نہلے پہ دہلہ۔۔عارف خٹک

انسان ہمیشہ اپنی کہی ہوئی باتوں میں کیسے پھنس جاتا ہے، یہ تو شاید آپ بھی جانتے ہوں گے۔ ہم زبان سے الفاظ نکالتے وقت قطعاً نہیں سوچتے کہ ہمارے آج کے الفاظ کا نتیجہ کل کیسے نکلے گا۔ میں ذاتی طور  پر ازدواجی رشتے میں ساتھی کی وفاداری پر یقین رکھنے والا بندہ ہوں کیونکہ گاؤں کے  حجروں میں بچپن سے اپنے بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ جس کا دروازہ لات مار کر کھولوگے ،وہ بھی تمہارا دروازہ   لات مار کر ہی  کھولے گا۔ اگر آج تم  نے شیر محمد خان کی بیٹی کو  بُری  نظر سے دیکھا تو کل شیرمحمد خان کا بیٹا گل شریف خان تمھاری بہن کو ہاتھ لگائے گا۔  ہمارے  کان کی  لوئیں تک تپ جاتیں کہ ایسا دن آنے سے پہلے موت ہی آجائے  تو بہتر ہوگا۔ سو شیر محمد خان کی بیٹی کو ہمیشہ اچھی نظر سے دیکھا کہ اپنی بہن کی عزت بچانی مقصود تھی۔ ایک دن دادا نے حجرے کی بھری محفل میں جلال میں آکر پوچھا
“حرام زادوں تم میں سے کسی نے کل پرسوں جمعہ خان کی کھوتی کیساتھ کچھ کیا تو نہیں ہے؟”۔
ہم سب کو سانپ سونگھ گیا۔ سب نے باجماعت نفی میں جواب دیا
“للہ ایسا جرم نہیں کیا”۔ مگر دادا آپے سے باہر ہوتے جارہے تھے۔ چچا لوگوں نے اپنے ابا حضور کو بازو سے پکڑ کر بٹھایا کہ ابا اس عمر میں اتنا غصہ ٹھیک نہیں ہے۔ گرج کر بولے
“مجھے یہاں پچیس حرامیوں میں کوئی بتائیگا کہ کس نے جمعہ خان کی  کھوتی کیساتھ منہ کالا کیا ہے؟۔”
دادا اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔ وہ کسی کی  نہیں سن رہے تھے۔ بالآخر تایا ابا ذرا ناراض لہجے میں مخاطب ہوئے۔
” ابا جی آپ یونہی زبردستی کیسے الزام ان بچوں پر لگا رہے ہیں؟”۔
دادا نے اپنی چھڑی اٹھائی اور بڑے بیٹے کی آنکھوں میں جھانک کر سرد لہجے میں مخاطب ہوا۔
“پھر ہماری کھوتی کی دم کیوں گیلی ہے؟”۔
میرا سر شرمندگی سے ڈھلک گیا۔

اس دن یہ بھی معلوم ہوا کہ شیر محمد خان چچا کی بیٹی کو تو چھوڑ و،جمعہ خان کی کھوتی کو بھی کچھ نہیں کہنا ،کیونکہ بدلہ ہماری کھوتی نے دینا ہے۔ سو ساری جوانی اس ڈر میں گزری۔

شادی ہوئی تو کسی اور کی طرف اس لئے نہیں دیکھ سکے کہ کوئی ہماری بیوی کو دیکھ لے گا لہذا ڈر کے مارے کسی کو نہیں دیکھا ورنہ یورپ، روس اور سنٹرل ایشیاء میں ایسی ظالم راتیں بھی ہم پر گزری ہیں کہ خود کو کمرے تک محدود رکھا، البتہ ساتھ والے کمرے کی چیخوں سے خود کو محدود و محفوظ  نہیں رکھ پائے۔

ایک دن دبئی کی ایک رنگین شام، حاجی ہدایت اللہ نے علم میں اضافہ فرمایا

“خٹک خان کورونا کیوجہ سے دنیا تباہ وبرباد ہوگئی ہے۔ اللہ ہماری لغزشوں کو معاف فرمائے”۔ میں نے “آمین” کہا۔ دوبارہ مخاطب ہوئے۔
“ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے سوائے روسی لڑکیوں کے”۔
میں نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز سے ان کو دیکھا۔ کمینی ہنسی ہنسنے ہوئے پوچھا
“چلیں پھر کسی روسی بچی کو لے آتے ہیں”۔
میں نے فورا ً کانوں کو ہاتھ لگایا۔
“استغفراللہ میں نہیں کرتا یہ کام۔ اگر میں نے یہ کام کیا کوئی میری بیوی کو بھی ہاتھ لگائیگا۔ لہذا ابھی نہیں۔۔۔۔۔۔ البتہ دس سال بعد جب وہ پچاس کی ہوجائیگی تو دل کھول کر کرونگا کیونکہ اس وقت وہ اس قابل نہیں ہوگی کہ کوئی اس کو دیکھے بھی”۔

ڈیرہ دبئی میں رات کو گلیوں میں کھڑی افریقی، روسی، ہندوستانی و پاکستانی دوشیزائیں پچاس پچاس درہم پر کھلم کھلا دعوت گناہ کی دعوتیں دیتی رہتی ہیں۔ ایک رات مجھے کچھ افریقی لڑکیوں نے پکڑ لیا کہ بیس درہم پر مان جاؤ۔ میں نے مجبور ہوکر کہا
” سوری میں ہم جنس پرست ہوں وہ بھی نیچے والا”۔

کالی حسیناؤں نے مجھے ایسے چھوڑا جیسے مجھ میں کرنٹ ہو ۔ میں خوش ہوگیا کہ چلو اب اچھا بہانہ ہاتھ آگیا۔ اب جو بھی دعوت گناہ دے گی یہی کہوں گا۔
اگلی شام اسی گلی سے گزرنا ہوا تو وہی افریقی لڑکیوں نے دوبارہ پکڑ لیا۔ میں نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ میں ہم جنس پرست ہوں۔ وہ ہلکی سی  مسکرائی، کہنے لگیں
“بے فکر رہو وہ دیکھو تیرے لئے یہ سروس بھی ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

سامنے دیکھا تو چھ فٹ کا کالا حبشی کھڑا کمینگی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ شکر ہے اس وقت پولیس سائرن کیوجہ سے سب تتر بتر ہوگئے اس کے بعد ہم نے دبئی میں شام کو اکیلے گھومنا ترک کردیا ہے کہ دس سال بعد ننگا گھومیں گے یورپ کی گلیوں میں۔ تب مخالفین کی پرواہ بھی نہیں کریں گے۔ ان شاءاللہ!

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply