ترکیہ میں یومِ عاشورہ/افروز عالم ساحل

محرم کی دسویں تاریخ۔۔۔ یومِ عاشورہ۔۔۔ صبح کے قریب دس بجے ہوں گے۔۔۔ استنبول کے ہلکلی نامی علاقے کے ’عاشورہ میدان‘ اور یہاں موجود آڈیٹوریم ’یحییٰ  کمال بیاتلی پرفورمنس سنٹر‘ لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا ہے۔ استنبول کے مختلف علاقوں سے نکلنے والا ماتمی جلوس یہاں آکر ختم ہورہا ہے۔ سڑکوں پر ہر طرف ماتم کا ماحول ہے۔ چاروں طرف سیاہ کپڑے ہی نظر آ رہے ہیں۔ سینہ کوبی کی آوازیں فضا میں گونج رہی ہیں۔ لوگ کربلا کی منظرکشی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اور ان لوگوں میں صرف ترکیہ ہی نہیں، بلکہ دیگر ممالک کے لوگ بھی شامل ہیں۔ میری ملاقات ’ہا لینڈ‘ سے آئے ایک صاحب سے ہوتی ہے، جو اپنے خاندان کے سات لوگوں کے ساتھ یہاں آئے ہیں۔ آذربائیجان سے آنے والے لوگوں کی تعداد تو شاید سینکڑوں میں ہوگی۔ انہوں نے تو باضابطہ طور پر اپنا الگ سے جلوس بھی نکالا ہے۔ غورطلب رہے کہ اس طرح کا ماتمی جلوس صرف استنبول ہی نہیں، بلکہ ترکیہ کے دیگر شہروں میں بھی نکالے گئے تھے، ان میں خاص طور پر کارس اور ایدیر شہر کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان ماتمی جلوسوں میں ترکیہ کے شیعہ و سنی دونوں ہی شامل ہیں۔ حالانکہ یہاں کی یہ روایت بیحد پرانی ہے۔ اس کا ذکر مولانا شبلی نعمانی صاحب نے سنہ 1901 میں شائع اپنی کتاب ’سفر نامہ روم و مصر و شام‘ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ’یہاں کا محرم بھی ایک قابل ذکر چیز ہے۔۔۔ مجلسوں میں یہاں سوز اور تحت اللفظ کا دستور نہیں، صرف حدیث خوانی ہوتی ہے، اور درحقیقت مجلس عزا کا دستور بھی یہی ہے۔  مجھے   اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ ترک عموماً ان محفلوں میں ادب اور خلوص کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔  اس پرانی روایت کو آج میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مجھے خاص طور پر خوشی اس بات کی ہوئی کہ ان جلوسوں میں شامل لوگوں کے لئے یہاں لوگوں نے جگہ جگہ کھانے پینے کا انتظام کر رکھا تھا۔ یہاں تک کہ کچھ جگہوں پر ڈرائی فروٹس بھی بانٹے جارہے تھے۔

ایک ایسا ہی خوش کر دینے والا منظر یہاں مجھے جمعہ کی نماز کے بعد بھی دکھائی دیا۔ دراصل، میں جس مسجد میں نماز پڑھنے گیا تھا، وہیں سے مختلف علاقوں کے آئے لوگوں کی بسیں کھڑی تھیں۔ یہ تمام سرکاری بسیں تھیں، جسے یہاں کی حکومت نے ان کے آنے جانے کے لئے مفت کر رکھا تھا۔ جیسے ہی نماز ختم ہوئی، ایک ماتمی جلوس مسجد کے قریب آیا، مسجد سے باہر نکل کر لوگ جلوس میں شامل لوگوں کو گلے لگا رہے تھے۔ بلکہ کچھ لوگ ان کے ساتھ شامل ہوکر ماتم میں انکا ساتھ بھی دے رہے تھے۔ ان کے لئے پینے کے پانی کا انتظام بھی ان لوگوں نے کر رکھا تھا، یہ ٹھیک ویسے ہی تھا، جیسے ہمارے یہاں مہاویری اکھاڑے میں مسلمان اپنے ہندو بھائیوں کے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں، حالانکہ مجھے افسوس ہے کہ میں نے انڈیا میں ماتمی جلوسوں کے لئے اس   طرح کا  انتظام کبھی نہیں دیکھا ہے۔

یہاں اس دن لوگ روزہ بھی رکھتے ہیں اور حکومت کی جانب سے جگہ جگہ اجتماعی افطار کا انتظام کیا جاتا ہے، جس میں خاص طور پر شیعہ و سنی دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ایک اور روایت، جو کافی پرانی ہے، وہ ہے افطار کے بعد ’عاشورہ‘ (جسے عاشورے بولا جاتا ہے) تقسیم کیا جانا۔ یہ ایک روایتی ترک سویٹ ڈش ہے، جسے لوگ اپنے پڑوسیوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ہمارے ایک پڑوسی نے بھی ہمارا خیال رکھا اور ہمارے گھر بھی ’عاشورے‘ آیا۔

ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ اسے محرم کی نویں رات میں ہی پکا لیا جاتا ہے، پکانے کے بعد اسے ایک دن کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے اور اگلے دن عوام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ روایات عثمانی سلطنت کے عہد سے تقریباً پانچ صدیوں سے قائم ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، اسے نوح کا دلیہ بھی کہتے ہیں۔ اس بارے میں ترک روایت یہ ہے کہ اسے سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام نے تیار کیا تھا، اسی لئے اس کا نام نوح کا دلیہ پڑ گیا۔ روایت کے مطابق جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی 10 محرم کو کوہِ جودی پر رُکی تو ان کے کھانے پینے کی زیادہ چیزیں نہیں بچی تھیں۔ نوح علیہ السلام نے اپنے خاندان کو کشتی میں باقی بچ جانے والی تمام چیزیں لانے کو کہا اور ان سب کو ملا کر یہ میٹھا شوربہ بنایا۔

آخر میں بتاتا چلوں کہ ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے آج حسین اور کربلا کے تمام شہداء کو ساتھ یاد کیا۔ اپنے ٹویٹر/ ایکس پر لکھا کہ “میں اپنی قوم اور عالم اسلام کو یوم عاشورہ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ محرم کا مہینہ پوری انسانیت کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہو۔” یہی نہیں، ایردوان نے اس سے قبل جمعرات کی شام ترکی میں ایران کے نئے سفیر محمد حسن حبیب اللہ زادہ سے ملاقات کی، اس ملاقات میں انہوں نے دہشت گردی اور اسلامو فوبیا سے نمٹنے اور عالم اسلام کے اتحاد کے میدان میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے پر زور دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ  فیس بک وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply