چہرہ فروغ مے سے گلستاں(قسط4)۔۔فاخرہ نورین

ان خواتین کی اکثریت کو بہت قریب سے دیکھنے پر ان کے معمولی یعنی روزمرہ بنیادوں پر کیے گئے بعض اقدامات کی ایک فہرست پیش خدمت ہے ۔
اوّل، گندگی اور پھوہڑ پن کے ہر کام میں اولیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک دوسری پر بازی لے جانے کی کوشش کرنا ۔
دوم، نہایت دھیرج کے ساتھ روزمرہ زندگی کے افعال یعنی روٹی پکانا (زیادہ تر روٹی ہی پکانا) وغیرہ سرانجام دینا
سوم ، جوائنٹ فیملی کی ذمہ داریوں سے بچنے کیلئے بیمار پڑنا اور باقاعدگی سے عطائی کمپاؤنڈروں سے ٹیکے لگوانا
چہارم، بیماری (حقیقت اور ڈرامہ دونوں صورتوں ) میں صحن کے بیچوں بیچ بستر  بچھا کر  لیٹنا اور ہر دس منٹ بعد باآواز بلند ایک ہا ئے   کرنا ،تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔(اس دوران ہر چھوٹی بڑی بات میں حصہ ڈالنا اور ٹھیک ٹھاک گفتگو کرنا)
پنجم، ایک دوسرے کی موجودگی میں ایک دوسرے کے ساتھ اور سامنے جھوٹ بولنا اور ہر گز نہ شرمندہ ہونا
ششم، ایک دوسرے کی بیماری کی اصلیت سے واقف ہونا اور اپنی بیماری کی باری نبھانا
ہفتم، ایک دوسرے کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے نکتہ ہائے اعتراض کی تلاش کرنا اور انھیں مناسب وقت پر استعمال کرنے کے لئے سٹور کرنا
ہشتم، ساہ کڈھنے کے لئے میکے جانے کا بہانہ تلاش کرتے رہنا
نہم، اپنے آپ کو مظلوم سمجھتے ہوئے ہر وقت اپنی خدمات گنوانا جن میں روٹی پکانے کی خدمت سرفہرست رکھنا (دراصل ان کی دن بھر کی مصروفیات کا مرکز چولہا اور رات کو چولہا نما ہی ہوتا ہے).
دہم، دوسری عورتوں کے لباس اور زیور زیر بحث لانا اور ان کے حصول کیلئے مکارانہ حکمت عملیوں ترتيب دینا ۔
یازدهم، اپنی مرضی کے تمام کام نکلوانے کے لئے “بندے آہدے نیں” یا “ملکھے آکھنا” ٹائپ کے جملوں کے ذریعے مردوں کو سماجی پریشر سے دبانا (اور ان کا دب جانا)

میں اس فہرست کو بہت طویل کر سکتی ہوں لیکن مشتے از خروارے یہ کافی ہے کہ ان تمام سرگرمیوں کی صورت میں گھر کی صفائی ستھرائی اور تربیت جیسے غیر اہم معاملات پر نگاہ کیسے پڑ سکتی ہے ۔
زبیر اور میں اس موضوع پر اپنی زندگی کی سب سے طویل گفتگو فرماتے ہیں ۔
اس کا کہنا ہے کہ تعلیم کی کمی ان مسائل کا سبب ہے، بچیوں کو پڑھانے سے اگلی نسل کے طور طریقے تبدیل ہوں گے ۔

میں ماہر تعلیم ہوں، عمر اسی دشت کی سیاحی میں برباد ہو رہی ہے سو میں جانتی ہوں سلیبس میں ایسا کچھ بھی شامل نہیں کہ عورتیں نہانے دھونے لگ جائیں اور مرد جگہ جگہ تھوکنا چھوڑ دیں ۔
وہ کہتا ہے کہ عورت کی معاشی خود مختاری اسے تمیز سے رہنا سکھا دے گی ۔

میں کہہ نہیں پاتی کہ تمہارے پاس میری صورت میں خود مختار عورت موجود ہے اور تم جانتے ہو کہ میں جو کچھ بھی ہوں اسے تمیز وغیرہ جیسے الفاظ سے یاد نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن میں کہتی نہیں، کیونکہ اس کی سوچ بھی شاید میری طرف سے ایسے کسی جملے کی راہ دیکھ رہی ہو اور شوہر کو اتنی آزادی اظہار کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔

وہ کہتا ہے کہ ایک نسل لگے گی اور تبدیلی آ جائے گی ۔
میں کہتی ہوں تبدیلی ایسے نہیں آ سکتی ۔ جو بچی سیڑھیوں کے پاس رفع حاجت کرتے اور کھرے میں دھلواتے بڑی ہو گی اسے یہ شعور کون دے گا؟ اگر اس کی ماں کو ہوتا تو کیا وہ بنا دھوئے بچی کو گھومتے رہنے دیتی؟

یہ آداب زندگی، یہ اطوار تربیت سے آتے ہیں، تعلیم تو حیض اور جنابت کے غسل نہیں بتاتی، ماتھے اور ہونٹوں پر آئے پسینے کے قطروں کو صاف کرتے رہنا، کھانے کے بعد دانتوں کا برش نہیں تو کم از کم خلال کرنا، منہ پر لگے سموسہ کرسٹ کے ذرات اور دانتوں پر چپکے کالے چنوں کے چھلکے اتارنے کی کوئی ترکیب کسی تعلیمی درجے میں شامل نہیں ۔تربیت کرنے والی خود اتنے زوردار اور دھماکے دار ڈکار لیتی اور ڈونگے میں انگلیاں ڈال کر انھیں چاٹ کر پھر انگلی سے ڈونگے میں کھیر کی سطح برابر کرتی ہے ۔بیٹی کہاں سے اس سب میں نظر آتا پھوہڑ پن محسوس کرے گی ۔ دریں حالات یہ شعور اور تبدیلی مولوی کی شہادت کی طرح ناممکن ہے کہ بارڈر تے تسی جانا نہیں تے حلوے چ بم کسے پانا نہیں۔۔

باقی رہ گیا ٹی وی اور اردگرد کے لوگوں سے میل ملاپ، اس میں میں نے آج تک ایسی عورت نہیں دیکھی جو کسی کا سلیقہ، اس کی نفاست اور گھرداری کا گُر دیکھ کر اسے اپنانے کا عزم لے کر واپس لوٹی ہو۔ کپڑے جوتے اور زیورات کے ڈیزائن کے علاوہ کوئی بھی چیز نوٹس کرنے کو یہ عورتیں تیار ہیں نہ کبھی تیار ہوں گی ،کیونکہ کپڑے جوتے اور زیور کے لئے اسے محنت نہیں کرنی صرف زبان ہلانی ہے جبکہ سلیقہ طریقہ نوٹ کرنے کی صورت میں محنت کافی زیادہ پڑتی ہے ۔

میری یہ لن ترانیاں الزام تراشیاں ہیں نہ مبالغہ آرائی بلکہ یہ ایک ایک حرف سچ ہے اور بہت اذیت ناک سچ۔پیسہ بھلے مرد کمائے یا عورت اس سے چیزیں خریدی جا سکتی ہیں سلیقہ برسوں کی تربیت اور عادت مانگتا ہے ۔چنانچہ گاؤں میں مکان کے ماتھے پر ٹائلیں لگوانے والے بھی گھر میں ٹوائلٹ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، بنا لیں تب بھی وٹوانی کے مزے نہیں بھلاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply