منشیات اور دہشتگردی۔۔۔محمد اشفاق

سرکاری تخمینے نشے کے عادی پاکستانیوں کی تعداد نوے لاکھ کے لگ بھگ بتاتے ہیں، غیرسرکاری تنظیموں کے خیال میں ڈیڑھ کروڑ پاکستانی یعنی کل آبادی کا سات فی صد منشیات استعمال کرتے ہیں۔ سب سے عام اور مقبول ترین نشہ چرس ہے۔

بھنگ سبز رنگ کہ دل تنگ نہ باشد
او ملک گدارا کہ دراں بھنگ نہ باشد

بھنگ اور چرس برصغیر کے مقامی نشے ہیں، یہ یہاں کی مقامی تہذیب و ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔جہاں بھنگ کے سبز پتوں سے مستی کشید کرنے والے ماہرین کم ہوتے جا رہے ہیں، وہیں اپنی سانسیں دختر بھنگ یعنی چرس کے دھوئیں کیلئے وقف کرنے والے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یوں تو مملکت خداداد کا ہر صوبہ اور ہر خطہ ہی چرس کی پیداوار میں بڑی حد تک خودکفیل ہے مگر چترال کی چرس اپنی گلابی مائل رنگت، رس بھری چپچپاہٹ اور دیرپا نشے کی بناء پر سب سے بہتر مانی جاتی ہے۔ بروغل کی وادی سردیوں میں جب چار ماہ کیلئے پوری دنیا سے کٹ جاتی ہے تو وہاں کے بوڑھے، بچے، جوان مردوزن ہڈیوں میں اترتی سردی کا مقابلہ اسی لاجواب دوا سے کرتے ہیں۔

موضع نون اسلام آباد کی زیارت پہ سالانہ عرس چل رہا ہے۔ گدی نشین تخت پہ رونق افروز ہیں، ان کے پیچھے آٹھ دس مصاحبین سگریٹوں میں چرس بھرنے میں مشغول ہیں، بھرے ہوئے سگریٹ اعلیٰ حضرت کے سامنے ڈھیر کر دیے جاتے ہیں۔ حضرت وقفے وقفے سے مٹھی بھر سگریٹ اٹھا کر مریدان باصفا کی جانب پھینک دیتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں جنہیں یہ تبرک مل جاتا ہے۔ چرس برصغیر کی ہندو مسلم مذہبی ثقافت کا اہم جزو ہے، مزاروں اور چرس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی درباروں پر بھنگ اور چرس کے استعمال پہ چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ پورے ملک ہی میں چرس کا حصول اور استعمال اتنا ہی آسان ہے جتنا کسی دربار پہ۔ یہ پورا سال باافراط اور نہایت مناسب نرخوں پر دستیاب رہتی ہے، مانگ اس قدر ہے کہ ہزاروں ٹن سالانہ پیداوار کے باوجود افغانستان سے درامد بھی کرنا پڑتی ہے۔ مگر افغانستان سے صرف چرس ہی درامد نہیں کی جاتی۔

1979 میں پاکستان میں ہیروئن کے عادی افراد کی تعداد صفر تھی۔ 1980 میں یہ بڑھ کر پانچ ہزار ہو گئی۔ اللہ جنرل ضیاء الحق کے درجات مزید بلند فرمائے، ان کے بقیہ آٹھ سالوں میں یہ تعداد کئی سو گنا بڑھ کر بارہ لاکھ تک پہنچ گئی۔ 1984 میں امریکی مارکیٹ میں ہیروئن کی ساٹھ فی صد اور یورپ کی اسی فیصد ڈیمانڈ پاکستان پوری کر رہا تھا۔

2017 میں افغانستان میں ریکارڈ 9200 ٹن پوست کاشت ہوئی ہے، اس کا چالیس فیصد یعنی کوئی 3700 ٹن پوست یا اس سے کشید کردہ مادے پاکستان پہنچ جاتے ہیں جہاں یہ چالیس لاکھ مقامی ہیروئنچیوں کی طلب پوری کرنے کے بعد باقی دنیا کو برامد کر دیے جاتے ہیں۔

چرس اور ہیروئن کے علاوہ ایل ایس ڈی، کوکین، کرسٹل میتھ وغیرہ بھی چھوٹی مگر مضبوط مارکیٹ رکھتے ہیں۔ دو تین برس سے آئس بہت تیزی سے ایل ایس ڈی اور کوکین کی مارکیٹ کیپچر کر رہی ہے۔ یہ پڑھے لکھے اور نسبتاً خوشحال پاکستانیوں کے شوق ہیں، اس لئے ان دواؤں کے ڈیلر حضرات بھی زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوش اخلاق لوگ ہوتے ہیں جیسا کہ میڈیکل سٹورز کی ایک معروف چین۔

پاکستان میں منشیات کی دن دگنی، رات چوگنی ترقی کرتی متوازی معیشت کا حقیقی حجم تو کوئی نہیں جانتا، تخمینہ چار سے پانچ ارب ڈالرز کا بتایا جاتا ہے۔ نارکو انڈسٹری کروڑوں افراد کی ضرورت پوری کر رہی ہے اور لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کر رہی ہے۔ اس سے حاصل آمدنی ہماری رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کیلئے تازہ خون کی حیثیت رکھتی ہے- منشیات کے سماجی اثرات پہ تو بات ہوتی رہتی ہے، میرا مسئلہ کچھ اور ہے۔

منشیات فروشی اور دہشتگردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ نارکوٹیررزم یعنی منشیات اور دہشت کا گٹھ جوڑ پوری دنیا ہی میں پایا جاتا ہے- ہم مگر ترکیب میں خاص یوں ہیں کہ ہمارے پڑوس میں افغانستان پایا جاتا ہے۔

اسی کی دہائی ہی سے افغانستان میں لڑاکا گروہوں کی معیشت کا ایک سہارا پوست کی کاشت اور تجارت بھی رہی ہے۔ جناب مرد مومن کی بیباک قیادت میں ہم نے بھی اس کارخیر میں خوب ہاتھ بٹایا۔ ضیاء دور کے کے پی کے گورنر جنرل فضل حق نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت اس نوزائیدہ انڈسٹری کو پاکستان میں اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے میں بھرپور مدد فراہم کی اور خوب نام اور دام کمایا۔ طالبان حکومت کے ایک مختصر سے دور کے علاوہ پوست کی کاشت آج تک افغان معیشت کے اہم ترین ذرائع آمدن میں شمار ہوتی ہے۔ 2004 میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب پوست کا افغان جی ڈی پی میں حصہ اکسٹھ فیصد تھا۔

یہ بتانے کا مقصد یہ کہ پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دار ادارے منشیات اور دہشتگردی کے گٹھ جوڑ سے شروع سے واقف ہیں، افغانستان کے ساتھ ہماری 2400 کلومیٹر سرحد سے منشیات آتی کیسے ہیں اور بھارت کے ساتھ ہماری 2900 کلومیٹر سرحد سے جاتی کیسے ہیں، یہ ان سے بہتر بھلا کون جانتا ہے۔ امریکا اگر ڈیڑھ کھرب ڈالر افغانستان میں جھونک کر بھی مزاحمت کو کچلنے میں ناکام رہا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ نارکوانڈسٹری ہے، یہ بھی انہیں اچھی طرح معلوم ہے اور یہ بھی کہ کنہڑ اور ہلمند میں متحرک ٹی ٹی پی کی فنانسنگ کا بڑا ذریعہ کیا ہے؟

ایسے میں جب آپ نیشنل ایکشن پلان دیکھتے ہیں تو آپ کو حیرت ہوتی ہے کہ کیسے اس میں نارکوٹیررزم کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ اس ماسٹرپلان کی کوئی ایک شق بھی منشیات کے متعلق نہیں ہے۔ ہم سوال اٹھائیں تو ایک شق جس میں دہشتگرد افراد اور تنظیموں کے ذرائع آمدن ختم کرنے کی بات کی گئی ہے، سنا دی جاتی ہے۔ جبکہ اس شق کے تحت بھی نارکوٹیررزم کے بارے میں آج تک ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا، ایک جامع اور مؤثر نارکوٹکس پالیسی کی تیاری تو رہی دور کی بات۔

اربوں ڈالر کی منشیات افغانستان سے پاکستان آنے، پورے پاکستان میں آزادانہ بکنے اور پاکستانی سرحدوں اور سمندری حدود سے باقی دنیا میں پھیلا دیے جانے میں ہمارے سرحدی محافظوں، ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں، ہماری پارلیمنٹ اور حکومت کی طرف سے ایک ذرہ برابر مزاحمت بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ عوام کی اشک شوئی کیلئے مہینے دو مہینے بعد چرس یا ہیروئن کی بہت بڑی کھیپ پکڑے جانے کی خبر چلا دی جاتی ہے، جس میں سمگلر عمومآ موقع سے فرار ہو جاتے ہیں۔اس کے پیچھے کیا کہانیاں ہوتی ہیں، آپ میں سے بیشتر جانتے ہی ہوں گے۔ سال میں ایک آدھ مرتبہ اینٹی نارکوٹکس فورس منشیات جلانے کی تقریب کا انعقاد کرتی ہے جس میں ٹنوں کے حساب سے منشیات ضبط کئے اور جلائے جانے کو اپنا سنہری کارنامہ بتایا جاتا ہے۔

اینٹی نارکوٹکس فورس کا ذکر کیا تو 2003 یعنی آج سے پندرہ برس قبل ایک بریگیڈیئر صاحب سے ہونے والی ملاقات یاد آ گئی۔ آپ اے این ایف میں دو سال بلوچستان لگا کر تشریف لائے تھے۔ جاتے سمے ان کے پاس میجری کے دور میں خریدی سیکنڈ ہینڈ کرولا تھی، واپسی جس مرسیڈیز جیپ میں ہوئی، اس کے ساتھ کی گاڑی اس وقت اسلام آباد بھی ہم نے نہیں دیکھی تھی، شہر میں ایک پٹرول پمپ بھی خرید لیا تھا اور یقیناً اس پہ ہذا من فضل ربی بھی لکھوایا ہوگا۔ جناب نے خود فرمایا کہ ماں کی دعا لگ گئی تھی جو یہ پوسٹنگ مل گئی ورنہ ساری سروس بیکار جا رہی تھی۔

جو ادارہ سرحدوں کے تحفظ کا ذمہ دار ہے، جس نے اینٹی نارکوٹکس فورس کی باگ ڈور خود سنبھال رکھی ہے، جس کی مایہ ناز ایجنسیاں دہشتگردوں اور منشیات فروشوں کے کراچی سے خیبر تک ناپاک اشتراک کی عینی شاہد ہیں۔ جب وہی ادارہ کمال ہوشیاری سے آپ کی توجہ نارکو ٹیرر سے ہٹا کر کرپشن کے پیسے کو دہشتگردی کیلئے استعمال کئے جانے کی احمقانہ تھیوریاں پیش کرتا ہے اور ان کی آڑ میں ایک سیاسی جماعت کی سیاسی قیادت سے سودے بازی کرتا ہے تو پھر دہشتگردی کے پیچھے وردی کا نعرہ یا الزام لگانے والوں کو سامعین اور فالوورز تو میسر آئیں گے ہی۔

ہر معاملے کو سکیورٹی اور قومی سلامتی کی عینک سے دیکھنے والوں نے کتنے آرام سے قومی سلامتی سے جڑے اس اہم ترین معاملے کو سکیورٹی کی کارپٹ تلے چھپا دیا ہے، اس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔

اگر چار سے پانچ ارب ڈالر کی متوازی معیشت کا صرف دس فیصد بھی دہشتگرد افراد اور تنظیموں کے اکاؤنٹس میں جا رہا ہے تو اگلے بیس سال بھی ہم صرف نوے فیصد علاقہ ہی کلئیر کرا پائیں گے اور دہشتگردوں کی صرف کمر ہی توڑ پائیں گے۔ دہشتگرد اس ٹوٹی کمر کے ساتھ ہماری ناک کے نیچے چارپائیاں توڑتے رہیں گے اور ہم قومی سلامتی کے تقاضوں کی خاطر عوام، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی ناک رگڑنے کے منصوبے بناتے رہیں گے۔

یاد رکھیں منشیات اور دہشتگردی ہمارے ملک میں ایک ساتھ آئے تھے۔ جب تک ایک باقی رہے گی دوسری بھی کہیں نہیں جائے گی۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ ان دونوں کو یہاں لانے والا کون تھا تو آپ کو یہ سمجھ بھی آ جائے گی کہ یہ اب تک یہاں موجود ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

کل 26 جون دنیا بھر میں منشیات کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا گیا، یہ تحریر اسی کیلئے لکھی گئی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply