مولوی کی سلی سلائی پالیسی۔۔۔اسد مفتی

امریکہ کے بعد اب ہالینڈ میں بھی خواتین کے لیے مخصوص مسجد کا افتتاح کردیا ہے ۔خبر کے مطابق مسلم خواتین نے گزشتہ دنوں دارالخلافہ ایمسٹر ڈیم میں ایک ایسی مسجد کا افتتا ح کیا ہے جس میں صرف خواتین عبادت کے فرائض سر انجام دے سکیں گی، اس مسجد کا افتتاح مصر کی خاتون نول السعادری کے ہاتھوں ہواجس کے خلاف مصر کی ایک عدالت میں اسلام سے برگشتہ اور مرتد ہوجانے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا تھا جس پر مصر کی مختلف لبر ل تنظیموں نے عدالت کے فیصلے کیخلاف احتجاج کیا ،ملک میں بڑھتے ہوئے ہنگاموں سے خوف زدہ ہو کر یہ مفکر اسلام خاتون ہالینڈ چلی آئیں ، انہوں نے مسجد کے افتتاحی اجلاس کے منبر پر کھڑے ہوکر اپنا وعظ مکمل کیا جس میں عورتوں کو نصیحت کی کہ وہ مردوں کی بالا دستی کے خلاف  اٹھ کھڑی ہوں اور ان کی بالا دستی کو قبول کرنے سے انکار کردیں ۔ اپنے مساوی حقوق کے مطالبہ پر زور دیتے ہوئے اس خاتون نے کہا کہ فریضہ حج کے تعلق سے بیان دینے اور اسلامی قانون وراثت کے قانون میں تبدیلی کرنے کے مطالبے کی پاداش میں روایتی علما حضرات نے مصر کی ایک عدالت میں ان کے خلاف اسلام سے برگشتہ اور مرتد ہوجانے کا الزام عائد کرکے مردوں کی بالا دستی کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔

اس نئی مسجد جس میں نماز کی امامت صرف خاتون کرے گی ،کے افتتاحی موقع پر زیادہ تر مرد حضرات نے شرکت کی۔ یورپی یونین میں اسلامی تنظیم کے صدر اور سیکرٹری جنرل نے خواتین کے لیے مخصوص اس مسجد کے حوالے سے کہا ہے کہ مغربی معاشرہ اس طرح کی مساجد کی حوصلہ افزائی کرکے مسلمانوں کی توجہ اسلام کے حقیقی مسائل سے ہٹانا چاہتا ہے۔یاد رہے کہ ہالینڈ کی 18 ملین آبادی میں مسلمانوں  کی تعداد 40 لاکھ کے لگ بھگ ہے جن کی اکثریت کا تعلق ترکی اور مراکش سے ہے۔  ہالینڈ  میں  450 مساجد ہیں جبکہ ایک ہزار کے قریب اسلامی ادارے ہیں ۔

اس سے قبل ٹرمپ کے دیس امریکہ کی ریاست ورجینیا میں افریقہ سے تعلق رکھنے والی اسلامیات کی ایک پروفیسر امینہ نے نیویارک اپر مین ہٹن کی ایک عمارت ایمسٹر ڈیم ایونیو میں ایک چرچ کے بڑے ہال میں نماز جمعہ کی امامت کر کے تاریخ اسلام میں اپنا نام لکھوا لیا،اس اسلامیات کی پروفیسر جس نے بہت پہلے اسلام اور عورت کے عنوان سے ایک کتاب لکھ کر مسلمان مفکروں ، دانشوروں اور علما کو چیلنج دے رکھا تھا نماز جمعہ کے خطبہ میں کہا کہ “آج مسلمان مرد یہ بتاتا ہے کہ مسلمان عورت کو کیسا ہونا چاہیے جبکہ وہ کبھی عورت رہا ہی نہیں “

امینہ ودودے نے مرد حضرات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “ قرآن پاک میں کہا گیا ہے کہ جب اذان کی آواز سنو تو دنیاوی کام چھوڑ کر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لیے روانہ ہوجاؤ “۔۔۔جب اس فرمان میں قرآن نے صرف مرد  حضرات کو ہی مخاطب نہیں کیا تو عورت کو مسجد سے کیسے دور رکھ سکتے ہیں ؟۔۔۔انہوں نے اپنے خطبے میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ جب خدا “مذکر”ہے نہ “مونث” تو پھر اسے مذکر ہی سے کیوں مخاطب کیا جاتا ہے؟۔۔۔

میرے حساب سے بھی ملک عزیز میں پچاس فیصد سے زائد آبادی رکھنے والی بے زبان مخلوق یعنی خواتین کو مسجد میں جاکر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ دنیا اس بارے میں کیا نتائج اخذ کرے گی؟۔
اور پھر مسجد سے دور رکھی جانے والی مائیں کیونکر اور کس منہ سے اپنے بچوں کو مسجد،خدا ،سجدہ اور عبادت  وغیرہ کی اہمیت کے بارے میں تربیت  دے سکیں گی ؟
زندہ لوگوں کی بات چھوڑیے ،عورت   مُردوں (قبرستان) کے پاس بھی نہیں جاسکتی اور ہم ہیں کہ پھر بھی “برابر” کے حقوق کا دعویٰ کررہے ہیں ۔

مسلم ویب سائیٹ پر چھپنے والی ایک رپورٹ میں مصر کے مفتی اعظم شیخ علی نے کہا ہے کہ اگر نمازی چاہیں تو عورت کے امام بننے کی اجازت ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق عر ب ٹی وی العربیہ نے شیخ علی محترم سے ایک انٹر ویو بھی کیا ہے جس میں شیخ نے کہا کہ فقہ میں عورت کی امامت   پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ اس میں عورت کے امام /امامہ بننے کی گنجائش ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ امام طبرانی اور امام العربی کے نزدیک عورت کی امامت جائز ہے۔

دوسری طرف آج کے اسلام میں عورت کی کیا حیثیت باقی رہ گئی ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اسلام کے گڑھ سعودی عرب میں کوئی عورت اپنے مرد ولی کے دستخط کے بغیر ہسپتال میں بغرض علاج داخل نہیں ہوسکتی۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے اردو اخبار جنگ نے “اجتہاد ناگزیر ہے” کے عنوان سے اپنا اداریہ سپرد قلم کیا ہے۔ جس میں اخبار جنگ لکھتا ہے کہ “ایک مکتب فکر کے نزدیک صدارتی نظام، موسیقی اور نظام تعلیم ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں اجتہاد ہونا چاہیے ۔”

اسلام میں موسیقی کے بارے میں اجتہاد کرکے اسے مشرف بہ اسلام کیا جاسکتا ہے تو پھر خواتین کی امامت کے بارے میں مرد حضرات کیوں الرجک ہیں ؟ جب یہ سب لوگ تعلیم کرتے ہیں کہ آج کے مسلم معاشرہ میں اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اجتہاد کی اہمیت غیر معمولی ہے تو پھر خواتین کی امامت بارے اتنی بے رخی کیوں اختیار کی جارہی ہے؟

ایک دلچسپ بات جس کا ذکر میں کرنا چاہوں گا ۔۔۔وہ یہ ہے کہ کیا یہ حسنِ اتفاق ہےکہ دونوں خواتین جنہوں نے مساجد میں امامت کا بیڑہ اٹھایاہے ان کا تعلق افریقہ سے ہے ۔اس لیے میرے حساب سے ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کے علمائے کرام اور مذہبی مفکر عورت کا روحانیت میں مردوں کے برابر ہونے کی خواہش کا احترام کریں کہ دنیائے اسلام وسیع اور متنوع ہے۔اگر خواتین گھروں اور  ٹیلی ویژن پر با آواز بلند قرآن پاک کی تلاوت کرسکتی ہیں تو مسجد میں خدا کا نام لینے پر کیوں پابندی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں لازم ہے کہ دور حاضر کے اسلامی مسائل کے حل تلاش کریں  جو کہ ایک طویل عرصہ سے ہماری پس ماندگی کا باعث ہے۔ اب عورت کی امامت کے مسئلے کو ہی سمجھ لیجئے ،سوائے برصغیر کے مسلمانوں کے دنیائے اسلام سے کوئی بلند آواز سامنے نہیں آئی اور برصغیر کے مسلمانوں کا اطبہ یہ ہے کہ وہ خود کو ہوش مند،دانشمند اور خرد مند سمجھتے ہیں جبکہ باقی دنیا کو انتہائی درجے کا احمق، نادان اور بے وقوف گردانتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ من گھڑت داستانوں کو تاریخی واقعات اور جھوٹی سچی مذہبی روایات کو حقیقت کا نام دے کر یہ امید کرتے ہیں کہ ساری دنیا انہیں حقیقت سمجھیں اور یہ بات میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکاہوں کہ ہمیں قدامت پسندی کے جال کو توڑنا ہوگا ۔اصلاح خوف کے سائے میں نہیں ہوتی۔ اس کے لیے جرات رندانہ چاہیے ۔
میں آج کا اپنا یہ کالم یگانہ کے اس شعر پر تمام کرتا ہوں
سب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا
سر پِھرا دے انساں کا ،ایسا خبطِ مذہب کیا!

نوٹ:مضمون کے مندرجات  صاحب ِ مضمون کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں ،ادارے کا اس سے اتفاق ضروری نہیں!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply