ہم جب پانچویں میں تھے تو سکول کی دوسری یا تیسری جماعت میں ایک چھوٹا سا لڑکا اسد نام کا تھا۔ اس پر پنجابی کی یہ مثل ثابت آتی ہے جس کا ترجمہ یوں ہے ج”تنا زمین کے اوپر ہے اس سے زیادہ زمین کے اندر ہے ۔”
اسد صرف تیز و طرار اور شاطر ہونے کی وجہ سے ہی مشہور نہ تھا۔ بلکہ اس کی انفرادیت کی وجہ اس کی لمبی زبان تھی۔ یہ محاورے کی لمبی زبان مراد نہیں بلکہ حقیقی طور پر اس کی زبان قریباً ایک انچ سے زائد لمبی تھی۔ سانولے سے رنگ کا وہ طالب علم جن دنوں سکول میں داخل ہو اتو اگلے دن ہی ہر کلاس میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ہماری کلاس میں بھی انگریزی کے استاد نے اس طالب علم کی اس خوبی یا عیب کا ذکر کیا اور کسی انگریزی لفظ سے بھی بتایا کہ اسے انگریزی میں یہ کہتے ہیں۔
لیکن ہم تو بریک کا انتظار ایسے کرنے لگے جیسے چڑیا گھر کے ٹکٹ کے باہر قطار میں بے چینی ہوتی ہے گویا ہمارے پہنچنے سے پہلے کوئی جانور اپنے پنجرے میں واپس نہ چلا جائے۔
لنچ بریک ہوئی تو کلاس تھری کے دروازے پر موت کے کنویں جیسا رش تھا۔ ہر کوئی اس کی لمبی زبان دیکھنے کو ترس رہا تھا۔ وہ نمونہ بھی بار بار ہر کسی کی فرمائش پر سانپ کی طرح اپنی زبان باہر نکالتا اور اندر کرتا۔ کوئی منہ کھولنے کی فرمائش کرتا کہ زبان منہ کے اندر کیسے رکھتے ہو تو وہ منہ کھول کر اوپر کی طرف تہہ کی ہوئی زبان کی پوزیشن دکھاتا۔ کوئی ناک کو لگانے کا کہتا تو کوئی تھوڑی کو۔ کوئی اس سے کسی لفظ کی فرمائش کرتا تو کوئی کسی جملے کی ادائیگی کی۔ اگر فیس بک یا یوٹیوب اس زمانے میں ہوتا تو اس کو چند منٹوں میں پورا پاکستان دیکھ چکا ہوتا۔پھر کسی منچلے نے اسے اٹھا کر بنچ پر کھڑا کر دیا اور وہ لگا فرمائشیں پوری کرنے۔
ایسا ہی کچھ ہمارے میڈیا کے ساتھ ہوا۔ میڈیا کی زبان تو تھی لیکن اتنی لمبی نہ تھی۔ پھر میڈیا کی بے ہنگم آزادی کے بعد سکرین پر کئی لمبی زبانوں والے بھرتی کئے گئے۔ یہ لمبی زبان واقعی محاورۃً کہا۔ جس کی جتنی لمبی زبان اتنا وہ عوام میں مقبول۔ چینلز کی ٹی آر پی بڑھنے لگی۔ |
چند منٹوں میں کلاس تھری میں جم غفیر اکٹھا ہو چکا تھا اور سرکس کی ممتاز سمجھ کر بچے جوق در جوق اسے بلا ٹکٹ دیکھے جا رہے تھے کہ اتنے میں پرنسپل صاحب کو بھنک پڑ گئی اور وہ شور سن کر بھاگے چلے آئے۔دور سےہی ان کی گرج دار آواز نے سب کو تتر بتر کر دیا اور اس دن کا شو اختتام پذیر ہوا۔
پھر اگلی صبح اسمبلی میں سب طلباء پر سکول کے احاطہ میں اس کی لمبی زبان کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی۔لیکن پھر بھی راہ چلتے ، اسمبلی میں، کلاس میں، کوریڈور میں لنچ بریک میں، کوئی نہ کوئی اسد سے ضرور فرمائش کرتا یا چھیڑتا۔ اور وہ اس فرمائشی کو ٹائی سے کھینچ کر پرنسپل کے پاس لے جاتا ۔ اور اگر ہم عمر یا کلاس فیلو ہوتا تو خودی ہاتھ پاؤں چلا کر حساب برابر کر دیتا۔
اسے بھی شاید اپنی انفرادیت کی اہمیت کا احساس ہو چکا تھا یا وہ چڑنے لگ گیا تھا۔ پھر جب وہ کچھ بڑا ہوا تو وہ اس سب کا عادی ہو چکا تھا ۔ کسی کے لئے اب نئی بات نہ تھی ۔ اپنے دوستوں میں وہ اس بات کو مذاق میں لے جاتا تھا۔ سو اب وہ عجوبہ نہ تھا۔
ایسا ہی کچھ ہمارے میڈیا کے ساتھ ہوا۔ میڈیا کی زبان تو تھی لیکن اتنی لمبی نہ تھی۔ پھر میڈیا کی بے ہنگم آزادی کے بعد سکرین پر کئی لمبی زبانوں والے بھرتی کئے گئے۔ یہ لمبی زبان واقعی محاورۃً کہا۔ جس کی جتنی لمبی زبان اتنا وہ عوام میں مقبول۔ چینلز کی ٹی آر پی بڑھنے لگی۔
ان لمبی زبانوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جانے لگا اور وہ ابتداء میں اس بچے کی طرح خوش ہو کر اپنا ٹیلنٹ دکھانے لگے۔ بعد میں جب انہیں اپنی لمبی زبان کی اہمیت کا احساس ہوا تو چینل تبدیل ہوئے، نئی قیمتیں اور مراعات کے سودے ہوئے ، چینل مخالف مسئلہ ہو یا عوام مخالف، عوام کے حق میں بولنا ہو یا کسی سیاست دان یا حکومتی پارٹی کے یہ احباب صحافی کے ساتھ ساتھ تجزیہ کار بھی بن بیٹھے۔
پھر مولانا حضرات ہیں لمبی اور چرب زبانی میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ لیکن انہیں بھی امیر شریعت کا آخری حال یاد رکھنا چاہیے ۔ عطا اللہ شاہ بخاری کو امیر شریعت کا خطاب ان کے جوش خطابت پر ملا۔ مرنے سے پہلے وہ اپنے لمبی زبان کو کوستے نظر آئے۔ اپنے تیماردار کو کہتے تھے کہ”بیٹا، جب تک یہ کتیا بھونکتی تھی، سارا برصغیر ہند و پاک ارادت مند تھا، اس نے بھونکنا چھوڑ دیا ہےتو کسی کو پتہ ہی نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں“۔ |
لیکن اب ان چند دوگز زبان کے حامل صحافیوں سےسب کتراتے ہیں۔ انہیں لفافہ صحافی کہا جاتا ہے۔ میڈیا کے احاطے کے باہر ان پر حملے بھی ہوتے ہیں یہ گالیاں بھی سنتے ہیں اور ان کے اغواء کی کوشش بھی ہوتی ہے۔
پھر ایک پیشہ وکالت ہے جس میں لمبی زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ وکیل کی جتنی لمبی زبان ہو گی اتنا وہ کیس کو کھینچ سکے گا۔ بھلا ہو عدلیہ کی آزادی اور تحفظ کے قانون کا ورنہ جج بھی میڈیا اور وکلاء کی درازی ء زبان کے نوکیلے کانٹوں سے اپنے کپڑے بچاتے پھرتے۔
صحافیوں یا وکلاء کی زبان درازی کا عروج سیاستدان بننے پر ہوتا ہے۔ اور ایسے سیاست دان زبان درازی میں ید طولی کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کی پکی پوسٹ اطلاعات و اعلانات ہوتی ہے۔ جسے عرف عام میں ترجمان کہا جاتا ہے۔ جتنی لمبی زبان اتنی شہرت۔
کیسی فرفر زبان چلتی ہے
اس کی گفتار بے خطر کو دیکھ
پھر کم بخت یہ پھسلتی بڑی ہے۔ اپنے ہی گو نواز گو کہہ دیتے ہیں۔ اپنے ہی لعنت ڈال جاتے ہیں۔ کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔ انڈہ کلو میں اور آلو درجن میں بیچے جاتے ہیں۔ اسلامک ٹچ دیا جاتا ہے۔کسی کی لائیٹنگ اچھی لگتی ہے۔ بیٹے کو بیٹی کہہ دیا جاتا ہے۔ اپنے مخالف کے نشان پر ٹھپہ کی ترغیب دے دی جاتی ہے۔
بلاول کا تو دعویٰ ہے کہ سابقہ وزیراعظم کی زبان روشنی کی رفتار سے پھسلتی ہے۔ حالانکہ اردو تقریر کے وقت ان کی خود زبان لڑکھڑاتی رہتی ہے۔
پھر مولانا حضرات ہیں لمبی اور چرب زبانی میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ لیکن انہیں بھی امیر شریعت کا آخری حال یاد رکھنا چاہیے ۔ عطا اللہ شاہ بخاری کو امیر شریعت کا خطاب ان کے جوش خطابت پر ملا۔ مرنے سے پہلے وہ اپنے لمبی زبان کو کوستے نظر آئے۔ اپنے تیماردار کو کہتے تھے کہ”بیٹا، جب تک یہ کتیا بھونکتی تھی، سارا برصغیر ہند و پاک ارادت مند تھا، اس نے بھونکنا چھوڑ دیا ہےتو کسی کو پتہ ہی نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں“۔
اب ان سب میں سب سے بیچاری عوام ہے کہ ہر یک زبان کہہ رہی ہے کہ
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
پندرہ صدیاں قبل بھی یہ زبان کی طوالت موضوع بحث رہی تھی۔ شعراء کا کلام قوموں اور قبائل کو جنگ میں دھکیل دیتا تھا۔ جب معلقات پڑھتے ہوئے ہم نے زہیر بن ابی سلمیٰ کے معلقہ کا مطالعہ کیا تو یہ اشعار فوراً ذہن نشین ہو گئے تھے۔ اور یہی خلاصہ کلام ہے۔
وکائن تری من صامت لک معجب
زیادتہ او نقصہ فی التکلم
لسان الفتی نصف و نصف فؤادہ
فلم یبق الا صورۃ اللحم و الدم
یعنی تجھے کئی خاموش لوگ ایسے ملیں گے کہ ان کی خاموشی تجھے تعجب میں مبتلا کرنے والی ہو گی ۔ لیکن ان کے اخلاق کی اصلیت ان کی بات چیت میں زیادتی یا کمی سے معلوم ہو گی۔ایک نوجوان( کا تجسم)نصف تو اس کی زبان اور نصف دل ہوتا ہے ۔ باقی تو گوشت اور خون کی صورت ہی باقی بچتی ہے۔
بس اپنی زبان سنبھالیئے۔ سکون اور امن میں رہیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں