تعلیمی شعور۔۔آصف جمیل

“اے لڑکی جلدی سے فرش کو کپڑا لگاؤ۔۔۔ بالکل خشک کرنا ہے کہیں بھی گیلی زمین نہ  ملے مجھے، سمجھی”
حمیدہ ہدایات دیتی اپنے بیڈ روم میں چلی گئی..
علیزہ تیسری جماعت کی طالبہ ، انکی بے حد حساس بیٹی یہ منظر بہت گہرائی سے دیکھ رہی تھی ۔ اسے اپنی ہم عمر کام والی لڑکی کو دیکھ کر عجیب سی سوچوں نے آ گھیرا ۔۔۔
“کیا اس کا حق اور خواہش نہیں کہ میری طرح سکول جائے، اچھے یونیفارم، کتابیں اور جوتے اس کے پاس بھی ہوں ”
وہ خود سے ہم کلام تھی ۔۔۔
رخشندہ سپاٹ چہرے کے ساتھ توجہ سے کام کر رہی تھی ۔۔۔ یتیم گھر کی بڑی، چار بہن بھائیوں میں اب گھر کا چولہا اور پیٹ کی بھوک دس سال کی عمر میں اُسے اِس گھر کی چوکھٹ پر اس کی والدہ کے ساتھ لے آئے تھے ۔۔۔ ذہین، محنتی اور صابر لڑکی پُرعزم طبیعت کی مالک سانولی سی رنگت لیے بڑی معصومیت سےدیکھتی ۔۔۔
جب بھی وہ مالکن کی بیٹی علیزہ کو دیکھتی تو سوچتی تعلیم تو زندگی کا معیار، رہن سہن، اٹھنا بیٹھنا بدل دیتی ہے ۔۔۔ کیا میرا مقدر اسی طرح رہے گا، زندگی بھر ایسے ہی کولہوں کے بیل کی طرح گھومتی رہوں گی ۔۔۔
“مجھے بھی پڑھنا چاہیے ۔۔۔ ماسی رحمتے کہتی تھی، تعلیم چھوٹے رتبہ سے بڑا مقام دے دیتی ہے ۔۔۔ بڑی سیانی بات کرتی تھی ۔اللہ بخشے”
اس نے دل میں سوچا!
“مجھے بھی اپنا مقام اور رتبہ بدلنا ہے، لوگ بھی کہیں کہ راہمو مصلی دی دھی وی پڑھ لکھ کر باعزت پیشے کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے ۔”
اس چھوٹی سی حساس بچی نے عزم کیا
” آ ہ”
مگر کیسے، یہی سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ کیا میری خواہش، خواہش ہی رہے گی ۔۔۔ کمی کمین لوگوں کو تو لوگ پاؤں میں بھی نہیں بیٹھاتے، اکثر وہ بہت سے گھروں کےمالکوں کا رویہ سوچتی، کیا ہم انسان نہیں، ان جیسا دیکھتے پہنتے، بولتے نہیں ۔۔۔ حقارت کا رویہ ہم سے ہی کیوں روا رکھا جاتا ہے ۔۔۔ اسے ایک اور چیز کی سمجھ نہیں آتی تھی ۔۔۔ کتوں اور دیگر جانور کو گود اٹھائے بڑے لوگ،ہمیں ان سے بھی بدتر سمجھتے ہیں ۔۔۔
“مجھے علم حاصل کرنا ہے، میں علیزہ کی طرح پڑھوں گی”
خود کو پرعزم کرتی بچی، خود کو موٹیوٹ کرتی ۔۔۔اور صفائی کے دوران علیزہ کی رف کاپیز پہ ماری لکیروں کو بھی حسرت سے دیکھتی ۔۔۔
ایک دن علیزہ نے اُسے وہ صفحے اٹھا کر اپنے دوپٹے میں چھپاتے ہوئے دیکھ کر سوچا! میں اسے اپنے ساتھ پڑھاؤں گی. اس نے اپنی معصوم سی خواہش پر اپنے گھر والوں سے بات کرنے کی ٹھان لی ۔
حمیدہ کچن میں ہانڈی چولہا کرنے میں مصروف تھی کہ علیزہ نے پکارا “امی! سکول دور ہے اور مجھے  صبح چھ بجے وین میں جانا ہوتا ہے ۔ نئے سکول میں میری دوستیں بھی نہیں ہونگیں ۔تو میں رخشندہ کے ساتھ جایا کروں گی، آپ اسکی امی سے بات کریں”۔
حمیدہ نے پُرسوچ لہجے میں کہا ”
اچھا میں اسکی ماں سے بات کرتی ہوں تم جاؤ ٹی وی دیکھو کچن میں گرمی ہے”
حمیدہ، علیزہ کو خوشی خوشی جاتے ہوئے دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ بچی کی بات ٹھیک ہے اکلوتی بیٹی کو اتنی دور نئے سکول بھیجنے میں وہ بھی متامل تھی ۔ چلو دوسراہٹ ہوجائے گی اور اُس بچی کی قسمت بھی بدل جائے گی۔ حمیدہ نے اگلی صبح جب رخشندہ کی ماں سے بات کی تو اسکا جواب سن کر حمیدہ کے تو سر پر لگی اور تلوؤں پہ بچھی ۔۔آگ بگولا ہوگئی ۔۔۔ بمشکل لہجے کی سختی اور لرزے پر قابو پا کر ان سے کہا:”کیا کہہ رہی ہو تم؟ ، تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ تمہاری بچی کی شخصیت سنور جائے گی، تعلیمی شعور اسکی زندگی بدل دے گا، میں تم سے اسکی قسمت بدلنے کی بات کر رہی ہوں اور تم کہہ رہی ہو کہ اسکے کزن اجازت نہیں دیں گے؟ وہ کون ہوتے ہیں اور انکا اعتراض کیا ہے؟؟

رخشندہ کی ماں نے غصے سے گھورتے ہوئے کہا”باجی آرام نال گل کرو۔ وہ بھی سکول پڑھے ہوئے ہیں ۔اپنی موبائل شاپ کُھلی بیٹھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے سکول کا ماحول ٹھیک نہیں ہوتا ۔ آئے دن لڑکیاں سکول کے باہر سے بھاگ جاتی ہیں ۔ہائے باجی آپکو کیا پتہ میرے چھوٹے بھتیجے کے دوست کے ساتھ بھی ایک لڑکی سکول سے بھاگی”
حمیدہ شل بیٹھی تھی، اب اسکو واقعتاً سمجھ آیا تھا کہ تعلیم کیوں ضروری ہے ۔

چار جماعتیں پڑھ کر لوگ اپنی قیمتی رائے کا جو اثر معاشرے پہ ڈال رہے ہیں، اس سے کتنی ہی رخشندہ پڑھنے سے رہ جاتی ہوں گی۔ رات کو بستر پہ لیٹے وہ یہی سوچ رہی تھی ۔علم انسان کی شخصیت میں حکمت اور قوت فیصلہ لاتا ہے ۔ اگر وہ کچھ حکمت عملی تیار کرلے تو رخشندہ پڑھ لکھ سکتی تھی اور اسکے پڑھے لکھے جاہل رشتہ داروں کا بھی منہ بند ہوجائے جو اسے خاندانی پیشہ پر قائم رکھنے کے لیے اسکے حقوق سے محروم کرہے تھے ۔

حمیدہ نے فون اٹھایا اور رخشندہ کی ماں کو ملایا ۔سلام و خیریت کے بعد کہا، گھر میں بات کرو مجھے  میری بیٹی کے ساتھ رکھنے کے لیے آیا چاہیے ۔میں ماہانہ تنخواہ کے ساتھ تمام اخراجات برداشت کرونگی۔ آنے جانے کا خرچ بھی ہوگا۔ صبح اسکا بے فورم لیتی آنا ۔۔۔
صبح اس نے رخشندہ کو کوئی کاغذ پکڑے گلاب چہرے کے ساتھ اپنی طرف آتے دیکھا ۔۔حمیدہ نے اپنی بیٹی سے سختی سے کہا سکول میں تم دونوں کزنز ہو ۔مجھے  دوہرانہ نہ پڑے ۔

13 سال بعد۔۔۔
آج یونیورسٹی میں کنونشن تھا ۔۔۔علیزہ مائیک پکڑے ہیڈ آف سٹوڈنٹ یونین کی حیثیت سے اپنی الوداعی تقریر کررہی تھی۔ اسکے جاتے ہی پروقار انداز میں رخشندہ، سکریٹری سٹوڈنٹ یونین کی حیثیت میں کھڑی کہہ رہی تھی ۔۔۔
“ایک لیڈر میں اور چرواہے میں فرق ہوتا ہے، وہ فرق ڈگریوں اور نوکریوں کا ہرگز نہیں ہے ۔بلکہ شعور اور حکمت کا ہے، ایک لیڈر اپنے شعور جو کہ تعلیم کی مرہون منت ہے، معاشرے میں صحیح وقت پر حکیمانہ فیصلہ کرتا ہے ۔وہ اپنی گردن میں سریا فٹ کرکے سب سے آگے آگے نہیں چلتا، بلکہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ آج آپ بھی فیصلہ کریں، کہ آپ اپنی ڈگریاں حاصل کرکے لوگوں کو چرواہوں جیسے اپنی مرضی پر ہانکنا چاہتے ہیں یا ایک لیڈر بن کر لوگوں کو اپنے ساتھ مقامِ کامیابی تک لےکے جانا چاہتے ہیں؟؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور رخشندہ نے نم آنکھوں سے علیزہ کی طرف دیکھا ۔۔ جو اچھل اچھل کر اسکے لیے تالیاں بجا رہی تھی ۔۔۔
کیونکہ اس کی کوشش اور اچھی سوچ سے  تعلیم نے ایک صفائی کرنے والی پسماندہ سے گھر کی لڑکی کو افق پر درخشدہ ستارے کی طرح چمکا دیا، اور کتنی ہی افق اس کی مزید منتظر تھیں ۔۔۔
(نوٹ یہ افسانہ ایک حقیقی واقعہ سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے)

Facebook Comments