اجرتِ رسالت/کمیل اسدی

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی. (الشوری، 42: 23)
فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا سوائے اپنے قربت داروں سے محبت کے۔حضرت سعید ابن جبیر رضی اللہ عنھما اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضور علیہ السلام سے پوچھا گیا:
يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَوَلَدَاهَا.
(أخرجه ابن أبي حاتم الرازي في تفسيره، 10/ 3276، الرقم/18473)
’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کی قرابت والے وہ کون لوگ ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ، اور اس کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین)۔

امام احمد بن حنبل روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ
لَمَّا نَزَلَتْ: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی} (الشوریٰ، 42/23)، قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَمَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا.
(احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2: 669، رقم: 1141)
’’جب مذکورہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل قرابت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے رضی اللہ عنہم‘‘۔

انصاراپنے ایک بڑے جلسہ میں اپنا فخرو مباہات بیان کررہے تھے کہ ہم نے یہ کیا اور وہ کیا۔ جب ان کی باتیں حد سے گزریں تو حضرت عباس یا ابن عباس سے نہ رہا گیا اور بے ساختہ بول اٹھے کہ تم لوگوں کو فضیلت سہی مگرہم لوگوں پر ترجیح نہیں ہوسکتی اس مناظرہ کی خبر رسول خدا کو پہنچی تو آپ خود ان کے مجمع میں تشریف لائے اور فرمایا اے گروہِ انصار کیا تم ذلیل نہ تھے تو خدا نے ہماری بدولت تمھیں معزز کیا سب نے عرض کیا بیشک۔
پھر فرمایا کیا تم لوگ گمراہ نہ تھے کہ خدا نے میری وجہ سے تمھاری ہدایت کی۔ عرض کی گئی یقیناََ۔
پھر فرمایا کیا تم لوگ یہ نہیں کہتے کہ تمھاری قوم نے تم کو نکال باہر کیا تو ہم نے پناہ دی تمھاری قوم نے جھٹلایا تو ہم نے تصدیق کی تمھاری قوم نے تم کو ذلیل کیا تو ہم نے مدد کی۔ غرض اسی قسم کی باتیں فرماتے جاتے تھے یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے زانون کے بل بیٹھے اور عاجزی سے عرض کرنے لگے ہمارے مال اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ سب خدا اور رسول کا ہے یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ آیت مؤدت نازل ہوئی۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا جو شخص آل محمد کی دوستی پر مرجائے وہ شہید مرتا ہے
سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرے وہ مغفور ہے
سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرے وہ کامل الایمان مرا۔
سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرے اسکو ملک الموت اور منکر نکیر بہشت کی خوشخبری دیتے ہیں۔
سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرا وہ بہشت میں اس طرح رکھا جائیگا جیسے دلہن شوہر کے گھر۔
سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرا اس کی قبر میں جنت کے دو دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔
سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرا اسکی قبر کو خدا رحمت کے فرشتوں کی زیارت گاہ بناتا ہے۔
سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرا وہ سنت و جماعت کے طریقہ پر مرا۔
سنو جو آل محمد کی دوستی پر نہ مرا قیامت میں اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا کہ خدا کی رحمت سے مایوس ہے۔
یاد رکھو جو آل محمد کی دشمنی پر مرا وہ کافر ہے۔
سن رکھو جو آل محمد کی دشمنی پر مرا وہ بہشت کی بو بھی نہ سونگھے گا۔
پھر اسی وقت کسی نے پوچھا حضور جن کی محبت کو خدا نے ہم پر واجب کیا وہ کون ہیں؟ فرمایا علی ، فاطمہ اور ان کے بیٹے حسن و حسین۔
پھر فرمایا جو شخص میرے اہلبیت پر ظلم کرے اور مجھے میری عترت کے بارے میں اذیت دے اس پر بہشت حرام ہے۔
تفسیر کشاف عالمہ محشری جلد 3 صفحہ 67
صحیح بخاری، مسندامام احمد بن حنبل، درمنشور

جن کی محبت واجب تھی ، ہے اور رہے گی ان کے ساتھ امت نے کیا سلوک کیا۔ نفسِ پیغمبر مولائے کائنات کے ساتھ جنگیں کی گئی۔ چاہے وہ جنگ صفین ہو یا جنگ جمل واجب کو ترک کرکے امت نے کیا حاصل کیا؟
جو پکار پکار کر کہتا رہا کہ نبی پاک علم کے شہر ہیں اور میں اس کا دروازہ میں علی زمین کے راستوں سے زیادہ آسمانوں کے راستوں کو جانتا ہوں۔
پوچھو پوچھو اس سے قبل کہ میں تم میں موجود نا رہوں۔ ہائے افسوس اس امت نے کوئی فیض حاصل نہ کیا۔
بی بی فاطمہ کو اتنا رلایا گیا کہ فرماتی تھیں کہ یہ مصائب اگر دنوں پر پڑتے تو وہ راتوں میں ڈھل جاتے۔
امام حسن ع کے ساتھ جنگ کی گئی زہر دے کر شہید کیا گیا۔ نانا کے پہلو میں سونا چاہتے تھے لیکن جنازہ پر اتنے تیر برسائے گئے کہ کفن دوبارہ پہنا کر جنت البقیع میں دفنایا گیا۔ لیکن نانا کے پاس دفن نہ ہونے دیا گیا۔

امام حسین کے ساتھ کیا ہوا۔ مدینہ سے دو یا تین افراد کے سواء کسی نے ساتھ نہ دیا۔ حج کو عمرہ میں بدل کر سززمین حجاز چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
وہ کوفی جنہیں سب وجہ شہادت قرار دیتے ہیں اکثریت ساتھ دینے والوں میں اہلِ کوفہ ہی تھی۔ پھر کربلا میں کیا کیا ظلم نہ ہوا۔
خانوادہ اہلبیت بھوکے پیاسے صحرا میں ماردیئے گئے۔

ننھے 6 ماہ کے علی اصغر کو ذبح کیا گیا۔ اٹھارہ سالہ جوان جو گفتار و کردار میں ہم شکلِ پیغمبر تھا برچھیوں سے گھائل کیا۔
کربلا میں علی کے 7 بیٹے شہید کردئیے گئے۔ جعفر طیار (حضرت علی کے بھائی) کے پوتے نواسے شہید کردئیے گئے۔
شجرہ طیبہ کی ایک ایک شاخ پھول اور کلیوں کو بے رحمی سے مسل دیا گیا۔
اہلبیت کی خواتین سے چادریں چھین کر ننگے سر بازاروں کے رستوں سے لے جایا گیا۔
کیا یہی اجرتِ رسالت تھا جو اس امت نے ادا کیا؟

وائے ہو ان پرجنہوں نے یہ ظلم برپا کیا، اور جنہوں نے اس ظلم پر خاموشی اختیار کی یا جنہوں نے اس ظلم کا ساتھ دیا۔
آج نو محرم 2023 ہے پروردگار ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے صدقہ میرا شمار محبانِ اہلبیت میں فرمائے اور میرے لئے روزِ محشر یہی الفاظ سرخرو ہونے کا سبب بنیں۔
محرم کی مناسب سے امام حسین ع کی شان میں ایک حدیث کی تذکرہ کے ساتھ میں اپنی تحریر کو سمیٹتا ہوں۔
حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ۔أَحَبَّ اﷲُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا.
(احمد بن حنبل، المسند، 4: 172)

’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اُس سے محبت کرے اور کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں ایک حقیقت بھی بیان فرمائی اور ایک دعا بھی دی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے، اللہ اُس سے محبت کرتا ہے اور اِس میں آقا علیہ السلام نے دعا بھی کی کہ اللہ اُس سے محبت کر جو میرے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امام احمد بن حنبل اور امام ترمذی اور دیگر آئمہ نے تو اس حدیث کو حدیث صحیح لکھا ہی ہے مگر سعودی عرب میں سلفی مکتب فکر کے نامور عالم محدث علامہ البانی ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے مختلف کتب حدیث کے اوپر تخریجات اور تحقیقات کی ہیں۔ وہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ یعنی اِس حدیث کی صحت کا عالم یہ ہے کہ علامہ البانی جیسے شخص بھی اِس حدیث کے صحیح ہونے کا انکار نہیں کرسکے اور اپنے السلسلہ الصحیحہ میں اِسے درج بھی کیا اور صحیح بھی کہا ہے۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply