئر فراہم کر دی جاتی۔ انکی ایمانداری کو دیکھتے ہوئے ملک اور بیرون ملک کے کچھ مخیر حضرات مستقل بنیادوں پر انھیں فنڈز فراہم کرنے لگے۔ یہ نہایت ایمانداری سے ویل چیئرز مستحقین تک پہنچا دیتے ہیں۔
طاہر بھائی ہر ماہ پچاس سے سو ویل چیئرز کے پیسے اکٹھے کر لیتے ہیں پھر جہاں سے مناسب قیمت ملے وہاں سے خرید لیتے ہیں۔ اب تک پانچ ہزار سے زائد نئی ویل چیئرز تقسیم کر چکے ہیں۔ اگر کہیں سے پرانی چیئر بھی مل جائے تو اسکی بھی مرمت کرا کے حق دار تک پہنچا دیتے ہیں۔
طاہر بھائی کشمیر، گلگت بلتستان، قبائلی علاقوں، خیبرپختون خواہ، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں تک ویل چیئرز فراہم کر چکے ہیں۔ لوگ کوائف کے ساتھ خصوصی فرد کی ویڈیو ارسال کر دیتے ہیں۔ جسے یہ اپنے سوشل میڈیا پیج پر شیئر کرکے فنڈز اکٹھے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ویل چیئر فراہم کرنے کے بعد اس خصوصی شخص یا اسکے اہل خانہ کی ویڈیو شیئر کرتے ہیں۔ طاہر بھائی کی ویل چیئز جن معذور افراد اور پسماندہ ترین علاقوں میں جاتی ہیں دیکھ کر رونا آتا ہے۔سستی اور مضبوط ویل چیئر کیلئے یہ خیبر اور پنچاب کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔
کرونا وباء کے دوران ہزاروں ضرورت مندوں کو راشن فراہم کرچکے ہیں۔ گزشتہ برس ملک بدترین سیلاب کی زد میں تھا اس دوران طاہر بھائی نے راشن کے تین ٹرک متاثرین کی مدد کیلئے بھیجے۔ کشمیر کے مختلف اضلاع میں دو مساجد تعمیر کروا چکے ہیں۔ جبکہ تیری زیر تعمیر ہے۔
طاہر بھائی کہتے ہیں این-جی-او رجسٹرڈ کرنے کے معاملات کو حکومت نے اتنا پیچیدہ بنا دیا ہے کہ ان جیسے گراس روٹ لیول پر کام کرنے والے سوشل ورکر کاغذی کاروائی اور لمبے چوڑے طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے اپنی این-جی-او رجسٹرڈ نہیں کراپاتے۔
والدہ کی وفات کے بعد اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرنے لگے۔ انھیں معلوم تھا کہ ان سے کوئی نارمل لڑکی شادی نہیں کرے گی۔ اسلیئے انھوں نے سوشل میڈیا اور کچھ خصوصی دوستوں سے مدد لیتے ہوئے خصوصی خاتون کا انتخاب کیا اور اسطرح شادی کا مشکل ترین مرحلہ 2018 میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔
طاہر بھائی کی بیگم سپائن کارڈ انجری کا شکار ہیں۔ طاہر بھائی اکثر مجھ سے گھر کی تصاویر شیئر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ مانتے ہی نہیں کہ گھر کی صفائی ایک ویل چیئر پر بیٹھی خاتون نے کی ہے۔
طاہر بھائی ابھی تک کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں۔ میری ضد پر انھوں نے چار مرلے کا پلاٹ لیا۔ جسے تعمیر کروانے کے پیسے نہیں ہیں۔ این-جی-اوز کے عالمی مافیا سے منسلک دیسی این-جی-اوز کے معذور لوگوں کی گاڑیاں، گھر اور لائف اسٹائل دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔
طاہر بھائی کو معذور افراد کا ایدھی کہا جاتا ہے۔ اپنی یا بیگم کی ویل چیئر خراب ہو جائے تو نئی ویل چیئر کے پیسے تک نہیں ہوتے۔ طاہر بھائی جتنا کام کسی این-جی-او نے نہیں کیا۔ لیکن پھر بھی انھیں آج تک کسی قومی یا بین الاقوامی ایوارڈ سے نہیں نوازا گیا۔ میرے پاس طاہر بھائی جیسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ جن کے بارے میں پڑھ کر لوگوں کا ایوارڈز سے اعتبار ہی اٹھ جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply