سرمد کھوسٹ کو سزا ملنا ہی تھی/یاسر جواد

ایک باریش خواجہ صاحب اندرون شہر لاہور میں رہتے ہیں، کچھ وقت پراپرٹی ڈیلر کے دفتر میں گزارتے اور نعتیں پڑھنے کے شوقین ہیں۔ اُن کی تین بیٹیاں بیاہی ہوئی ہیں، بیوی مفلوج ہے، دو کمروں کے گھر میں پڑی رہتی ہے۔ عید میلاد النبی منانے کے دن چل رہے ہیں۔ خواجہ صاحب نعت ریکارڈ کرواتے ہیں اور فلموں کے بھی شوقین رہ چکے ہیں۔ بچپن میں ڈانس بھی کیا کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر ایک لمحہ اُنھیں لے ڈوبتا ہے۔ محلے میں شادی ہے اور دوست یار کہتے ہیں کہ ذرا تھوڑا ڈانس کر کے دکھاؤ۔ وہ زندگی تماشا بنی، دنیا دا ہاسا بنی کے مجرے والے گانے پر تھوڑے ایکشن لگاتا ہے۔ محلے کا ایک لڑکا بھی موجود ہے، جو فون پر ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر دیتا ہے۔ بوسیدہ، گلے سڑے، جعلی تقوی زدہ معاشرے میں زندگی اور انفرادی مزے کا ایک لمحہ لے بیٹھتا ہے۔
پورا محلہ اُسے کھسرا سمجھتا ہے، وہ سماجی مقاطعے کا نشانہ بنتا ہے، مفلوج بیوی مر جاتی ہے، بیٹیاں اُس کے ساتھ بات کرنے سے کتراتی ہیں، قریبی دوست یار، جنھوں نے ڈانس کی فرمائش کی تھی، اُس کے خلاف بہتان طرازی کرتے ہیں۔
یہ ایک لمحے کا انسان تھا۔ شاید وہ خود بھی معاشرتی organism کا جزو تھا، اُسی کے مسالے سے بنا تھا۔ لیکن ایک جینز، ایک کروموسومز خطا کر گیا۔ (آج بائیک پر ایک گاڑی نے ہٹ کیا، میرے پاؤں پر چوٹ لگی، سوج گیا، سو لیٹے لیٹے) فلم زندگی تماشا دیکھنے کے دوران مجھے متواتر Burnt by the Sun یاد آتی رہی۔ جس میں ایک کردار لمحہ بھر کی بھول، ایک غلط جملے کے باعث سٹالنسٹ مشینری کا نشانہ بنتا ہے۔
یار سرمد، مجرے اور آئٹم سانگ والی فلمیں بناؤ، جہاد اور مذہبیت کو فروغ دو، جعلی تقویٰ پیش کرو، مجرے کے فوراً بعد ہیروئن کو دوپٹے میں دکھاؤ، گنڈاسوں والے بہیمانہ مولا جٹ ری میک کرو، کوئی جاوید شیخ یا بہروز سبزواری ڈالو تو فلم پاس ہو گی۔ یہ کیا تم نے ایرانی فلموں والا ریئلزم اور سکون جیسا ٹیلی ناول بنا ڈالا؟ سزا تو تمھیں ملنا ہی تھی!
ہمیں لگتا ہے کہ تہذیب مر چکی ہے۔ کچھ روز پہلے بھی لکھا تھا، کہ وہ غالب غیر انسانی، سپانسرڈ کلچر کی وجہ سے کونے کھدروں میں دُبکی ہوئی ہے۔ کبھی کوئی سرمد کھوسٹ سر نکالے گا تو سرکوبی ہو گی۔ مگر اُس کے کام کو ہر کوئی پسند کرے گا۔ ساتھ نہیں دے گا۔ میں بھی اگر ’’موت کا منظر‘‘ (جدید) لکھوں تو شاید زیادہ پذیرائی ملے۔ لیکن میرا اور سرمد کا کروموسوم خطا کر گیا ہے۔ یہ موازنہ وقار احمد نے چند روز قبل اپنی ایک پوسٹ میں کیا تھا، سو میں نے بھی استعمال کر لیا۔
میں فلم دیکھ کر سرمد کے دیے ہوئے اکاؤنٹ میں آن لائن پیمنٹ کر دوں گا۔ آپ بھی کریں۔ جب ہماری تہذیب اِس گھٹیا کلچر کے کیچڑ سے نکلے گی تو شاید سرمد اور اُس جیسے ہی زندگی کا ریکارڈ بنیں۔ اُس پر فیصلہ دینے والوں کو کیا پتا جو خود ’’کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ‘‘ ہیں!

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply