پڑھنے لکھنے والے لوگ معاشرے کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہ باتیں ہمیں کتابوں سے پتہ چلیں۔ عام سے گھرانے کا ویل چیئر پر بیٹھا شخص اپنے جیسے لوگوں کے لیے کیا کر سکتا ہے۔ یہ سوال کئی سالوں تک میرے ذہن میں گردش کرتا رہا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی اور پھر لکھنا شروع کر دیا۔ جب لکھنے کی طاقت کا علم ہوا تو نابینا اور سماعت سے محروم افراد کے مسائل پر لکھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے خواجہ سراء کمیونٹی کے مسائل پر لکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائی۔
خواجہ سراء کمیونٹی اور میرے جاننے والے بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کہ لکھنا چھوڑیں اور کوئی پریکٹیکل کام کریں۔ میں جانتا تھا کہ لکھنے سے زیادہ پریکٹیکل کام کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
خواجہ سراء کمیونٹی پر لکھی اپنی ہر تحریر میں وائس نوٹ کے ساتھ خواجہ سراؤں کو بھیج دیتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ایک طرف کمیونٹی میں تعلیم کی کمی ہے تو دوسری طرف لنک کھول کر پڑھنے کی زحمت کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں۔ اس کے بعد ملک کے مختلف شہروں کے خواجہ سراؤں کے میسجز آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جنھیں تحریر پسند آتی ہے انکی طرف سے شاباش ملتی ہے اور بعض دوستوں کی طرف سے اختلافی پیغامات بھی ملتے ہیں جن کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ اسی چیز کا نام آگہی ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں سے وطن عزیز، امریکہ اور برطانیہ کی این-جی-اوز اور پی-ایچ-ڈی کے سٹوڈنٹس نے خواجہ سراؤں کے مسائل پر میری رائے لینے کی کوشش کی ہے۔ مطلب آگہی کسی نہ کسی شکل میں عام ہو رہی ہے۔
خواجہ سراء بچہ جب بڑا ہونا شروع ہوتا ہے،تو کچھ والدین خاندان اور معاشرے کے دباؤ میں آ کر اپنے لختِ گر کو کسی خواجہ سراء گرو کے حوالے کر دیتے ہیں۔ جو ایسا نہیں کرتے وہ دباؤ میں آکر بچے کو تشدد، کمرے میں بند اور کھانا بند کرنے جیسی سزائیں دے کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچہ تنگ آ کر خودکو گھر میں قید کر لیتا، گھر سے بھاگ جاتا یا پھر خوددکشی کو ترجیح دیتا ہے ۔
گھر سے بھاگنے والے خواجہ سراء ڈیروں کا رخ کرتے ہیں۔ ڈیرے پر آنے والے خواجہ سراء کی نئے مہمان کی طرح خوب آؤبھگت کی جاتی ہے۔ لڑکیوں والے کپڑے اور میک اپ فراہم کیا جاتا ہے۔ بال بڑھانا شروع کرتا ہے۔ ڈانس سیکھتا ہے۔ مکمل لڑکی دکھنے کیلئے خواجہ سراء مختلف ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔ جن سے پستان بڑے ہوجاتے ہیں، گرو یا آپریشن کی مدد سے نفس کٹوا دیتے ہیں۔
1882ء میں ویگنر خاندان میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی جس کا نام ایلینر ویگنر تھا۔ ایلینر بچپن ہی سے خاموش رہنا، لوگوں سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتا تھا۔ 1905ء میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کیلئے اس نے رائل ڈینش اکیڈمی میں داخلہ لیا۔ دوران تعلیم اسے جیڈا گوٹلی ایب سے پیار ہوگیا اور دونوں نے شادی کر لی۔ شادی کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ عورت ہے جو مرد کے جسم میں قید ہے۔ ایلینر معاشرے کے بنائے قوانین سے اتنا تنگ پڑ گیا کہ ڈپریشن میں رہنے لگا۔ پھر اس نے معاشرے کے قوانین سے ٹکر لیتے سیکس ری اسائنمنٹ سرجری کروائی۔ جسے جنس کی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کی پہلی سرجری کہا جاتا ہے۔ ایلینر نے اپنا نام تبدیل کرتے ہوئے لِلی ایل بی رکھ لیا اور دنیا میں خوب شہرت حاصل کی۔
چند روز قبل میری ایک تحریر پبلش ہوئی جس میں امریکی ڈاکٹر کی تحریر کے ذریعے خواجہ سراء بچے کی پیدائش کو جنسی بیماری کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ جس پر کمیونٹی کی جانب سے بہت بحث ہوئی۔ خواجہ سراء اپنے وجود کو خدا کی تخلیق قرار دیتے ہیں اور سائنس کی تحقیق سے انکار کرتے ہیں۔ میری تحریر کا جواب ایک خواجہ سراء نے لکھ کر دیا میں انکی تحریر سے بہت متاثر ہوا۔ انھیں اپنا نمبر دیا۔ انھوں نے مجھ سے براہِ راست بات تو نہیں کی لیکن لکھ کر اور وائس نوٹس میں میرے سوالوں کے جوابات دیئے۔ میں نے ان سے خواجہ سراؤں کی صحت سے متعلق چند سوالات کیے۔انھوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی صورت میں جوابات دیے اور کہا کہ آپ نے میری بات سننی ہے لیکن سوال نہیں کرنے۔
سوال: خواجہ سراء کی تعریف کریں؟
“خدا کی کائنات بہت بڑی ہے۔ اس کے اندر چھپے راز وہی جانتا ہے۔ ہماری دنیا میں چھپے رازوں کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ خدا نے انسان کو مٹی سے بنایا اور تمام مخلوقات سے افضل قرار دیا ہے۔ خدا نے انسان کو مرد اور عورت بنایا ہے۔ خواجہ سراء تیسری جنس نہیں بلکہ ایک احساس کا نام ہے۔ ایسا احساس جس کے لیے انسان اپنا گھر بار سب چھوڑ دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا احساس ہے جس کی قیمت انسان ساری زندگی ادا کرتا ہے۔
سوال: ڈاکٹر کلینفیلٹر کی تحقیق پر آپ کی کیا رائے ہے؟
ڈاکٹر کیلنفیلٹر کی تحقیق خواجہ سراؤں کو جنسی بیماری کا مریض قرار دیتی ہے۔ جس پر بہت سے سائنسدان بھی متفق نہیں۔ جبکہ ہم اسے رجحان قرار دیتے ہیں اور اس تحقیق سے اتفاق نہیں کرتے۔
سوال: ڈیرے پر آنے والے نئے خواجہ سراء لڑکی دکھنے کیلئے کیا کرتے ہیں؟
معاشرے سے بغاوت کرکے ڈیروں پر آنے والے نئے خواجہ سراء کو شروع میں خوب پیار دیا جاتا ہے۔ اسے لڑکیوں والے کپڑے اور میک اپ کا سامان دیا جاتا ہے، ڈانس سکھایا جاتا ہے۔ گرو اور ڈیرے کے دوسرے خواجہ سراء اسے لڑکیوں جیسی جلد کیلئے مختلف کریمیں اور ٹوٹکے بتاتے ہیں۔ سستی کریموں اور ٹوٹکوں کے استعمال سے اکثر خواجہ سراء اپنا حلیہ بگاڑ لیتے ہیں اور جلد کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
سوال: خواجہ سراء لڑکی دکھنے کیلئے کن ادویات کا استعمال کرتے ہیں؟ کیا ان ادویات کے نقصانات بھی ہوتے ہیں؟
خواجہ سرامیک اپ کر کے، لڑکی کے لباس میں جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو اسے خواجہ سراؤں کی مخصوص زبان میں فرقہ کرنا کہتے ہیں۔ مکمل لڑکی دکھنے کیلئے خواجہ سراء مختلف ادویات کا سہارا لیتے ہیں۔
مردوں میں سیکس ہارمونز کو ٹیسٹریان کہا جاتا ہے جبکہ خواتین میں سیکس ہارمونز کو ایسٹروجن کہا جاتا ہے۔ خواجہ سراء لڑکی دکھنے کیلئے ہارمونز کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے انجیکشنز اور ادویات کا استعمال کرتے ہیں جن میں ایسٹروجن پایا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ خواجہ سراء حمل روکنے والی سبز ستارہ کی ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔ ہارمونز کے بے دریغ استعمال سے خواجہ سراء فشار خون، جگر میں چربی، شوگر، دل کے امراض جیسی بیماریوں میں مبتلاء ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
سوال: نربان اور اکروی کیا ہیں؟ ان کے کیا نقصانات ہیں؟
خواجہ سراء کمیونٹی کی اپنی مخصوص زبانیں ہیں۔ لڑکی بننے کے شوق میں جو خواجہ سراء آپریشن کروا لیتے ہیں اس عمل کو نربان ہونا کہتے ہیں۔ جس نے آپریشن نہیں کروایا ہوتا اسے اکروی کہا جاتا ہے، جو خواجہ سراء صرف لڑکیوں کے کپڑوں میں گھومتے ہیں اسے فرقہ کرنا کہتے ہیں اور جو خواجہ سراء صرف مردانہ لباس میں رہنا پسند کرتے ہیں انھیں گوٹکی کی مورتیں کہا جاتا ہے۔
آج بھی بہت سے گرو نربان کا عمل خود کر لیتے ہیں، ورنہ خواجہ سراء کلینکس کا سہارا لیتے ہیں۔ اکثر خواجہ سراء اس عمل کے بعد کمزوری اور مختلف انفیکشنز کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سوال: ڈیروں پر رہنے والے خواجہ سراء زیادہ تر کن امراض کا شکار ہوتے ہیں؟
خواجہ سراء کمیونٹی کو آبادی سے دور نالوں، قبرستانوں اور ویرانوں میں ٹوٹے پھوٹے گھر رہنے کو ملتے ہیں۔ جہاں پانی، بجلی اور گیس کے مناسب انتظامات نہیں ہوتے۔ بھیک، فنکشنز اور سیکس ورکر کو جو الٹ پلٹ مل جائے کھا لیتے ہیں۔ گھر سے باہر نکلتے ہی لوگوں کی بدزبانی اور حراسانی شروع ہو جاتی ہے جو گھر واپسی تک جاری رہتی ہے۔ ناکامی، مایوسی، اداسی اور احساس کمتری کے جذبات ہر خواجہ سراء میں پائے جاتے ہیں۔ جو بڑھتے بڑھتے شدید قسم کے ذہنی امراض میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
انہی وجوہات کی بنا پر خواجہ سراء کمیونٹی میں ہیپاٹائٹس، بلڈ پریشر، امراض قلب، شوگر، ڈپریشن اور ایڈز جیسی بیماریاں عام پائی جاتی ہیں۔
سوال: ڈیروں پر کس قسم کے نشے عام ہوتے ہیں؟
خواجہ سراء کمیونٹی کو اپنے اور معاشرہ قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ ٹھکرائے جانے کا بدلہ اپنی ذات سے لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈیروں میں پان، سگریٹ، گٹکے معمولی نوعیت کی چیزیں ہیں۔ زندگی سے زیادہ مایوس خواجہ سراء شراب اور چرس وغیرہ کے ذریعے مایوسی مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نشے کی لت کینسر، ٹی-بی، جگر اور گردوں کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
سوال: بوڑھے اور موذی امراض کا شکار خواجہ سراؤں کا خیال کیسے رکھا جاتا ہے؟
بڑھاپے اور موذی امراض کا شکار خواجہ سراؤں کیلئے زندگی وبال جان بن جاتی ہے۔ ایک طرف خود سے کمانے کے قابل نہیں رہتے، دوسری طرف حکومتی سپورٹ نہیں ملتی، ہسپتال جائیں تو ڈاکٹر ٹھیک سے علاج نہیں کرتے۔ خواجہ سراؤں کو ویسے ہی معاشرہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ایڈز کا شکار سیکس ورکرز پہلے کمیونٹی اور پھر معاشرے میں اتنے بدنام ہو جاتے ہیں کہ اپنے آپ کو گھروں میں قید کر لیتے ہیں۔ علاج کی بہتر صورتحال نہ ملنے کی وجہ سے وقت سے پہلے ہی وفات پاجاتے ہیں۔

ہم نے خواجہ سراء کمیونٹی کی صحت کے مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ امید کرتے ہیں کہ حکومت اور سماجی تنظیمیں ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دینے کی کوشش کریں گیں۔ جن سے خواجہ سراء کمیونٹی کی صحت کے مسائل کا سدباب ممکن ہوسکے۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں