صحافت، دائرہ کار اور کردار۔۔شاکر عادل مدنی

ہر عمل کا ایک معلوم دائرہ ہوتا ہے،اور اس پیشے  سے جُڑا فرد اسی دائرے میں رہ کر اپنی ذمہ داریوں کو سر انجام دیتا ہے۔ بسااوقات وہ دائرہ محدود ہوتاہے اور کبھی اس میں وسعت ہوتی ہے۔کبھی حدود کی تنگی صاحب ِ عمل کے لئے پریشان کُن  ثابت ہوتی ہے تو کبھی ضرورت سے زیادہ اس کی وسعت سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔گویا کسی بھی پیشے  کے اصول و ضوابط اور دائرہ کار میں اعتدال نہ ہو تو اس پیشے سے وابستہ  افراد ذہنی خلجان کاشکار رہتے ہیں۔

اس تحریر میں گفتگو کا محورصحافت، اس کے مبادیات اور جملہ اجزاءہیں۔ ذیلی عناوین کے تحت اسلامی صحافت پر بھی گفتگو کی کوشش کی گئی ہے۔

صحافت:

سہ حرفی یہ لفظ اپنے دائرہ کار میں بڑی وسعت رکھتا ہے۔گرچہ اس کی تعریف میں فقط یہ باتیں شامل ہیں کہ”سماج و معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والے حادثات و واقعات سے عوام کو با خبر کرنا”۔
تکنیکی لحاظ سے صحافت کے اس “اخباری عمل” کے کئی اجزاء ہو سکتے ہیں،لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ “عوام کو باخبر کرنا ہے”۔

صحافت کی ابتداء:
اس ضمن میں منقول بات یہ ہے کہ اٹلی اور جرمنی میں کچھ افراد ایسے تھے جو اہم حادثات و واقعات پر مشتمل تحریروں کو جمع کرتے اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے درمیان ان اخبار کو نشر کرتے۔تقریبا ًسولہویں صدی میں جرمنی کے اندر انہی مکتوبات کی اشاعت کو لے کر سب سے پہلے طباعت خانے کا فکرہ سامنے آیا۔اور کچھ عرصہ بعد” پیرس”اور”لندن”کی حکومتوں نے بھی خبروں کی اشاعت کا  عمل  شروع کردیا۔( A new frame work of interpretation for the birth of journalism,Media History 2011)

نشو ونما اور ارتقاء:
زمانہ قدیم سے ہی خبروں کو پھیلانا،نشرکرنا،عام کرنا صحافت کے معنی و مفہوم میں شامل رہاہے۔اور مصر،چین اور عربوں(کے عہدِ  جاہلیت)میں پتھروں پر کندہ جو تحریریں ملتی ہیں وہ عہد قدیم کی  صحافت ہی کی مثالیں ہیں۔ جن میں “عہد ِ بطلیموس خامس”کے (Rosetta Stone ),”بادشاہ حمورابی” کے(Law of Justice )اور”Julius Caesar “کا(Actadurina )قابل ذکر ہے۔
مؤرخ”Joseph Flavius ” کہتاہے کہ”بابلیوں کےمؤرخین تھے ،جن کا کام واقعات وحوادث کو تحریر کرنا تھا۔تیسری صدی قبل میلادی “نیروز” نے اپنی کتاب “کلدانیوں کی تاریخ “میں انہی  تحریری مواد پر اعتماد کیاہے”۔
اگر یہ باتیں درست ہیں جیسا کہ مؤرخ Joseph نے بیان کیا تو یہاں ایک بات بالکل واضح ہوچکی کہ صحافت سماجی رجحان کے مطابق بہت قدیم ہے جس کا ثبوت پرانے عہد میں بھی ملتاہے۔

صحافت کی اہمیت:
جدید دور میں صحافت مکمل طور پر نیا رخ اختیار کرچکی ہے۔ عوام کا بڑے پیمانے پر خبروں کے حصول کے لئے صحافت پر اعتماد اس کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔اب ا خباروں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ،ٹیلی ویژن اور ریڈیو بھی عوامی مواصلات کا اہم ذریعہ بن چکے ہیں۔ ٹویٹر،فیس بک،گوگل پلس،یوٹیوب جیسے آن لائن سوشل نیٹ ورکس کے علاوہ عالمی سیٹلائٹ  سٹیشنوں نے مواصلات کی دنیا میں جیسے برق رفتاری لادی ہو۔صحافت نے اپنی حیثیت اس طور منوائی کہ آج دنیا اسے “چوتھی طاقت”کانام دیتی ہے۔اور اس کا مقارنہ قانون ساز ،جوڈیشل اور ایگزیکٹو اتھارٹیز سے کیاجاتا ہے۔چنانچہ آئر لینڈ کا ایک سیاسی مفکر Edmund Burke کہتاہے:”یہاں پارلیمنٹ کی چھت کے نیچے تین قسم کی طاقتیں ہیں،لیکن وہاں Reporting Hall میں چوتھی طاقت براجمان ہے۔اور وہ تم سبھی  سے اہم ہے”۔

صحافت کے مقاصد:
Bill Kovach اور Tom Rosenstiel “The Elements of Journalism “میں صحافت کی غایت کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ”اس کے مقصد کو نہ تو کسی ٹیکنالوجی کے ذریعہ بیان کیا جاسکتا اور نہ ہی صحافیوں سے یا ان کے صحافتی فن سے،بلکہ کچھ اہم اور بہت ہی بنیادی باتوں کے ذریعہ اس کے مقصد کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ یہ شہریوں کو ایسی اطلاعات فراہم کرتا ہے،جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ اور پھر وہ شہری اس حاصل معلومات کی بنیاد پر اپنی زندگی ،قومیت،سماج اور اپنی حکومت کے بارے میں بہتر رائے قائم کرسکتاہے۔

صحافت کےمبادیات
: The Elements of Journalism سے ماخوذ 10 مبادیات صحافت کو ذکر کیاجاتاہے،کسی بھی صحافتی مضمون میں جن کا پایا جاناعمدہ صحافت کی علامت۔
1۔سچائی،یہ صحافت کے اولین واجبات میں سے ہے۔یعنی خبروں میں جھوٹ کا عنصر شامل نہ ہو۔
2۔شہریوں کی ترجیحات کو مقدم رکھنا۔
3۔خبروں کی اشاعت میں بحث وتحقیق کے نظام کو بحال رکھنا۔
4۔عوام کی حریت کا خیال کیا جائے۔
5۔صحافت کااستعمال بطور آزاد طاقت ور نگراں کے ہو۔
6۔اس کے لازمی عناصر میں سے ہے کہ یہ عوام کو اپنی رائے پیش کرنے اور مسائل کے تصفیہ کے لئے مجال فراہم کرے۔
7۔خبروں کو معتبر،دلچسپ اور موضوعی بنانے کے لیے اس پر سخت محنت کی جائے۔
8۔خبریں اپنے تمام جزئیات پر  محیط ہوں اور متناسب ہوں۔
9۔اس پیشہ سے منسلک افراد کو لازمی طور پر اس بات کی اجازت دی جانی چاہئے کہ وہ اپنی ذاتی رائے کا استعمال کرے۔
10۔خبروں کے بارے میں شہری بھی مسؤول ہیں اور ان پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

صحافتی کردار کی اساس :
سچائی،ایمانداری اور جدوجہد وہ تین بنیادی اساس ہیں، جس پر بنیاد پاکر کوئی بھی شعبہ اپنے اعمال کو بحسن و خوبی شفافیت کے ساتھ انجام دے سکتا ہے۔لیکن ارباب صحافت نے شفافیت،متواضعیت اور اصالت کی تین اصطلاحات پر صحافتی کردار کی بنیاد رکھی ہے۔(البتہ اس بنیاد کا تصور سچائی ،ایمانداری اور جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔)
1۔شفافیت:(Transparency )یعنی:صحافی اپنا کام اس طرح پیش کرے کہ قاری،ناظرین اور سامعین ان کی باتوں پر یقین کرنے میں کسی دوسرے ذرائع کا محتاج نہ ہو۔
2۔تواضع:(Humility )یعنی:ایک صحافی کو متواضع اور منکسر المزاج ہونا چاہیے۔اسے اپنی معلومات پر فخر اور تکبر نہ ہو۔ایک صحافی کی واقعیت اس بات میں بھی ہے کہ وہ افتراضی نہیں ہوتا۔اس کی خبریں حقیقت کا عکس پیش کرتی ہیں۔
Jack Fuller ایک مصنف،ناول نگار اور ایڈیٹر ہےاس نے بطور مشورہ کہا کہ”صحافیوں کواپنی معلومات اور اس کے ذرائع سے متعلقہ امور میں تواضع اور اعتدال برتنے کی ضرورت ہے۔
Gregory Favre ,Sacramento اور Chicago میں طویل مدت سے ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ اپنا ایک سادہ سا اصول ہے”DO NOT PRINT ONE IOTA BEYOND WHAT YOU KNOW”۔یعنی:صرف اپنی معلومات پر منحصر ہو کر ایک لفظ بھی نہ شائع کرو۔بلکہ اس خبر کے بارے میں مکمل اطمینان حاصل کرلو۔
3۔اصالت:(Originality )یعنی:معلومات حقائق پر مبنی ہوں۔ایسا بھی نہ ہو کہ صرف دوسروں کی معلومات پر انحصار کیاگیا ہو،بلکہ خبروں کےاطلاع میں خود کی محنت کی گئی ہو۔اور جس میں ابداعیت کی جھلک دکھائی دے۔
ایک صحافی کہتاہے”صحافی اس عمل کے محور “خبر” پر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ ایک صحافی بیک وقت اس خبر کا “عینی شاہد” بھی ہوتا ہے،”مخبر” بھی اور” مؤرخ” بھی۔اور ناانصافی کی جگہ “منصف”بھی۔

صحافت کے اقسام:
دیگر علوم وفنون کی طرح صحافت کی بھی اساسی 3 قسمیں ہوسکتی ہیں:
1۔پرنٹ میڈیا۔
2۔ الیکٹرانک میڈیا۔
3۔سائبر میڈیا یا سوشل میڈیا۔

ذیل میں جرنلزم کی اساسی شاخوں سے نکلی ہوئی ان قِسموں کاذکر ضروری ہے جو سماجی احوال کےتنوع سے معرض وجود میں آئیں اور سماج سے بہت ہی گہرا رشتہ استوار کرچکی ہیں:
1۔ایڈوکیسی جرنلز :یہ صحافت کی ایک خاص اصطلاح ہے جس سے جڑی خبریں (Advocacy Journalism)کہلاتی ہیں۔یعنی: خاص سیاسی یا سماجی مقصد کے فروغ کے لئے صحافت کی تکنیک کا استعمال۔
نشریاتی صحافت: خبروں کی اشاعت کے لئے تحریر یا ریڈیو یا ٹیلی ویژن کا استعمال۔
3۔ڈرون جرنلزم :اس میں بغیر پائلٹ کےطیارے کا استعمال ہوتا ہے جو اپنے اندر نصب خاص قسم کے کیمرہ کی مدد سے تصویریں قید کرتے ہیں۔
4۔گونجو جرنلزم :اس کا استعمال سب سےپہلے “ہنٹر۔ ایس۔تھامسن”(Hunter۔ S۔Thompson)نے کیاتھا۔ خبروں کی رپورٹنگ میں یہ صحافیوں کا بہت ہی معیاری اور خاص طریقہ کار ہے۔
5۔تفتیشی جرنلزم :ذرائع سے حاصل شدہ خبروں کی تحقیق۔چوں کہ بعض اوقات صحافی موقع واردات سے خبررسانی کا فریضہ انجام نہیں دیتا اور معاون ذرائع کی مدد لیتا ہے،جس کی چھان بین ایک صحافی کی ذمہ داری ہے۔
6۔تصویری جرنلزم :تصاویر کی مدد سے حادثات وواقعات کی خبر دینا۔
7۔شرمپ جرنلزم:کھیلوں کے فروغ کے لئے سوشل میڈیا کی مدد سے بے بنیاد افواہیں پھیلانا۔
8۔بزنس جرنلزم:اس میں تجارتی دنیا کی ہر چھوٹی بڑی خبریں پیش کی جاتی ہیں۔جیسے:کسادبازاری،شیئر مارکیٹ میں اچھال،نئی مصنوعات کا لاؤنچ ،گرانی سے متعلق عوامی نظریات وغیرہ۔
9۔سیٹیزن جرنلزم:(عوامی صحافت)عوام کا خبریں اور معلومات اکٹھی کرنا اور صحافیانہ خدمات انجام دینا۔
10۔ماحولیاتی جرنلزم:اس شعبہ سے جڑے صحافی کا مطمح نظر صرف ماحولیاتی خبریں ہوتی ہیں اور وہ ماحولیات سے جڑی ہر چھوٹی بڑی خبروں سے عوام کو آگاہ کرتا ہے۔اور یہ ایک صحت مند سماج کے لئے مثبت عمل ہے۔
11۔اسپورٹس جرنلزم:ایک صحافی کھیل سے متعلق جملہ تفصیلات عوام کو پیش کرتا ہے۔
12۔کرائم جرنلزم:صحافت کا یہ شعبہ سماجی بہبود کے لئے بہت ہی مددگار مانا جاتاہے ،جس میں جرائم سے جڑی خبروں کا انکشاف ہوتا ہے۔
13۔ترقیاتی جرنلزم:سماج کی ترقی کےلئے یہ شعبہ کام کرتا ہے۔اس صحافت کا فکرہ 1960 کی دہائی میں”پریس فاؤنڈیشن آف ایشیاء”میں منظر عام آیا۔جب دو “فلیپینی”صحافی(Alan Charley)اور(Juan mercado)کو محسوس ہوا کہ “نیوز فاؤنڈیشن”سماجی اور اقتصادی ترقی میں نااہلی کا ثبوت پیش کرر ہے ہیں۔
14۔کراؤڈ جرنلزم یا کراؤڈ میڈیا:
رپورٹرز اپنے آرٹیکلز کے لیے اپنے اسمارٹ فونز کے ذریعے تصاویر اور ویڈیوز بناتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں سوشل میڈیا کے طفیل وجود میں آنے اور فروغ پانے والی اس فوٹو گرافی نے ’’کراؤڈ میڈیا‘‘ کا نام پایا ہے۔
15۔یلو جرنلزم:(زردصحافت)صحافت کی پست ترین شکل جس میں کسی خبر کے سنسی خیز پہلو پر زور دینے کے لئے اصل خبر کی شکل اتنی مسخ کر دی جاتی ہے کہ اس کا اہم پہلو قاری کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتاہے۔

یہ اصطلاح انیسویں صدی کی آخری دہائی میں وضع ہوئی۔جب “نیویارک”کے اخبارات کے رپورٹر اپنے اخبار کی اشاعت بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر وحشت ناک اور ہیجان انگیز رپورٹنگ کرتے تھے۔یہ اشاعتی جنگ(Circulation War) اس وقت عروج پرپہنچی جب “ہسپانوی فوجوں “کے مظالم کی داستانیں “کیوبا”میں اخبارات میں خوب نمک مرچ لگا کر شائع کیں،اور امریکی رائے عامہ کےخلاف “اسپین” کو اس قدر برانگیختہ کردیا کہ امریکا اور اسپین کی جنگ تقریبا۔ ناگزیر ہوگئی۔
“زرد صحافت ” کی اصطلاح دراصل اس سنسی خیز کامک سیریل سے ماخوذ ہے جو Yellow Kid کے عنوان سے امریکی اخبارات میں شائع ہوتا تھا۔

موجودہ صحافت:
صحافتی قدریں کھو دی گئی ہیں۔اس پیشہ سے جڑے کچھ ہی افراد ہوں گے جو اس کی روح کوسمجھ پارہے ہیں۔ ورنہ موجودہ صحافت سیاسی ٹولوں کا غلام بن کر رہ گئی ہے۔ قلم کا استعمال عوامی انصاف کے لئے نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے جھوٹے کارناموں کی تشہیر اور سینماؤں کے promotion کے لئے ہوتاہے۔یا پھر خبریں انہیں کی شائع کی جاتی ہیں جن سے صحافیوں کا مفاد جڑاہو۔اگر کسی نے حق بات کہی تو اس کو نہ شائع کر  کے،اس کی آواز کو دبا دیاجاتاہے۔خبریں حقیقت سے دور اس طرح سے توڑ مروڑ کر   تیار کی جاتی ہیں کہ مجرم بَری ہوجاتاہے اور مظلوم اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹتاہے۔آج کی صحافت یہ ہے کہ منصوبہ بندی سے کسی معصوم کی جان لے لی جاتی ہے اور صحافی کے قلم کا زور کذب بیانی کی بنیاد پر اس موت کو ایک حادثہ ثابت کردیتا ہے۔بایں طور موجودہ صحافت کو “زرد صحافت “سے تعبیر کرنا غلط نہ ہوگا کہ سماج کا بہت حد تک سکون انہی  کی غلط بیانیوں سے غارت ہے۔

“ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ برائیاں صرف میڈیا نے ہمارے معاشرے میں پھیلائی ہیں۔ہاں مگر ہمارے سماج میں بڑھتی ہوئی نفرت،(مذہبی تعصب)،شدت پسندی،اخلاقی وسماجی برائیاں، معدوم ہوتی ہوئی رواداری،شرم وحیا اور غیرت بھی کافی حد تک میڈیا کی منفی،یعنی:چٹخارے دار رپورٹنگ،ٹاک شوز کی جھڑپوں،واہیات ڈراموں اور لچر اشتہاروں کا شاخسانہ ہے”۔(یہ دل سوز اقتباس ایک پاکستانی قلم کار سرفراز صدیقی کی تحریر سے منقول ہے)

غسان مائیکل روبیز “جنیوا”میں قائم گرجا گھروں کی عالمی کونسل کے سابق مشرق وسطی کے سیکریٹری ہیں۔وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پھیلائی جارہی منافرت اور مذہبی تعصبات پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”نئے میڈیا کی کثرت نسلی مذہبی گروہوں کے باہمی تعلقات پر مثبت یا منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔ہم سب یہ جانتے ہیں کہ اچھی خبروں کی نسبت بری خبریں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔۔۔اور نفرت بھری حرکات کو باربار نشر کرنا مختلف کمیونٹیز کے درمیان تباہ کن اثرات کا موجب بن سکتا ہے”۔
ذیل کے نکات سے میڈیا کے منفی اثرات کو کم کیا جاسکتا ہےکیا:
1۔تفہیم،رواداری اور درد دل کے جذبے کو فروغ دینے والے نشاطات نشر کیے جائیں۔
2۔میڈیا کی نگرانی کے لئے اداروں کی تشکیل ہو۔
3۔پروڈیوسرز،ایڈیٹرز اور رپورٹرز پر منفی خبروں کی عدم اشاعت کے لئے دباؤ۔

نوٹ:جملہ مواد(انگریزی،عربی اور اردو) ثلاثیات سے ماخوذ ہیں۔
1)Wikipedia of Journalism English,Arabic and Urdu۔
2)International Encyclopedia of Communication۔
3)American Press of Journalism۔
4)ABC News۔(Drone Journalism )
4)Types of Journalism۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

shakiradiltaimi
محمد شاکر عادل بن محمد عباس بی ۔اے،جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورہ ہائر ڈپلوما ان کاؤنسیلنگ اینڈ گائیڈنس(جامعہ اسلامیہ ،مدینہ منورہ) استاذ جامعہ الہدی الاسلامیہ،ہورہ،کولکاتا،مغربی بنگال

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply