الیکشن اورینٹڈ اپروچ۔۔حسان عالمگیر عباسی

عوامی جماعت بننا مشکل نہیں ہے۔رویوں میں رد و بدل سے ایسا ممکن ہے۔ رویوں کی بنیاد نظریہ ہوتا ہے لیکن نظریے کا جوں جوں ارتقائی مراحل سے گزر ہوتا ہے رویوں میں بدلاؤ آنے لگتا ہے کیونکہ جس نظریے پہ مکان کھڑا کیا ہوتا ہے وقتاً فوقتاً دیواریں کمزور ہونے لگتی ہے، چھتوں سے پانی ٹپکنے لگتا ہے، اور دروازے کھڑکیاں بھوت بنگلے کا پتہ دینے لگتی ہیں۔ جہاں بہت سے معاملات میں رویوں میں تبدیلی رونما ہوئی ہے تو انتخابات یا الیکشنز کو لے کے بھی سدھار کی گنجائش بلا شبہ باقی ہے۔ جس نظریے پہ مکان کھڑا کیا تھا اگر برقرار (maintain) رکھنے کی سعی کی جائے تو یہ کیا مانگتا ہے؟ مکان بدلنے کی گنجائش تو نہیں ہے۔ مکان پرانا سرانا ہی سہی لیکن وہی ہے اور اسے ہی باقی رہنا ہے البتہ اسے میک اپ، رنگ روغن، فرنیچرز کی پالیشنگ، اور پنکھوں کو نئے پروں کی ضرورت ہے۔

سید مودودی رح کی بات کے پیچھے پناہ حاصل کرنا اور ناکامی چھپانے سے کہیں بہتر ہے کہ ان کے کہوں کو نئے رویوں، نئی سوچ، نئے اطوار اور نئے طریقوں سے جلا بخشی جائے۔ جب انھوں نے کہا کہ ہمارا کام صرف کوشش ہے اور کامیابی خدا کے حوالے ہے تو دوسری جانب اس سوچ کو اپنانے سے کیوں بھاگ رہے ہیں کہ وہ بزرگوں کے بچھائے بستروں پہ آرام فرمانے کے بھی حق میں نہیں تھے۔ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھنے اور چھا جانے کو دعوت مانتے تھے۔ انھوں نے یہ احسان کیا کہ مسجد کی صفوں سے لپکے لوگوں کو مسجد سے باہر نکال کھڑا کیا اور سب ساری زمین کو مسجد پکارنے کا قرآنی فلسفہ زندہ کر دیا لیکن کیا اتنا ہی مقصود تھا؟ جب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اچھائی برائی سے ہاری ہے تو برائی سے ہارنا ارادوں کی کمزوری کا باعث تو نہیں ہوتا۔ ہر بار یہی دلیل لانا اور اسی سوچ سے انتخابات میں کودنا قوت بخشنے کا باعث ہونا چاہیے تھا لیکن اس مضبوط دلیل کا سہارا لے کر ارادوں کی کمزوریاں کیوں جنم لینے لگیں؟ دلیل موقع و محل کے حساب سے بھلی تھی لیکن کیا وہی دلیل ازل سے ناکامیاں چھپانے کے لیے استعمال میں لانے کے لیے گھڑی گئی تھی؟ مولانا کی باتوں سے امید کے حصول کی بجائے الٹا انھیں اپنی ناکامیوں کے سامنے لا کھڑا کر دیا گیا؟

وسیم گل بھائی نے تحریر میں ذکر کیا ہے کہ انقلاب کا طریقہ پاکستان میں صرف انتخابات ہیں۔ آگے کہتے ہیں کہ انقلاب یعنی اسلامی نظام حیات کا واحد طریقہ جب الیکشنز ہی ہیں تو ضروری ہے کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی جائے۔ مولانا کی باتیں سر آنکھوں پر لیکن انھوں نے نت نئے انداز اپنانے سے کبھی روکا اور نہ ہی اپنے فلسفے کو آنے والوں کی ناکامیاں چھپانے کے لیے ترتیب دیا تھا۔ ان کی باتیں تب دلیل کے طور پر لائی جا سکتی ہیں جب تن من دھن کی قربانیاں دے کر بھی کچھ ہاتھ نہ لگے۔ یہاں رواج ہی الٹ ہے۔ ان کے فلسفے کے پیچھے چھپ کر ایسا ایسا کچھ ‘بنایا’ جا رہا ہے کہ غالباً یہی وہ وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ناکامی بار بار ہاتھ لگ رہی ہے۔ پلانٹڈ بیانیہ ہے یا پکی پکائی دیگ ہاتھ لگ گئی ہے۔ ہر بندہ اس پکی پکائی دیگ پہ بیٹھ کر کہے جا رہا ہے: ہم صرف کوشش کے مکلف ہیں، ہم خدا کے سپاہی ہیں، ہم ہار کے بھی جیت گئے ہیں، ہم برائی سے ہارے ہیں، اور ہم ہی ہم ہیں، ہمارا کوئی متبادل نہیں, اور دہوکا تو عوام کھا گئی وغیرہ وغیرہ۔

اس سوچ کے ساتھ عوام آپ کو ایماندار، دیانت دار اور فرشتہ صفت بھلے کہتی رہے, بروز انتخابات ٹھپے کے لیے انھیں وہی معقول لگنا ہے جنہوں نے ان پہ کام کیا ہے۔ جیت جائیں تو شادیانے بجانے کا مطلب ہے کہ یہ جیت نئی نویلی دلہن کی طرح ہے اور حصول میں خاصی محنت کا عمل دخل ہے لیکن معمولی سے پیش رفت ماننا ایسا ہے جیسے ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ جب ہر شخص امیدوار بن کر میدان عمل میں کودے گا تبھی رسپانس کا امکان ہے۔ عوامی بننے کے لیے عوام میں آنا، ان کے مسائل سننا، حل کرنا، دل جیتنا، اور دلوں پہ حکومت کرنا ضروری ہے۔ اجلاس، شورائیں، پروگرامات اہم ہیں لیکن اہم یہ بھی ہے کہ اس اجلاس، شورائیت اور بند کمرے کے پروگرام کا عوام الناس پہ کیا اثر پڑا ہے مثلاً فضا میں کھلے آسمان تلے عوام کے سمندر کو کسی گراؤنڈ میں قرآن و سنت سمجھانا کسی مسجد کے بند کمرے میں محدود ہوکر چند افراد بلکہ ارکان اور اس کے خاندان تک پیغام پہنچانے سے بہتر ہے۔ جب یہ ذہن میں رہے کہ کل انتخابات ہیں اور عوام الناس نے ہاں یا ناں میں جواب دینا ہے تو ہر چیز الیکشن کے گرد گھوم سکتی ہے یا اسے الیکشن اوری اینٹڈ اپروچ (election oriented approach) کا نام دے دیا جائے۔

آنے والے چند دنوں میں (PP 51) میں ضمنی انتخابات ہیں۔ اسی کو مثال لے لیں اور ہر بندہ یہ سمجھے کہ وہ چودھری ناصر محمود کلیر ہے اور اسی سوچ، ہمت، جذبے، لگن، اور اپروچ کے ساتھ میدان میں اترے تو عوام الناس نے ضرور کہنا ہے کہ [اے بندہ دلیر اے, اے ناصر محمود کلیر اے]۔ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں بندے نامزدگیوں کے بعد فائنل ہو رہے ہیں اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ الیکٹ ہونے کے لیے فائنل تک رسائی حاصل کرے اور فتح سمیٹے تو ضروری ہے کہ ہر ایک کی زبان اس ورد سے تر رہے مثلاً [حماد المحمود جت جائے, ایہو میرا جی کردا اے]۔ ہر ایک کو اپنے اپنے حلقوں میں اپنے اپنے بندوں کے لیے عوام میں آنا اور عوامی پذیرائی کے لیے عوامی زبان کو استعمال میں لانا ہے۔ اگر ترانے میں میوزک آ جائے تو عوام کھچی چلی آتی ہے۔ جماعت کا ترانہ؛ ‘ویلکم سراج الحق ویلکم’ عوامی رنگ سے رنگا ہوا ہے۔ اگر بہاولپور میں سراج الحق صاحب کا گھوڑے یا اونٹ پہ ڈول کی تھاپ پہ استقبال ہو رہا ہے تو عوام میں یقیناً مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے میں دیر نہ لگنے پائے گی۔ ارطرل کے میوزک نے فرض سے سبکدوشی اور سستی پہ ابھارا اور نہ ہی غلط عمل کی طرف مائل کیا اور اگر کچھ کیا تو صرف مثبت کی جانب موٹی ویٹ کیا۔ جماعت اسلامی گلی محلے کی مذہبی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ دینی سیاسی جماعت ہے اور سیاست ہی اس کا مزاج ہے۔

جس طرح سے یہ خدمت کرتی ہے لا جواب ہے۔ کووڈ میں خدمات کی مثال نہیں ملتی۔ سیلاب میں بھی مستحقین تک پہنچ جاتی ہے۔ حکومت وقت اسے ہی بہترین ویلفیئر فاؤنڈیشن کہتی ہے تو یہ کیش کیوں نہیں ہو رہا کیونکہ ہمیں محض ثواب جو کمانا ہے, وہ جلد از جلد مل جائے اور باقی کا حساب عوام جانے اور اس کی مرضی! حالانکہ الیکشن اورئنٹڈ اپروچ رکھ کر بھی ثواب دارین کا حصول عین ممکن ہے۔ عوام کو باور کرایا جائے کہ اگر یہ اتنے کم وسائل اور اختیارات کے ساتھ اتنی عظیم خدمات کا سہرا سر باندھ سکتے ہیں تو حکومت پا کر کیا کچھ کر سکتی ہے یہ سوچنے کے لیے عوام کو سر کھجانے اور سوچنے پہ مجبور کرنے کی ذمہ داری کارکنان کی ہے اور ہر کارکن امیدوار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

امیدوار جو بھی ہے وہ جماعت کا ہے اور جماعت کا امیدوار ذات کے لیے نہیں بلکہ جماعت کے لیے کام کرتا ہے اور اگر ذات ہی اہم ہوتی تو خدا کی قسم آج دیر کا علی سینیٹ الیکشن کے لیے ضیاء آفریدی کو چند ٹکوں میں ضمیر فروخت کر چکا ہوتا۔ اس میں شک نہیں ہے کہ دیانت و امانت میں جماعت سپریم کورٹ سے سرٹیفائیڈ ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ سب عوام میں کیش کرایا جائے۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب الیکشن میں فتح ہی پہلی ترجیح ہوگی کیونکہ یہی پہلی سیڑھی ہے اور ہر ایک امیدوار بن کر سمندر میں کودے گا آیا وہ تیراکی کا ماہر ہے، گزارا کرتا ہے یا سرے سے تیراکی جانتا ہی نہیں ہے۔ باقی کے ساتھی ارکان و کارکنان ڈوبنے نہیں دیں گے, اس کی گیرنٹی (guarantee) ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply