عید الفطر کے بعد اس ہفتے راولپنڈی جانا ہوا ،نو بجے صبح گھر سے چلے ڈیفنس سے موٹروے تک جانے کے لئے رنگ روڈ کا سیالکوٹ بائی پاس کا راستہ اختیار کیا، یہ راستہ میرے لئے نیا تھا مجھے بہت اچھا لگا کہ سڑک کے دونوں طرف گھنے درخت اور سبزے کی بہتات ہے درختوں کے پار چاول کے خوبصورت کھیت پھیلے ہوئے ہیں، کھڑے پانی میں اُگی ہوئی فصل ایسے دکھائی دیتی ہے جیسے دور تک سبز قالین بچھا ہوا ہے ۔
یہ علاقہ چاول کی فصل کا گھر ہے کسان کھیتوں میں مصروف تھے برکھا رُت اپنے جوبن پر ہے موسم بڑادلفریب ہورہا تھا، ٹھنڈی ہوا کے دوش پر سوار مست گھٹائیں گِھر کر آرہی تھیں ابھی موٹروے پر پہنچے نہیں تھے کہ بارش شروع ہوگئی ،اس سال بارش کا انداز انوکھا ہے ہلکی بوندا باندی کی بجائے ایک دم چھاجوں مینہ برسنے لگ جاتا ہے موسلادھار دھار بارش سے گاڑی کی ونڈ سکرین پر چنچل بوندوں کے رقص کی بجائے پانی کی دھاریں بہہ رہی تھیں، پورے زور سے چل رہے گاڑی کے وائپر مشکل سے پانی کو صاف کر رہے تھے اتنی دھواں دھار بارش میں ارد گرد کے مناظر دھندلا سے رہے تھے ایسے موسم میں گاڑی میں باہر نکلنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے گاڑی کون سی میں نے چلانا ہوتی ہے یہ ملک صاحب کا کام ہے میں تو بس موسم کا لطف اٹھاتی ہوں۔
تھوڑے تھوڑے دنوں بعد ہونے والی بارش سے درخت پھول پودے اور گھاس دھل کر نکھر گئے ہیں ، ہر طرف ہریالی آنکھوں کو بے حد بھلی لگتی ہے کھیتوں کے بیچوں بیچ بنے ہوئے گھر اور چھوٹے بڑے دیہات کسی اور ہی دنیا کا تصور پیش کرتے ہیں جب سرگودھا ریجن میں داخل ہوئے تو کنو اور مالٹے کے باغات کے نکھرے ہوئے حسن نے مسحور کردیا گاڑی میں ہم تین لوگ تھے مگر سب پر موسم کی دلفریبی نے جادو کردیا تھا کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا بس انہی نظاروں میں گم چلتے جا رہے تھے۔
ہم آتے جاتے بھیرہ انٹر چینج پر رکاکرتے ہیں مگر اس دن بارش نے رکنے نہ دیا، پوٹھوہار کی سرخ مٹی کی سرزمین شروع ہوئی تو اس کا ایک انوکھا ہی روپ تھا ہل چلی ہوئی لال مٹی پر گہرے سبز درخت اور فصلیں الگ ہی بہار دکھلا رہی تھیں اور پھر کوہستان نمک کا وہ علاقہ شروع ہوگیا جہاں پہنچ کر میں تو سانس لینا ہی بھول جاتی ہوں ایسا لگتا ہے موٹروے کا یہ حصہ مجھے اپنی طرف کھینچ رہا ہے بارشوں نے یہاں بھی اپنا اعجاز دکھایا ہے ان پتھریلی چٹانوں کا حلیہ ہی بدل گیا ہے سوکھے سنگلاخ پہاڑوں کو بھی سر سبز درختوں نے زمردیں مخمل کا لباس پہنا دیا ہے یہاں جاکر یہ احساس ہوتا ہے کہ پانی ہی زندگی ہے زمین میں خواہ کتنی ہی قوت نمو ہو جب تک اس کی پیاس نہ بجھے پانی میسر نہ ہو تو اس کے سینے سے زندگی نہیں پھوٹتی اور جب اوپر سے پانی برستا ہے تو پتھروں میں بھی جان آجاتی ہے وہ بھی سانس لینے لگتے ہیں، درخت اگرچہ پہاڑی کیکر کے تھے جھاڑیاں کاہو کی ہیں مگر رنگ تو سبز مخمل جیسا تھا موٹروے کا دس کلومیٹر کا یہ حصہ توجہ کو مسلسل اپنے حصار میں رکھتا ہے میں تو اس وقت اللہ کی شکر گذار ہوتی ہوں کہ میرا وطن اتنا حسین ہے کہیں سر سبز ہموار میدان کہیں خشک کہیں ہرے بھرے پہاڑ ریتلے صحرا شوریدہ سر چشمے چنچل ندیاں سکون سے بہتے دریا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہر قسم کے پھل اور میوے طرح طرح کی سبزیاں اور اناج اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائیں۔
لاہور سے لگاتار گاڑی چلاتے ہوئے ملک صاحب نے کلر کہار پر پہنچ کر بریک پر پاؤں رکھا یہاں پیچھے دکھائی دینے والے ہرے بھرے پہاڑ کے پہلو میں ریسٹ ایریا کی عمارتیں اور جھیل کا جھلملاتا پانی کسی حسین خواب کا حصہ لگ رہا تھا یہاں سے آگے جانے کو دل نہیں مانتا تھا لیکن بروقت منزل پر پہنچنا بھی ضروری تھا کچھ دیر وہاں رک کر ہم عازم اسلام آباد ہوئے بارش پیچھے رہ گئی تھی اب سڑک خشک اور صاف ستھری تھی لاہور سے اسلام آباد تک اس کے باوجود کہ تیز بارش تھی ہم چار گھنٹے میں گھر سے گھر تک پہنچ گئے جب کہ جی ٹی روڈ سے اس موسم میں پانچ گھنٹے سے بھی ذیادہ وقت لگتا تھا موٹروے کا دلفریب راستہ اور راستے بھر پھیلی ہریالی نے دل کو سرور اور سرخوشی سے ہمکنار کیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں