• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔ربیعہ فاطمہ بخاری

حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔ربیعہ فاطمہ بخاری

رہنما ایک ایسی ہستی ہوتی ہے جو افراد کے کسی گروہ کے لیے ایک منزل متعین کرتی ہے، اور نہ صرف منزل متعین کی جاتی ہے بلکہ ایک سچا رہنما اس منزل کی طرف بڑھنے کے لئے درست راہیں بھی متعین کرتا ہے۔ ایک ترقی پسند رہنما اپنی اصل میں ہی ایک ایسا رہنما ہوتا ہے جو ترقی، جدت اور تبدیلی کا علمبردار ہوتا ہے۔ یہ وہ رہنما ہوتا ہے جو کسی بھی معاشرے پر طاری جمود کو توڑ کے اس معاشرے کے افراد میں تبدیلی کا وہ بیج بوتا ہے، جو بالآخر متعلقہ معاشرے میں انقلاب برپا کرنے کا باعث بنتا ہے۔اس پیمانے پر اگر ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کوسامنے  رکھ کر پرکھیں توہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی اپنے زمانے کے اعتبار سے کہیں جدت پسند، کہیں ترقی پسند اور کہیں زیادہ انقلاب آفرین نظر آتی ہے۔ اس مضمون میں میں بتائے گئے دونوں میدانوں یعنی سیاسی اور سماجی سطح پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور تعلیمات سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا مختصراً جائزہ لینے کی کوشش کروں گی۔

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس معاشرے میں بھیجے گئے وہاں سیاسی طور پر دو طرح کی صورتحال پہلے سے قائم تھی۔ ایک طرف طوائف الملوکی کی صورت تھی جوکہ عرب میں اپنے عروج پر تھی، نہ کوئی مرکزی حکومت نہ قانون اور آئین اور نہ ہی انسانی حقوق کا کوئی تصور۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس واحد مروّجہ قانون تھا۔ چھوٹے چھوٹے قبائل پر مشتمل سرداری نظام اپنی تمام تر خرابیوں سمیت مروّج تھا۔ دوسری جانب روم اور ایران جیسی سپر پاور کا جائزہ لیا جائے تو وہاں مکمل طور پہ ملوکیت تھی۔ بادشاہ وقت مختارکُل تھا۔ اسی کی ذات آئین تھی اور وہی قانون تھا۔ عوام الناس میں قوانین کی پابندی تو ملتی تھی لیکن وہاں بھی انسانی حقوق کا کوئی خاص تصور نہیں تھا۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریاست مدینہ ایک توازن اور اعتدال کا مکمل نمونہ نظر آتی ہے۔ صدیوں سے جاری قبائلی نظام جو کہ اس وقت عرب کے باسیوں کا واحد نظام حکومت تھا، اس کی گرفت کو کمزور کرکے عوام الناس میں آزادانہ رائے اور خود مختارانہ عمل کا رویہ پروان چڑھایا۔ شہنشاہیت اور قبائلی سرداروں کی آمریت کے برعکس اسلامی معاشرے میں جمہوری سوچ کو پروان چڑھا کر عوام الناس میں شعور اجاگر کیا گیا۔ ریاست مدینہ میں جنگی حکمت عملی کے طور پر بہت بڑے بڑے دو فیصلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذاتی رائے کو پس پشت ڈال کر عوامی رائے کے مطابق فرمائے۔ پہلا موقع غزوہء احد کا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہر کے اندر رہ کے لڑائی لڑنا چاہتے تھے۔ لیکن صحابہ کرامؓ کی رائے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھلے میدان میں جنگ کے لیے نکل آئے۔ اسی طرح غزوہ خندق کے موقع پر ایک آزاد کردہ غلام جناب سلمان فارسی کی رائے پر شہر کے گرد خندق کھود کے جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ اس وقت کے سیاسی منظر نامے میں ایسی انقلابی تبدیلی تھی کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔

اسی طرح صلح نامہ حدیبیہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت کا ایک اور شاہکار ہے، جو کہ اسلامی تاریخ کے اوراق میں، مانند چراغ آج بھی جگمگاتا ہے۔ لیکن اس وقت کے حالات کے پیش نظر صحابہ کرام اس فیصلے سے سخت دلگرفتہ اور مایوس تھے۔ مایوسی کی اس انتہاء پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابرانہ یا آمرانہ انداز میں اپنی مرضی کرنے کا اعلان نہیں فرمایا بلکہ صحابہ کرام کو اسی وقت اعتماد میں لیا اور انہیں اس فیصلے کے نتائج و عواقب کے بارے میں پوری بریفنگ دے کر انہیں اس فیصلے کے درست ہونے کا یقین دلایا۔ یہ اس دور کے اعتبار سے ایک ناقابل یقین سیاسی انقلاب تھا۔

سیاست کے میدان میں خارجہ پالیسی ایک بہت اہم میدان ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت کے بڑے بڑے حکمرانوں کو لکھے گئے مکتوباتِ گرامی آج بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت اور خارجہ امور پر گرفت کے شاہد ہیں۔ ریاست مدینہ میں بین الا قوامی تعلقات کے لئے باقاعدہ خارجہ امور کا دفتر قائم تھا۔ صحابہ کرام کو دوسرے ممالک کی زبانیں سکھانے کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا تاکہ وہ دوسرے ممالک سے آنے والے مراسلہ جات کا جواب انہیں کی زبانوں میں دے سکیں خارجہ امور کی سطح پر نجاشی کا قبول اسلام اور مسلمانوں کی غیر مشروط امداد ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ میثاق مدینہ اپنی نوعیت کی ایک بالکل منفرد دستاویز ہے جو معلوم انسانی تاریخ کا سب سے پہلا تحریری انسانی حقوق کا منشور تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلابی اقدامات میں سے یہ کہ انتہائی اہم قدم تھا۔ اس پر لکھتی رہی تو یہی موضوع بہت زیادہ تفصیل کا متقاضی ہے۔ اس کو یہیں چھوڑ کے اب کچھ سماجی تبدیلی اور انقلاب آفرینیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ ایک رہنما اسی وقت ایک کامیاب رہنما کہلائے جانے کے قابل ہوتا ہے، جب اس کے اٹھائے گئے اقدامات اور دیے گئے احکامات محض وقتی تبدیلی کا ابال پیدا نہ کریں بلکہ وہ ایک ایسی تبدیلی کی نوید بنے جو کہ بہت دور رس اور دیرپا نتائج کی حامل ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے سماجی ڈھانچے کو بالکل بنیادوں سے ہلا دیا۔ وہ قوم جس میں انتہا درجہ کی فصیح اللّسان ہونے کے باوجود پورے ملک عرب میں صرف 17 لوگ ایسے تھے جو لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے اور ان سترہ میں صرف اور صرف ایک خاتون تھیں، حضرت شفاء بنت عبداللہ۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں مردوں میں بھی تعلیم حاصل کرنے کا رواج نہ ہو وہاں مرد اور عورت دونوں پر تعلیم فرض قرار دے دینا ایک انقلاب نہیں تو اور کیا تھا۔ اور محض دعووں اور احکامات سے ہی تعلیم فرض قرار نہیں دی گئی، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ نظام مرتب کیا گیا۔ صفّہ، دارارقم اور اس کے علاوہ کئی مساجد میں دور نبوی میں تعلیم و تعلم کے حلقے قائم ہوتے تھے۔ خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفاء بنت عبداللہؓ کو حکم دیا کہ عائشہ صدیقہؓ اور حضرتِ حفصہؓ کو لکھنا اور پڑھنا سکھائیں۔ عام خواتین کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مردوں سے الگ تعلیم وتعلم کے لیے وقت دیتے۔ جناب عائشہ صدیقہؓ مرد صحابیوں کے ساتھ ساتھ خواتین صحابیات کو بھی زیر تعلیم سے آراستہ کرتیں۔ تعلیم کواتنی اہمیت دی گئی کہ غزوہ بدر میں زرِفدیہ کا متبادل تعلیم کو قرار دیا گیا، جبکہ اس وقت اسلامی ریاست بالکل شیرخوارگی کے مراحل میں تھی اور ریاست کے استحکام کے لئے مال و دولت کی اشد ضرورت تھی۔

غلامی کا نظام، جس پر اس وقت عرب کی ساری معیشت اور معیشت کا دارومدار تھا، اس نظام میں انقلاب آفریں تبدیلیاں رونما کی گئیں، امیّہ بن خلف اور ابو جہل جیسے بڑے بڑے سرداروں کے مقابل حضرت بلال حبشیؓ کو وہ مقام اور فضیلت عطا کی گئی جس کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ بلال حبشیؓ ایک تو غلام، جو آقاؤں کے مقابلے میں انسان سمجھے جانے کے قابل بھی نہیں تصور کیے جاتے تھے اور پھر حبشی، جو رنگت اور خدوخال کی بنیاد پر بھی ارزل تصوّر کئے جاتے تھے۔ لیکن وقت نے وہ انقلاب بھی دیکھا کہ بلالؓ ریاست مدینہ میں افسرِ مہمانداری مقرر ہوئے اور ان کو بطور مؤذنِ رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم جو فضیلت عطا ہوئی وہ بس انہی کا خاصہ ہے۔ غلاموں کے حقوق کے بارے میں اس قدر تاکید کی گئی، اس قدر کہ آج کے دور کے گھریلو ملازمین کو بھی وہ حقوق دینے کا یارا شاید ہی کسی میں ہو، جبکہ وہ ملازم نہیں بلکہ غلام تھے، جن کی زندگیوں تک پر ان کے آقاؤں کا اختیار تھا۔ پھر غلاموں کو آزاد کرنے کی اتنی فضیلت بیان کی گئی کہ اپنے معمولی سے معمولی گناہوں کے کفارہ کے طور پر صحابہ کرام کئی کئی غلاموں اور کنیزوں کو آزاد فرماتے۔ اسلامی تاریخ کے بہت سے جلیل القدر صحابہ حضرت بلال حبشیؓ، حضرت زید بن حارثہؓ، سلمان فارسیؓ اور صہیب رومیؓ یہ سب کے سب غلام تھے۔ حضرت زید بن حارثہؓ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ بولا بیٹا بنا کر ایک اور فضیلت کے اعلیٰ درجہ پر پہنچایا۔ تاریخ انسانی میں اس قدر مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کی اتنے کم عرصے میں اتنے عروج تک پہنچنے کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ اس سماج کا ایک بہت بڑا انقلابی اقدام تھا۔

سماجی سطح پر ایک اور اہم اقدام عورتوں کی حالت زار میں تبدیلی تھی۔ وہ عورت جسے زیادہ تر پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اور وراثت سے بالکل ہی محروم کر رکھا تھا۔ بیوی کے طور پر پاؤں کی جوتی کے برابر حیثیت دی جاتی تھی۔ اس معاشرے میں سوتیلی ماں بیٹے کو باپ کی طرف سے وراثت میں ملتی، جسے وہ اپنے پاس ایک بیوی کی حیثیت سے رکتا تھا۔ اسی عورت کے قدموں میں ماں کے طور پر اولاد کے لیے جنت رکھ دی گئی اور سوتیلی ماں بیٹوں کے لئے اسی طرح حرمت کے قابل ہے جیسے کہ انکی سگی ماں۔ بیوی کے لئے ھن لباس لکم وانتم لباس لھن کا اصول متعین کیا گیا۔ بیٹی اور بہن کو باعث رحمت قرار دیا گیا۔ بحیثیتِ مجموعی معاشرے میں رائج جھوٹ، دھوکہ دہی، سالہاسال کی پالی جانے والی دشمنیاں، شراب نوشی اور بدکاری جیسی بے شمار خرابیوں کو تربیت کے عمل کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور ایک مکمل صالح معاشرہ تشکیل دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے نبی کی شان تو وہ ہے کہ لکھنے بیٹھیں تو ساری دنیا کے درخت قلم بن جائیں اور ساری دنیا کے سمندر سیاہی، کبھی حیاتِ مصطفی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے کسی ایک گوشے کو بھی مکمل طور پر احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہوگا۔ اپنے شکستہ حروف و بیان کو یہیں ختم کرتی ہوں
غالب ثنائے خواجہ بیزداں گزاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است۔
صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم۔

Facebook Comments

ربیعہ فاطمہ بخاری
لاہور کی رہائشی ربیعہ فاطمہ بخاری پنجاب یونیورسٹی سے کمیونی کیشن سٹڈیز میں ماسٹرز ہیں۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں لیکن اب ایک خاتونِ خانہ کے طور پر زندگی گزار رہی ہوں۔ لکھنے کی صلاحیت پرانی ہے لیکن قلم آزمانے کا وقت اب آیا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply