یادوں کی پٹاری سے اک پرانی یاد۔۔۔۔ناصر خان ناصر

ہمیں ٹی وی کا پہلا دن بھی یاد ہے۔ جب پہلی بار ٹی وی آیا  تو لوگوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا تھا۔ ہم چھوٹے سے تھے اور بہاولپور میں رہتے تھے۔
ٹی وی بنانے والی کمپنی نے گورنمنٹ عباسیہ ہائی سکول کے گراونڈ میں بہت سارے ٹی وی رکھ دیے اور شمیم آرا اور وحید مراد کی فلم دوراہا مفت دکھانے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان تانگے پر پردے اور اشتہار ٹانگ کر اور ڈھول بجا بجا کر لاوڈ سپیکر پر شہر بھر میں کیے جاتے رہے۔
مفت ٹی وی اور فلم دیکھنے کے لیے خلقت ٹوٹ ہی تو پڑی۔ آوے سے آوا چھلنے لگا۔ تھالی پھینکو تو آپ ہی آپ سر سے سر تک سرکتی ہی چلی جائے۔
ہمارے ہاں پہلا ٹی وی دو تین سال بعد تب آیا جب ان کی آگ لگی، آسمان کو چھوتی قیمتیں زمین پر اتر آئیں۔ تب ہم ہری پور ہزارہ میں رہتے تھے۔
اس وقت صرف ایک ہی بلیک اینڈ وائٹ چینل ہوتا تھا جو نشریات شروع ہونے سے پہلے کھول لیا جاتا اور چند گھنٹوں بعد ہی قومی ترانہ بجنے تک آخرش دیکھا جاتا۔ نشریات کا دورانیہ بمشکل چار پانچ گھنٹے ہوا کرتا تھا اور سبھی لوگ ٹی وی سے چپک کر بیٹھ جاتے تھے۔ سگھڑ بیبیاں گھر کے کام کاج نمٹا کر کھانے پکانے سے قبل از وقت فراغت حاصل کر لیتیں تاکہ اطمینان سے بیٹھ کر ٹی وی دیکھا جا سکے۔
محلے کے بچوں کے لیے ٹی وی کے سامنے دری بچھائی جاتی تھی۔ خواتین کو کرسیاں پیش کی جاتیں۔ فلم والے دن تو ہم مردوں کو دوسرے کمرے سے پردے کے پیچھے سے فلم دیکھنا نصیب ہوتا تھا جبکہ ڈرائنگ روم میں تمام کرسیوں اور صوفوں پر ہمسائیاں براجمان رہتیں۔
اب تو 6 D ٹی وی بھی کئی ممالک میں آ چکے ہیں جن میں پیش کردہ پروگراموں میں خوشبو مہک بارش آندھی محسوس بھی ہوتی ہے۔ آپ کی کرسی بھی زلزلے کے ساتھ ہلتی ہے اور بارش کی پھوار آپ کو بھگو بھی دیتی ہے۔ جنگل کی مہک، کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو۔۔۔ صرف پکے پکائے نوالے منہ میں آنے کی کسر باقی ہے۔
ٹی وی کے ابتدائی دنوں کی سنہری یادوں میں ہمیں وہ ایک خاص دن کہاں بھول سکتا ہے جب محترمہ طاہرہ سید صاحبہ کو ان کی والدہ ملکہ پکھراج صاحبہ نے پہلی بار بطور گلوکارہ انٹروڈیوس کروایا تھا۔
‘ابھی تو میں جوان ہوں’ کی شکل بنی، بنی ٹھنی محترمہ ملکہ پکھراج صاحبہ نے ایک خوشنما دروازے نما فریم میں بیٹھ کر حفیظ جالندھری صاحب کی شہرہ آفاق نظم ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ کا انترا چھیڑا۔۔۔ دلفریب، دل رُبا آواز۔۔۔
ارے! دیکھتے ہی دیکھتے اسی فریم میں ان کا چہرہ بدل گیا، پھولوں کی سی تازگی اور کلیوں کے سے نکھار اُمڈ پڑے۔ آواز بھی تر و تازہ تر اور کچھ دلنواز سی ہو گئی۔
ہائیں! کیا ملکہ پکھراج صاحبہ نے پلاسٹک سرجری کروا لی ہے؟
اتنی کم سن پری جیسی بن گئیں اور نازک چھریری بھی۔۔۔
گھر آئی محلے کی بیبیوں کے رواں تبصرے اور لچھے دار چٹخارے شروع ہو گئے۔ وہ عقدہ کچھ دیر میں کھلا کہ یہ خوبرو نوجوان گلوکارہ ملکہ پکھراج نہیں بلکہ ان کی دختر نیک اختر ہیں۔
اک اور یاد پٹاری سے اپنا سر منہ زور ناگن کی طرح اٹھاتی ہے اور بے طرح مضطرب ہو کر تڑپنے کنچلانے لگتی ہے۔
انہی دنوں شیندن تھا کہ بھارت کی حکومت نے پاکستان کو ثقافتی جنگ میں عنقریب فتح کر لینے کا اعلان کیا ہے اور لاہور کے نزدیک امرتسر بوسٹر لگا دیا ہے، جس سے اب لاہوری دوست آرام سے بھارتی گیت مالا اور بالی وڈ فلمیں ڈرامے گھر بیٹھے دیکھ سکتے ہیں۔ لاہور پر تو گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ سورج سوا گز نیزے پر آ گیا۔ امیر کیا اور غریب کیا۔۔ٹی وی دھڑا دھڑ بکنے لگے۔
ہر گھر میں جہاں ٹی وی تھا، چھتوں پر رنگ برنگے ہر سائز کے تھال، پرات نما اینٹینے لگ گئے۔ جن کا رخ امرتسر کی طرف تھا۔
پھر خبر آئی کہ فلاں دن امرتسر ٹی وی پر فلم پاکیزہ لگ رہی ہے۔ ہم ان دنوں مینا کماری پر فدا تھے، ہماری بیگم کو پتہ نہ چلے تو سچ کہیں کہ اب تک بھی ان پر جان جاتی ہے۔
تب ہم لوگ راول پنڈی میں رہتے تھے۔ پہلے پہل تو سیدھے سبھاؤ والدین بہ تمکین و مزاج نمکین سے بآدب ہو کر جھک جھک کر کے لاہور جانے کی اجازت طلب کی۔(جھک جھک کو زبر سے پڑھیے یا پیش سے، دونوں طرح لطف دے گا ) جو صاف ظاہر ہے کہ ہمارے کرتوت زیر نظر رکھتے ہوئے نہیں ملی۔ تب دل ناداں شہزادہ سلیم کی طرح کھلم کھلا بغاوت پر اتر آیا اور بے تحاشہ چیخ اٹھا کہ انار کلی میرا مطلب ہے پاکیزہ میری ہے۔ ہماری رگوں میں دوڑتی بلوچی ضد جاگ اٹھی۔
فلم ویکھ کے ای چھڈنی اے پاہویں لگ جاونڑن ہتھکڑیاں۔۔۔۔۔
ہم نے چپکے سے اعلی الصبح اٹھ کر بس کا ٹکٹ کٹایا اور لاہور کی سمت رواں دواں ہو گئے۔ بظاہر ہم پڑھنے کے لیے اپنے گارڈن کالج جا رہے تھے۔ شیو کر کے، نہا دھو کر، اپنی لانبی زلفیں موٹی قلمیں اور بڑی بڑی مونچھیں سنوار کر، عطر پھریرے لگا کر اپنے سرخ کڑے پہنے، لاکٹ پہنا، سرخ رومال گلے میں لٹکایا، بڑے کالر والی شوخ رنگ کی شرٹ، بیل باٹم پتلون، اونچی ایڑی کے جوتےاور بڑی سی عینک ڈاٹ کر ہم ٹھاٹ باٹ سے ٹھیک ٹھاک ہیرو بن چکے تھے۔۔۔ (کڑے، لاکٹ، رومال، بڑے کالر والی شوخ رنگوں کی شرٹیں، بیل باٹم پتلونیں، اونچی ایڑی والے ٹھک ٹھک کرتے جوتے اور رومال اس زمانے کے فیشن تھے)
شام تک لاہور پہنچے تو وہاں ہُو کا عالم۔ ہر طرف خاموشی سی طاری تھی۔ سارے شہر میں لگتا تھا کہ بھیرو اپنا جھاڑو پھیر گیا ہے۔
چل چلیے دنیا دی اوس نکرے، جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے۔۔۔
سڑکیں ویران پڑی تھیں۔ بسوں، ویگنوں، تانگوں حتیٰ کہ رکشوں تک کا کوئی سوال تک کہیں نہ اٹھتا تھا۔ ادھر فلم کا ٹائم نکلا جا رہا تھا۔
ہم پر وحشت سوار ہوئی اور پیدل ہی ماموں کے گھر وحدت کالونی کی طرف سرپٹ بھاگنا شروع کیا۔
شومئی قسمت ایک تانگے والا نظر آیا تو ہم نے اس کے پاؤں پکڑ لیے۔
ناں باؤ۔۔۔اساں تے آپ فلم پاکیجا ویکھنڑی اے۔
پاکھنڈی نے ترنت کورا جواب دے دیا۔
ہم نے گھگھیا کر مزید منت سماجت کی، ہاتھ جوڑ کر ڈبل ٹرپل کرائے کی آفر کی، تب جا کر وہ ظالم بے رحم کچھ رام ہوا۔۔۔
ماموں کی گلی میں ہمارا تانگہ ٹھمک ٹھمک دبکی چال چلتا ہوا داخل ہوا تو وحدت کالونی کے گھروں میں لگے ٹی وی سے بھی تانگہ چلنے ہی کی آواز آ رہی تھی۔
دادا منی اشوک کمار دلہن بنی مینا کماری کو تانگے پر اپنی آبائی حویلی لے کر جا رہے تھے اور مینا کماری کی دلدوز آواز سارے شہر میں گونج رہی تھی۔
سرتاج یہ آپ مجھے کہاں لیے جا رہے ہیں؟
ہمیں لگتا تھا جیسے کم بخت گھوڑے کے پاؤں میں چکی کے پاٹ بندھ چکے ہیں۔
فلم چل چکی تھی۔ ہمارے دل کو پنکھے لگ گئے۔۔۔
جب ماموں کے گھر کا دروازہ دھڑا دھڑ بجایا تو کزن نے بھک سے دروازہ کھولا، ہم نے ٹھک سے اپنی اینٹری دی۔ دل دھک دھک کر رہا تھا۔
ماموں کا ننھا سا ٹی وی صحن میں پڑا تھا۔ سامنے دری پر پورا محلہ بمع اپنے جھینگر پوٹوں کے براجتا تھا۔ عزت ماب ناظرین بہ تمکین کرسیوں پر براجمان ٹکٹکی جمائے بیٹھے تھے۔ ٹھارے رہیو او بانکے یار رے۔۔
ادھر ہم نے دھم سے صحن میں قدم رکھا۔
ادھر چھم سے مینا کماری نے جھکے جھکے اپنا گھونگھٹ کا پلو عجب ناز و نخرے سے الٹ دیا اور نزاکت سے اٹھ کر چھن چھن کرتے اپنے قدم منقشیں قالین پر رکھ کر چک پھیری بھری۔۔۔ تمام ناظرین مبہوت بت بنے بیٹھے تھے۔ کائنات کا دھارا، وقت کا دھارا رک سا گیا تھا۔
تان پلٹے لے کر شہنائی چیخ پڑی، طبلہ بے حال ہو گیا۔ سرنگی کے سر سرسرائے، لہرائے، سرسوں کی طرح پیلے پڑے چہرے سسک کر لہک مہک اٹھے۔۔۔
مینا کماری ناچ رہی تھی۔۔۔
انہی لوگوں نے لے لینا دوپٹہ میرا۔۔۔
ساری خلقت خدا نے مخل ہونے والے خدائی فوجدار یعنی ہم کو غصے سے مڑ کر دیکھا جو یوں اچانک نازل ہو کر رنگ میں بھنگ ڈالے دیتا تھا۔
اللہ اللہ۔ ان خونخوار نظروں سے بندہ فوراً قتل ہو جائے۔
نجانے ہم کتنے سخت تھے کہ بچ گئے بلکہ بال بال بچ گئے۔
ٹی وی سے قبل بس ریڈیو ہی ہوا کرتے تھے۔ ٹرانسسٹر ریڈیو بھی بہت دیر میں آئے۔ اس سے قبل بجلی سے چلنے والے ڈبے نما ریڈیو ہی ہوا کرتے تھے جو ہر کھاتے پیتے گھرانے میں سگھڑ بی بییوں کے بنائے کروشیے سے بنے غلافوں سے ڈھک کر کارنس پر سجا دیے جاتے تھے یا میز پوش سے ڈھکی میز پر دھرے رہتے۔ شروع میں جب ریڈیو عام نہیں تھے تو ریڈیو پر خبریں سننے کے لیے بھی محلے کے مرد اکٹھے ہو جایا کرتے تھے۔
ہمارا پہلا ریڈیو سیالکوٹ میں آیا۔ ہم نالہ پلکھو کے نزدیک کسی محلے میں رہتے تھے۔ کبھی کبھار ہمسائے ریڈیو مانگ جاتے اور بدلے میں آموں سے بھری بالٹیاں بھجواتے۔
نالہ پلکھو کا سیلاب ہمیں یاد ہے جب ہماری والدہ نے چھت پر چارپائیاں کھڑی کر کے پرچھتی بنا لی تھی اور ہم لوگ دو تین دن بارش میں چھت پر ہی بیٹھے رہے۔
سیلابی پانی کے ریلے کئی چھتوں کو پار کر چکے تھے۔ کچے مکانوں کے گرنے کی آوازیں، پانی میں بہتے چیختے چلاتے لوگ، گائیں، بکریاں اور سانپ ہمیں اچھی طرح یاد ہیں۔ تین چار دن بعد پانی اترا تو گھروں میں کچھ بھی باقی نہیں تھا۔ مرے کو مارے شاہ مدار۔۔ چوروں نے بچی کھچی اشیاء کا صفایا کرنا شروع کر دیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply