انسپکٹر صادق گجر شہید کا قتل(حصہ اوّل)۔۔عزیز اللہ خان

ستمبر 1997ء میں میری تعیناتی تھانہ کوٹ سمابہ تھی۔ ان دنوں لشکر جھنگوی، شیعہ فرقہ کے افراد کو نشانہ بنا رہے تھے۔ ان کی دسترس سے کوئی بھی محفوظ نہ تھا۔ اب انھوں نے پولیس ملازمین کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ کیونکہ لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کا تعلق ترنڈہ سوائے خان تھانہ کوٹ سمابہ سے تھا۔ SPمشتاق سکھیرا نے میری پوسٹنگ کوٹ سمابہ اس لیے کر دی تاکہ میں ملک اسحاق پر نگاہ رکھ سکوں کیونکہ ملتان میں خانہ فرہنگ ایران پر حملہ کے بعد ملک اسحاق اور اس کے ساتھی فرار تھے۔ ملک اسحاق کی ایک ڈائری ملتان پولیس کو ملی تھی اس ڈائری میں رحیم یار خان کے بہت سے ایسے لوگوں کے نمبرز تھے جن سے ملک اسحاق مسلسل رابطے میں تھا۔ کوٹ سمابہ تعیناتی سے پہلے میری تعیناتی CIAرحیم یار خان میں تھی SPمشتاق سکھیرا نے ملک اسحاق کی ڈائری میرے حوالے کی تھی تاکہ میں ملک اسحاق کا پتہ لگا سکوں کہ وہ کہاں ہے۔۔

صادق گجر(مرحوم) تھانہ صدر رحیم یار خان تعینات تھے۔ کیونکہ لشکر جھنگوی کا اہم رکن شاہسوار تھانہ صدر رحیم یارخان کارہنے والا تھا۔ شاہسوار نے اپنا الگ گروپ بنا رکھا تھا۔جس میں جبارآرائیں سندھی، ستار آرائیں اور غلام رسول عرف چھوٹو شامل تھے۔ یہ گروپ رحیم یار خان میں وقتا فوقتا ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں بھی کرتا تھا ایک بنک ڈکیتی کے دوران اسلام گڑھ میں ایک کانسٹیبل کو بھی شہید کرچکے تھے اسی طرح تھانہ بی ڈویژن رحیم یار خان کے علاقہ میں ناکہ بندی پر موجود سب انسپکٹر غلام علی اور دوجوانوں کو بھی شہید کرچکے تھے۔ لشکر جھنگوی کے ایک اور رکن ابوبکر کے ساتھ مل کر اس گروپ نے انسپکٹر سجاد حیدر کوبھی شہید کیا۔ ابوبکر SPگوجرانوالہ اشرف مارتھ کے قتل میں بھی ملوس تھا۔ یہ گینگ پولیس والوں کے لیے عذاب بنا ہوا تھا۔ چوہدری صادق (شہید) اس گینگ کو گرفتار کرنے کی بھرپور کوشش کررہے تھے۔ SPآفتاب چیمہ چوہدری صادق پر بہت مہربانی کرتے تھے۔ صادق گجر رحیم یارخان پولیس کا بہت بڑا نام تھا۔ ان کا نیٹ ورک بھی کمال تھا، جرائم پیشہ افراد کی نقل و حرکت کے بارے میں انھیں پہلے ہی معلوم ہو جاتا تھا۔ میں بھی چوہدری صادق کا بہت بڑا مداح تھا۔میں بھی اسی گروپ کو گرفتار کرنے کی اپنے طور پر کوشش کر رہا تھا۔

صادق گجر (شہید)کو رحیم یار خان کے سیاستدان پسند نہیں کرتے تھے۔میاں امتیاز جو اس وقت MPAتھے کی چوہدری صادق سے نہیں بنتی تھی کیونکہ وہ ان کے غلط کام نہیں کرتے تھے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، میاں امتیاز MPAنے DIGملک اشرف کو چوہدری صادق کی شکایت کی جس پر DIG ملک اشرف نے انھیں معطل کردیااور ان کا تبادلہ بہاولپور ضلع کردیا۔ کیونکہ SPمشتاق سکھیرا اور SPآفتاب چیمہ چوہدری صادق پر اُن کے کام کی وجہ سے خصوصی مہربانی کرتے تھے لہذا ایک ماہ تک چوہدری صادق معطل ہونے کے باوجود بطور SHOتھانہ صدر رحیم یار خان کام کرتے رہے۔اسی دوران SSPمشتاق سکھیرا کا تبادلہ ہوگیا
اور ان کی جگہ نئے SSPاعظم جوئیہ تعینات ہوگئے۔

جوں ہی مشتاق سکھیرا نے اپنا چارج چھوڑا DIGملک اشرف نے فوری طور پر چوہدری صادق کو بہاولپور بھجوادیا۔تھانہ صدر کی تعیناتی کے دوران چوہدری صادق (شہید) شاہسوار اور ملک اسحاق کے گھر پر مسلسل ریڈ کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ شاہسوار کے گھر پر ریڈ ہوا پولیس اُس کے گھر داخل ہوئی جس کا شاہسوار کو شدید رنج تھا۔ملک اسحاق کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ لشکر جھنگوی کے کارکن رحیم یار خان میں کوئی واردات نہ کریں لیکن شاہسوار اور اس کے ساتھی اکثر رحیم یار خان میں بھی ہر قسم کی وارداتیں کیا کرتے تھے۔

ایک دن میرا مخبر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کے آپ چوہدری صادق کو بتادیں کچھ عرصہ قبل جب وہ SHO رحیم یار خان تھے تو شاہسوار وغیرہ مجھے ساتھ لے کر تھانہ صدر رحیم یارخان گئے۔ SHOکے کمرہ کی کھڑکی کھلی رہتی تھی پروگرام یہ تھا کہ چوہدری صادق کو کھڑکی سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا جائے لیکن میں نے انھیں یہ کہہ کر وقتی طور پر ٹال دیا یہاں مارنا بہتر نہیں ہے سب پکڑے جائیں گے۔ان کی جان کوخطرہ ہے یہ گروپ کسی وقت بھی ا ن کی جان لے سکتا ہے۔میں نے چوہدری صادق کو بذریعہ ٹیلی فون اس کے بارے میں بتایا تو ہنسنا شروع ہوگئے اور بولے کہ اب ان کتوں کی اتنی جرات کے وہ مجھے ماریں گئے؟۔میں نے انھیں محتاط رہنے کا کہا۔اسی دوران چوہدری صادق کی تعیناتی CIAبہاولپور ہوگئی تھی۔
تقریباً  ایک ہفتہ بعدمورخہ 25ستمبر1997ء میں حسب معمول تھانہ کے دفتر میں موجود تھا کہ وائرلیس آپریٹر اور محرر تھانہ تقریبا بھاگتے ہوئے میرے کمرہ میں داخل ہوگئے اور بتایا کہ چوہدری صادق اور ان کے ساتھ تین کانسٹیبلان کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے اس وقت قتل کردیا ہے جب وہ اپنے گھر واقع سمال انڈسٹریز بہاولپور سے نکل کر اپنے دفتر CIAجارہے تھے۔مجھے ایک دم سکتہ سا ہو گیا۔

گزشتہ شب بھی میں نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ دفتر سے اٹھ گئے تھے۔اس لیے رابطہ نہ ہوسکامیں نے فوری طورپر اپنے ایس پی اعظم جوئیہ کو ٹیلی فون کیا اور ان سے بہاولپور چوہدری صادق کے جنازے میں شرکت کی اجازت طلب کی۔انھوں نے مجھے اجازت دے دی ابھی میں تھانہ پر موجود ہی تھا کہ SSPکے آپریٹر کی دوبارہ کال آگئی کے صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ایس پی اعظم جوئیہ کو چارج لیے ابھی کُچھ دن ہی ہوئے تھے مجھ سے کہنے لگے کے میرے پاسDSPحافظ فضل الہٰی بیٹھے ہوئے ہیں آپکی تعریف کررہے ہیں آپکو پتہ ہے کہ یہ قتل کون کرسکتاہے؟ میں نے انھیں اپنے مخبر والی ساری بات سنائی اور شاہسوار وغیرہ پراپنے شُبہ کا اظہار کیا۔ SSPصاحب بولے کہ  میں DIGملک اشرف کو یہ ساری بات بتارہاہوں آپ ان سے مل لینا میں بہاولپور روانہ ہوگیا۔

بہاولپور پولیس لائنز میں لاشوں کورکھا گیا تھا۔بہاولپور پولیس کی تاریخ میں اتنا اندوناک حادثہ اس سے قبل نہ ہوا تھا۔وہاں جاکر جو حالات معلوم ہوئے اُس کے مطابق چوہدری صادق اپنے گھر سے گیارہ بجے دفتر کے لیے سرکاری ڈالہ میں روانہ ہوئے گاڑی کو ظفراقبال ڈرائیور چلا رہا تھا۔جبکہ نوید احمد اور محمد اکرم عرف لکوکانسٹیبلان سرکاری گاڑی کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔جب گاڑی مین روڈ پر آئی تو اچانک ایک ریڑھی گاڑی کے سامنے لگا دی گئی اور چار اشخاص جنھوں نے اپنے چہرے چھپائے ہوئے تھے نے کلاشنکوف سے سرکاری گاڑی پر فائرنگ شروع کردی فائرنگ سے چوہدری صادق، ڈرائیور ظفر اقبال، نوید اور اکرم لکو موقعہ پر ہی شہید ہوگئے۔ فائرنگ اتنی شدید تھی کہ باوجود کوشش کے چوہدری صادق اپنا پسٹل بھی نہ نکال سکے اور نہ ہی پیچھے بیٹھے پولیس ملازمین اپنا اسلحہ استعمال کر سکے دہشتگرد جاتے ہوئے ان کا سرکاری پسٹل بھی ساتھ لے گئے۔

پولیس لائن میں جنازہ کے بعد چوہدری صادق (شہید) کی لاش فیصل آباد ان کے آبائی علاقہ روانہ کردی گئی جبکہ دیگر ملازمین کی لاشیں بھی ان کے آبائی علاقوں کوبھجوادی گئیں۔میں پولیس لائن میں ہی موجود تھا کہ مجھے اطلاع دی گئی کہIGصاحب پنجاب اور DIGبہاولپور سرکٹ ہاؤس بہاولپور میں موجود ہیں اور آپکو بولا رہے ہیں۔میں فوری طور پر سرکٹ ہاؤس پہنچا جیسے ہی میرے پہنچنے کی اطلاع دی گئی تو DIGملک اشرف کمرہ سے نکل کر باہر برآمدہ میں آگئے میں نے انھیں ساری بات سے آگاہ کیا اور قوی شبہ ظاہر کیاکے یہ قتل شاہسوار اور جبار وغیرہ کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا لیکن DIGصاحب بضد تھے کہ یہ قتل شہباز عرف باجو بھنڈر نے کیا ہے میں نے انھیں کہا کے باجو بھنڈر کا بھائی چوہدری صادق کا بہترین دوست ہے۔باجوبھنڈر کبھی بھی چوہدری صادق کو قتل نہیں کرے گا۔DIGصاحب مجھے IG جہانزیب برکی کے پا س لے گئے میں نے انھیں بھی شاہسواراور جبار کے رحیم یار خان میں قتل کے منصوبے والی بات بتائی تو انھوں نے مجھے سے پوچھا کہ جبار یا شاہسوار کی کوئی تصویر آپکے پاس ہے میں نے IGصاحب کو بتایا کے چوہدری صادق (شہید) نے صدر رحیم یار خان کی تعیناتی میں شاہسوار اور جبار کا ہسٹری شیٹ بنایا تھاجو تھانہ صدر رحیم یار خان میں موجود ہے۔انھوں نے مجھے فوری طور پر ہسڑی شیٹ کی کاپی بذریعہ فیکس منگوانے کی ہدایت کی اسی دوران تفتیش میں جس آدمی سے ملزمان نے ریڑھی کرایہ پرلی تھی کو بھی گرفتار کر لیا تھا۔ جس نے دو ملزمان کے جو حلیے بتائے وہ جباراور شاہسوار کے حلیوں سے اس کے بیان کے بیان کے مطابق مماثلت رکھتے تھے رحیم یار خان سے وفیکس پر ہسٹری شیٹ کی کاپیاں منگوائی گئیں جوکہ  واضح نہ تھیں۔لہذا SHOصدر رحیم یارخان کو ہدایت کی گئی کے فوری طور پر ہسٹری شیٹ لے کر بہاولپور پہنچے۔ میں واپس رحیم یارخان روانہ ہوگیا لیکن پتہ نہیں کیوں DIGملک اشرف اور کچھ ملازمین اب بھی اس بات پر قائم تھے کے یہ قتل باجو بھنڈر نے کیا ہے۔ اگلے روز مجھے DIGملک اشرف کی کال آئی کے آپ درست کہتے تھے ریڑھی کے مالک نے جبار اور شاہسوار کی ہسٹری شیٹ پرلگی تصویریں شناخت کرلی ہیں۔ اب اگلہ مرحلہ ملزمان جبار ،ستار ،شاہسوار اور ابوبکر کو گرفتار کرنے کا تھا جوکہ بہاولپور پولیس نے کرنا تھا

صاد ق گجر شہید اور دیگر ملازمین کی شہادت سے بہاولپور رینج کی پولیس بہت غمزدہ تھی۔ لشکر جھنگوی کے کارکن اس قتل میں ملوث تھے حالانکہ لشکر جھنگوی جنوبی پنجاب کے صدر ملک اسحاق اس بات کوماننے کا تیار نہیں تھا کہ یہ قتل اس نے کروایا۔ ملک اسحاق اور شاہسوار کے درمیان بھی جنوبی پنجاب کی قیادت کو لے کر جھگڑا چل رہا تھا۔ شاہسوار یہ چاہتاتھا کہ لشکر جھنگوی جنوبی پنجاب کی قیادت اس کے سپردکی جائے۔جماعت لشکر جھنگوی پہلے صرف شیعہ مکتب فکر کو نشانہ بنایا کرتی تھی۔اب انھوں نے پولیس ملازمین کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا تھا اور اسی وجہ سے پنجاب میں لشکر جھنگوی ختم بھی ہوا۔

چوہدری صادق گجر کے قتل کے تیسرے روز مجھے SSPاعظم جوئیہ کی کال موصول ہوئی کہ  آپ کل صبح DIGبہاولپور رینج کے پاس رپورٹ کریں گے۔میں اگلے روز صبح ۹ بجے بہاولپور DIGآفس پہنچ گیا۔ وہاں میرے علاوہ بہاولپور رینج کے کچھ اور پولیس افسران بھی موجود تھے جن میں DSPغوری، میاں عرفان اللہ انسپکٹر، نوید اکرام (شہید)، صادق کھبو، راناریاض وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان کے علاوہ SSP بہاولنگر ڈاکٹر مجیب الرحمان، SSPبہاولپور اور SSPرحیم یار خان اعظم جوئیہ بھی پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر بعد میٹنگ شروع ہوگئی۔ میٹنگ کا ایجنڈا صادق گجر قتل کیس تھا۔DIGملک اشرف نے میٹنگ میں ہمیں بتایا کہ میں نے بہاولپور رینج کے سب سے اچھے پولیس افسران کو یہاں بلوایا ہے اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ ملزمان کو فوری گرفتار کریں گے۔ملک اشرف DIGنے سب سے سوال کیا کہ اگر چوہدری صادق گجر کا تبادلہ رحیم یارخان سے بہاولپور نہ ہوتا تو کیا وہ پھر بھی قتل ہوجاتا؟۔میں نے میں نے DIGملک اشرف اس کے جواب میں یہ کہا کہ اگر صادق گجر رحیم یارخان میں رہتا تو شاید وہ قتل نہ ہوتا کیونکہ رحیم یارخان میں ملزمان شاہسوار وغیرہ کو سب جانتے ہیں اس لیے وہ اتنی آسانی سے حملہ آور نہیں ہوسکتے تھے جس طرح مکئی کی ریڑھی لگا کر انھوں نے بہاولپور میں قتل کیا۔اس دن میٹنگ کے دوران ہماری خوب خاطرتواضع کی گئی۔پرُتکلف کھانا کھلایا گیا۔۔اس دن احساس ہوا کے جب ان PSPافسران نے ہم سے کام لینا ہو تو کس طرح ہماری خوشامد کرتے ہیں۔ملزمان کی گرفتاری کے لیے مختلف ٹیمیں بنا دی گئیں۔اب ہمیں شاہسوار جبار وغیرہ کو گرفتار کرنا تھا۔

میں واپس رحیم یارخان پہنچ گیا اور اپنے اس مخبر کو بلوالیا جس نے قبل اذیں مجھے صادق گجر مرحوم کو قتل کرنے کی سازش کے بارے میں بتایاتھا۔ مخبر نے مجھے بتایا کہ اسے معلوم ہوا ہے جبار سندھی چوہدری صادق کو قتل کرنے کے بعد پشاور کے کسی علاقہ میں چلا گیا ہے اور اس نے وہاں ایک حجام کی بہن سے شادی بھی کی ہوئی ہے اکثر وارداتو ں کے بعد وہ وہاں جاکر چھپ جاتاہے۔ علاقہ کے بارے میں گل خان پٹھان جوکہ لیاقت پور کارہنے والا ہے جانتا ہے شادی بھی اسی نے کروائی تھی۔میں نے مخبر کو گل خان کا پتہ کرنے کا کہا۔اُن دنوں رحیم یارخان میں موبائل سروس نئی نئی شروع ہوئی تھی اور میرے پاس موبائل فون ہوتاتھا۔دن میں کم از کم چار مرتبہ DIGملک اشرف میرے موبائل فون پہ بات کرتے تھے اور ہردفعہ صرف ایک ہی بات ہوتی تھی کہ کیا ہوا؟؟ “بچڑا “ملزمان کب پکڑے جائیں گے؟؟
ان تمام ملزمان کی گرفتاری اب محکمہ پولیس کی عزت اور غیرت کا مثلہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply