میرے پاس تم ہو۔۔محمد منیب خان

ہر انسان ایک مکمل اور منفرد کہانی ہوتا ہے۔ یہی انسان جب دوسرے انسانوں سے ملتا ہے تو مزید کہانیاں جنم لیتی ہیں۔  گویا دنیامیں موجود اربوں انسانوں سے کھربوں کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ یہی انسان اور ان سے وابستہ کہانیاں جب کسی قصیدہ گو کی نظرمیں آ جائیں تو وہ انہیں آواز میں سمو دیتے ہیں، مصنف لفظوں کا جامہ پہنا دیتے ہیں، شاعر بحر اور اوزون میں قید کر دیتے ہیں،ہدایتکار اسے برقی پردے پہ چلا دیتا ہے۔ سامع، قاری اور ناظرین ان کہانیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جب کہیں کسی کہانی کی مماثلت کسی دوسرے کی ذات سے نکل آئے تو یا وہ اس کے دل کے زخموں پہ مرہم کا کام کرتی ہے یا زخموں پہ موجود کُھرنڈ کو اتارکر دوبارہ سے خون رسا دیتی ہے۔ دوسری صورت میں ایسی کہانی جو معاشرے کے بہت پسندیدہ یا ناپسندیدہ ہر دو طرح کے کرداروں کے گرد گھومتی ہو وہ کہانی پذیرائی حاصل کر لیتی ہے۔

ایک بات کا بہرحال اعادہ کیا جانا ضروری ہے کہ کسی بھی کہانی میں لکھے جانے والے جملے چاہے کتنا ہی زیادہ مشہور ہو کرحوالہ بن جائیں لیکن وہ آفاقی حقیقت یا سچائی نہیں ہوتے۔ وہ جملے خاص پس منظر میں خاص کرداروں سے ہی وابستہ ہوتے ہیں۔مسئلہ تب آتا ہے جب ان جملوں کو اس پس منظر سے نکال کر استعمال کیا جائے بلکہ ایک آفاقی حقیقت کے طور پہ باقاعدہ پیش کیاجائے۔ عین ممکن ہے ایسی صورت میں بھی وہ بہت سوں کے دل کے نزدیک ہوں لیکن تنقیدی اعتبار سے ان کو تختہ مشق بنانا آسان ہوجاتا ہے۔ آپ سوشل میڈیا پہ پھیلے بہت سے اردو نالوں یا افسانوں کے اقتباس کا جائزہ لیں گو وہ اقتباسات اپنی کہانی سے الگ ہو کربھی جاندار اور پر اثر رہتے ہیں لیکن پس منظر کے بنا ان پہ تنقیدی رائے دینا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے جملوں اور ان کے مصنفین پہ تنقید ایک آسان کام ہو گیا ہے۔

میرے پاس تم ہوبھی بہت سی کہانیوں کی طرح کی ہی ایک کہانی ہے۔ جو معاشرے کے تین کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک کردارجو معاشرے کا پسندیدہ کردار ہےمحبت کرنے والا شوہر، ایک دوسرا کردار جو معاشرے کا ناپسندیدہ بلکہ دھتکارا ہوا کردار ہےدولت کی خاطر بے وفائی کرنے والی بیویاور تیسرا کردارایک دولت مند جو حُسن کو بازار حُسن سے نہیں بلکہ شرفا کے محلےسے خریدتا ہے۔۔۔ اس کہانی کے مصنف خلیل الرحمن قمر کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کے لکھے جاندار ڈائیلاگ اس ڈرامے میں بھی ناظرین کو اپنی سحر میں جکڑ ہوئے ہیں۔ لیکن افسوس کہ  اتنا بڑا لکھاری اتنے کامیاب ڈرامے کے آن ائیر ہونے کے دوران ایسےتنازعات میں الجھا نظر آیا جو شاید اس کے شایان شان نہیں تھے۔ جبمحبت کرنے والے شوہرنے کہا کہآپ مجھے اس دو ٹکےکی عورت کے لیے پچاس لاکھ دے رہے تھےتو تنقید کی ہلکی ہوا سے لوگوں کے مزاج میں جنبش پیدا ہوئی کہ عورت کو دو ٹکے کی کہاگیا حالانکہ پس منظر جاننے والوں کو یہ ہضم کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے تھا کہ ایک عورت جس کا خاوند متوسط طبقے سے ہے لیکن وہ اپنی بیوی سے بے حد پیار کرتا ہے اور ان کا ایک چار پانچ سال کا بچہ بھی ہے وہ عورت محض دولت کی محبت میں وہ سارا مال ومتاع چھوڑ جائے جس کو آج بھی لاکھوں لوگ دعا میں مانگتے ہیں تو وہ کردار اس کودو ٹکےکا ٹیگ ہی لگائے گا۔ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ عورت کی اپنی چوائس ہے۔ تو یقیناً ہے لیکن اولاد کو اس طرح نظر انداز کرتا تو کبھی جنگلی جانوروں کو بھی نہیں دیکھاگیا۔ لہذا اس پس منظر میں وہ جملہ، وہ ڈائیلاگ مکمل فٹ بیٹھتے تھے۔ اور اس عورت کی شوہر کا رد عمل بھی قابل فہم تھا۔

جبکہ دوسری طرف خلیل الرحمن قمر نے سائیڈ لائن پہ ایک دو ایسی باتیں کہیں  جو سمجھ سے بالا تر ہیں۔ میں خلیل الرحمن قمر کوذاتی حیثیت میں نہیں جانتا لہذا ان کی شخصیت پہ کسی قسم کی رائے قائم کرنا بد دیانتی ہو گی البتہ ان کو ان کے بولے گئے جملوں سے ضرور تولا جائے گا۔عورتوں کو اگر مردوں کے برابر حقوق چاہیے تو وہ مردوں کا ریپ کریںقطع نظر جنس کے یہ جملہ کسی بھی انسان کی طبیعت پہ گراں ہی گزرے گا۔ انسان کو سلیم الفطرت پہ پیدا کیا گیا ہے۔ جنسی تسکین کا حاصل کرنا بھی جبلت کاحصہ ہے اور زبردستی جنسی تسکین کا حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں کو اپنے لیے ناپسندیدہ ہے۔ یہ جرم بھی ہے اور گناہ بھی،لہذا کسی کو اپنے حق کے حصول  کے لیے کسی جرم بلکہ گناہ کا راستہ دکھانا ناقابل فہم ہے۔ اور اتنے بڑے رائٹر سے اتنے چھوٹےجملے کا آنا بہت ہی افسوسناک ہے۔

اسی طرح گزشتہ ہفتے ڈرامے کی کامیابی کو منانے کے لیے بلائے جانے والے  پروگرام میں خلیل الرحمن قمر کا ایک اور جملہ لوگوں کی سماعتوں پہ گراں گزرا۔  عورت فطرتاً بے وفا نہیں ہوتی، اور جو بے وفا ہو وہ عورت نہیں ہوتی۔۔۔ فطرتاً کوئی بھی بے وفا نہیں ہوتا،جیسے محبت، نفرت، غصہ اور دیگر جذبات فطرت کا حصہ ہیں ایسے ہی وفا اور بے وفائی بھی انسان کی فطرت کا حصہ ہیں اورانسان کی یہی کوشش رہنی چاہیے کہ وہ مذہبی اور سماجی تعلیم اور تربیت سے اپنے منفی جذبوں کو سدھار لے۔ وہ نفرت سے زیادہمحبت کے جذبے کی نگہداشت کرے وہ بے وفائی سے زیادہ وفا کے پودے کی دیکھ بھال کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک لکھاری کردار سوچتا ہے وہ کرداروں کو ایک لڑی میں پروتا ہے اور جملوں سے ایک ایسا پر اثر ماحول بناتا ہے جو دیکھنے والوں کے دلوں میں اتر جاتا ہے۔ لیکن شاید اگر یہی لکھاری کرداروں سے نکل کر خود ایک کردار بننے کی خواہش کا شکار ہو جائے تو ایسے ویسے ہی جملے بولے جاتے ہیں جیسے خلیل الرحمن قمر کی زبان سے سرزد ہوئے۔

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply