پانی سے مسکراتی زندگی۔۔ اورنگزیب نادر

پانی کی قلت ایک عالمگیر مسئلہ بن چکاہے۔دنیا میں بیشتر ممالک کو پانی کا مسئلہ درپیش ہے اور پاکستان ان میں سے ایک ہے اور پانی کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے جہاں پانی کی شدید قلت ہے ۔پانی کا بحران ایک بڑا مسئلہ ہے جو کسی ملک کے سماجی و اقتصادی اور زراعت کو تباہ کر دیتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کو پانی کی کمی کے باعث متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ جس میں وسیع پیمانے پر ملک کے سماجی و اقتصادی خوشحالی کا فقدان ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق، پاکستان کی فی کس سالانہ پانی کی دستیابی 2009 میں 1500 کیوبک میٹر سے گھٹ کر 1,017 کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔ پاکستان 1,000 کیوبک میٹر کی قلت کی حد کے بہت قریب ہے، اور موجودہ ترقی کو دیکھتے ہوئے، ملک جلد ہی خطرے کی سطح تک پہنچنے والا ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) نے ان خدشات کی تصدیق کی ہے۔ اس نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان 2025 تک پانی کی مکمل کمی کے قریب پہنچ جائے گا۔ یونیسیف کے مطابق 2025 تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے علاقوں میں رہ سکتی ہے۔
2030 تک پانی کی شدید قلت سے تقریباً 700 ملین لوگ بے گھر ہو سکتے ہیں۔

پاکستان اپنے دریائوں سے ہر برس 145 ملین فیٹ پانی حاصل کرتےہیں۔ اس میں ہمیں گھریلو استعمال کے لئے 12 MAF اور صنعتی ضروریات کے لیے 8 MAF درکار ہوتے ہیں ۔ اگر ہم مستقبل کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں 50% اضافہ کردیں تو بھی ہمارے گھریلو اور صنعتوں کے لئے کل 30 MAF کافی ہوتاہے ۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے تاہم بدانتظامی اور آبشاشی کا نظام ناقص ہونے کی وجہ سے آبی وسائل کا بری طرح سے ضائع ہورہاہے اور سالانہ 104 MAF زراعت کی نذر ہوجاتاہے۔ زراعت کے شعبے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پانی فرسودہ طریقے سے استعمال ہورہاہے یعنی جتنی پانی کی ضرورت ہے اُس سے 5 سے 6 گنا زیادہ پانی استعمال کرتےہیں ۔زراعت میں 5 گنا زیادہ پانی استعمال کرنے کی وجہ سے ہمارے دریاخشک ہونے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بین الااقوامی معیار سے 4 گنا کم ہے تاہم خوش قسمتی سے قدرت نے ہمیں Aquifer سے نواز رکھاہے ہمارے ہاں زیر زمین 3000 MAF پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے

اس وقت تقریباً 3 کروڑ پاکستانیوں کو پینے کے صاف پانی کا مسئلہ درپیش ہے۔ WHO کے مطابق ایک انسان کو روزانہ 50 سے 100 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کراچی کے اورنگی ٹاون کے لوگوں کو ایک دن میں 70 لیٹر حاصل ہوتاہے یہ دیکھنے میں تو زیادہ لگتے ہونگے لیکن 70 لیٹر پانی آخر کتنا ہوتاہے؟ اگر آپ 10 منٹ نہائے تو 20 سے 25 گیلن استعمال ہوتاہے۔ 20 سے 25 گیلن کا مطلب 80 سے 100 لیٹر پانی ہوتاہے ۔ اورنگی ٹاون میں کئی لوگوں کو دن میں اتنا پانی میسر نہیں ہوتاہے۔ اس وقت کراچی کی آبادی 3کروڑ کے قریب ہے جس کے لئے روزانہ کم سے کم 600 سے 700 ملین گیلن کی ضرورت ہے لیکن آپ کو جان کہ حیرانگی ہوگی کہ کراچی میں روزانہ 400 ملین گیلن فراہم کیاجاتاہے۔ لیکن پاکستان میں دریائیں ، چشموں ، زیر زمین پانی ، گلیشیئر سبھی موجود ہونے کے باوجود پانی کی قلت کی وجہ کیاہے؟ اس کی وجہ یہ ہے ہم اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور پانی کو سمندر میں گرا کرکے ضائع کررہےہیں۔ ہم گلیشیئر اور بارشوں سے بڑی مقدار میں پانی حاصل کرتےہیں لیکن ڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال 10 ٹریلین گیلن پانی سمندر میں گرا کرکے ضائع کررہےییں۔ یہ اتنا پانی ہے اس سے 3 سے 4 منگلا جیسے بڑے ڈیمز بھرے جاسکتےہیں اور یہ پانی ناصرف کراچی بلکہ پورے پاکستان کے لئے استعمال ہوسکتےہیں۔ ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ایک اور بہت بڑےمسئلے کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں زیادہ سے زیادہ 30 دن کے استعمال کا پانی ذخیرہ کرسکتےہیں جو کہ بہت کم ہے

پانی کی قلت کے چند اسباب درج ذیل ہیں۔ غیر موثر انتظام ‘ غیر مساوی رسائی اور تقسیم، بڑھتی ہوئی آبادی، شجر کاری، ترقی پسند صنعت کاری، ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کی کمی اور آب و ہوا کا خطرہ پانی کے انتظام کو مشکل کام بنا دیتا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں میں نمایاں کمی آئ ہے جس کی وجہ سے پانی کے بحران کا سامنا ہے ۔ایک اور وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے جو پانی کے بحران کی ایک اہم وجہ سمجھاجاتاہے ۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ پانی کا استعمال بھی زیادہ ہوتا ہے جس کے باعث پانی کی قلت کا سامنا بڑھ رہاہے۔اور اہم وجہ جیسے ہم اکثر نظر انداز کرتےہیں وہ ہے زراعت میں پانی کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا ہے ۔ جتنا پانی کی ضرورت ہوتی ہے ہم اُس سے دگنا پانی استعمال کرتےہیں اور اس وقت پاکستان میں میٹھے پانی کا 97 فیصد زراعت کے شعبے میں استعمال ہوتا ہے جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 18 فیصد بنتا ہے۔ زراعت کے خراب انتخاب، سیلاب کی آبپاشی، ہائبرڈ بیجنگ کی کمی اور پانی کا ناقص انتظام آبی وسائل پر بہت زیادہ بوجھ ڈال رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگرچہ پانی انسانی زندگی کے لیے نعمت ہے یہاں تک کہ یہ خوشحالی، صحت، ترقی کی نشاندہی کرتا ہے ۔بلاشبہ پانی کی بدانتظامی کا مطلب زندگی کی بدانتظامی ہے۔ جیسا کہ تھامس فلر نے درست کہا، ’’ہمیں پانی کی قدر کا اندازہ نہیں ہوتا، جب تک کہ کنواں خشک نہ ہو۔‘‘پانی کا عالمی دن، جو 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو منایا جاتا ہے، میٹھے پانی کی اہمیت پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے کہ لوگوں کو پانی کی قلت کے بارے میں آگاہ کیاجائے تاکہ پانی کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جائے۔
آخر میں، حکومت پاکستان کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے اور انفرادی طور پر ہمیں اس مسئلے کو سمجھنا ہوگا اور پانی کو ضائع اور محفوط بنانے کے لیے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ مستقبل میں پانی کی کمی کا شکار نہ رہیں اور ہم ہنستی اور مسکراتی زندگی بسر کرسکیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply