معلم!تجھے سلام/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

دنیا بھر میں ہر سال 5 اکتوبر کو استاد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔1994ء میں پہلی بار یونیسکو یعنی (UNESCO) یونائٹڈ نیشنز ایجوکیشنل سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن کی جانب سے استاد کا عالمی دن منانے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔بعد ازاں یہ دن تواتر و تسلسل کے ساتھ ہر سال استاد کی عظمت، کردار اور صفات اجاگر کرنے کے لیے ہر سال قومی اور بین الاقوامی سطح پر پانچ اکتوبر کو ہی منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جیسے جیسے یہ دن منایا گیا۔اس کی افادیت اور قدر و قیمت بڑھتی گئی۔اگر آج اس دن کا تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی جائزہ لیا جائے تو یہ دن عالمگیریت کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔کیونکہ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں سیمیناز ، کانفرنسں ، تقریبات اور پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز میں طلبہ و طالبات اپنے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے انہیں پھول ، تحائف، کارڈز اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ان کے کردار اور خدمات کو سراہتے ہیں۔واضح ہو اس دن کو ہر سال کسی نہ کسی تھیم (theme) کے تحت منایا جاتا ہے.رواں برس جو تھیم مقرر کیا گیا ہے۔اس کا عنوان کچھ یوں ہے۔
“the teachers we need for the education we want”
* ہمیں تعلیم کے لیے اساتذہ کی ضرورت ہے۔اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لیے عالمی ضرورت ہے*
یونیسکو اپنے اہداف میں اساتذہ کے حقوق ، ذمہ داریوں ، ملازمتوں، معیار زندگی ، تدریسی معیار اور جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے موثر حکمت عملی بناتا ہے۔ انبیاء ، اولیاء ، پیغمبروں کے بعد خدا تعالی نے قومی فرائض کی منصبی کے لیے ایک استاد کو قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے چنا ہے۔
خدا نے روز اول سے ہر انسان کو سوچنے ،سمجھنے اور پرکھنے کی الگ الگ نعمت دے رکھی ہے۔جیسے نرسنگ ایک مقدس شعبہ ہے جو بغیر رنگ، نسل اور مذہب کے انسانیت کی فلاح و بہبود میں مصروف ہے۔اسی طرح درس و تدریس کا شعبہ بھی اپنی معنویت اور مقصدیت میں عالمگیر درجہ اختیار کر گیا ہے۔۔آج دنیا میں جتنی بھی تعمیر و ترقی ہوئی ہے۔اس کے پیچھے تعلیم و تربیت کا نمایاں کردار ہے۔اگر اس بات کا فکری تجزیہ کیا جائے تو اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ بنیادی محرکات میں استاد کا کردار اور اس کی محنت کے ثمر شامل ہے ۔جہالت ، تنگ نظری ، تنگ دستی ، علوم کی دریافت اور بے روزگاری کے خاتمے کے پیچھے تعلیم و تربیت کے عناصر کار فرما ہیں۔لہذا یہ کہنا درست ہے کہ استاد قوم کا معمار ہے۔قوم کا محسن ہے۔ روشن ستارہ ہے۔تاریکی میں جگنو ہے۔مثبت کردار کا تاجر ہے۔نسلوں کے مستقبل کا ضامن ہے۔ایک چراغ کی مانند ہے۔مطالعاتی من بانٹنے والا ہے۔مستقبل کے خواب پورے کرنے والا ہے۔قربانی کے جذبے سے لبریز ہے۔ ہر وقت طلبہ و طالبات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ بولنا سکھاتا ہے۔آداب سکھاتا ہے۔کامیابی کے گر سکھاتا ہے۔ ہنر سکھاتا ہے۔ہمت و جواں مردی پیدا کرتا ہے۔مشکل حالات سے لڑنا سکھاتا ہے۔
آج دنیا بھر میں جتنی بھی قومیں سرخرو ہوئی ہیں۔ان سب کے پیچھے تعلیم کی جدوجہد کے عناصر شامل ہیں۔استاد دنیاوی تعلیم و تربیت کا منبع ہو یا روحانی تعلیم و تربیت کا مسیحاء۔ وہ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے ذہنوں کو زرخیز اور دلوں کو احساس مہیا کر دیتا ہے۔
حضرت سلیمان کی مشہور مثل ہے۔
“بچے کی تربیت اس راہ پر کر جس راہ پر اسے جانا ہے۔تاکہ وہ بوڑھا ہو کر بھی پیچھے نہ مڑے”
( امثال کی کتاب 22 باب 6 آیت)
عصر حاضر میں استاد اور طلبہ کے درمیان سخت مکالمے کی ضرورت ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے۔ہم کس موڑ پر کھڑے ہیں؟ ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اب تک کتنی ترقی کر لی ہے؟ بے شک ہم نے وقت کے ساتھ بہت ترقی کی ہے۔مگر دنیا کے حالات اور ترقی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمیں خود بہت کچھ سیکھنے اور اپنے بچوں کو سکھانے کی ضرورت ہے۔تاکہ جہاں خامیاں ، کمزوریاں اور علم و ہنر کی کمی رہ گئی ہے۔انہیں مقاصد کا تعین کر کے جلد از جلد حاصل کر لیا جائے۔اپنے تعلیمی نظام کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ بنیادی تعلیم سے لے کر پیشہ ورانہ تعلیم تک از سر نو جائزہ لیا جائے۔ قومی سطح پر مہارتوں کا اطلاق کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ ان تمام حقائق پر غور و خوض کی ضرورت ہے۔دل جمی سے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔فنی تعلیم کی عام ضرورت ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حالات اور روزگار میں مطابقت پیدا کی جائے۔
تعلیم کو عام کرنے کے لیے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔نئے سکول، کالجز اور یونیورسٹیز بنانے کی ضرورت ہے۔ اداروں میں اساتذہ کی کمی پورے کرنے کی ضرورت ہے۔تعلیم و تربیت کے لیے سازگار ماحول کی ضرورت ہے۔

سکندر اعظم کا قول ہے۔
” کہ میرے ماں باپ نے مجھے زمین پر اتارا جبکہ میرے استاد نے مجھے آسمان تک پہنچا دیا ”

اعتراف ہمیشہ دلوں میں عزت اور مستقبل کا گواہ بن جاتا ہے۔اگر آج اس بات کا حقیقی جائزہ لیا جائے تو سکندر اعظم کا یہ قول بالکل درست ثابت ہوا ہے۔کیونکہ آج کا انسان چاند پر پہنچ چکا ہے۔جدید آلات انسانی سوچ کو متاثر کرتے ہیں۔ علم الادویہ شفا کے معجزے کا کام کر رہی ہیں۔کیونکہ سائنس نے ایسی ایسی دریافتیں کی ہیں۔جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔یقینا دنیا کی آسائشیں، دریافتیں ، ایجادیں ، ترکیبیں دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔رشک و تحسین پر مجبور ہو جاتا ہے۔
مولانا الطاف حسین حالی نے کیا خوب کہا ہے۔

ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت

اگر آج ہم مزید ترقی کرنا چاہتے ہیں۔تو ہمیں استاد کا زیادہ سے زیادہ ادب و احترام کرنے کی ضرورت ہے۔اس کی سختی برداشت کرنے کی ضرورت ہے۔محنت کو نصیب بنانے کی ضرورت ہے۔اس حقیقت کو طلوع کرنے کے لیے کسی نامعلوم نے کیا خوب کہا ہے۔

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

یاد رکھیں! آج کا دن خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔اپنے اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔
ان سے ملنے اور دعائیں لینے کا وقت ہے۔ان کی محنت اور عظمت کا اعتراف کرنے کا دن ہے۔قوم کو گناہ کے دلدل سے نکالنے کا وقت ہے۔نئے منصوبوں کی بنیاد رکھنے کا وقت ہے۔ آخر میں یہ بات کہوں گا۔استاد کو ایماندار بننے کی ضرورت ہے اور شاگرد کو محنتی بننے کی ضرورت ہے۔یقینا جب تالی دونوں ہاتھ سے بجے گی۔تو تعمیر و ترقی کی آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جائے گی۔
آخر میں چک بست برج نارائن کا شعر:

Advertisements
julia rana solicitors london

ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply