بابا کا ڈھابہ اور سوشل میڈیا ٹرائل۔۔محمد ہاشم

یہ کہانی ہے انڈیا کے  80 سالہ کاندھا پرساد کی ،جو اپنی بوڑھی بیوی کے ساتھ مل کر “بابا کا ڈھابہ” نام سے ایک ڈھابہ چلاتے تھے۔ اکتوبر 2020 میں ایک یوٹیوبر( گورو واسن) بابا کے ڈھابے پر ایک وڈیو بناتے ہیں اور کرونا کے باعث بابا کو پیش آنے والی مشکلات اور تنگیوں کو اپنی وڈیو سے دنیا کے سامنے لاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وڈیو وائرل ہو جاتی ہے۔ روینہ ٹنڈن اور رندیب ہودا جیسے بڑے بالی ووڈ سٹار تک بابے کی وڈیو شیئر کر کے لوگوں کو ان کی مدد کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
گورو واسن اپنی وڈیو کی مقبولیت کے بعد بابا کے لئے فنڈز اکٹھا کرنے کی مہم چلاتے ہیں اور چند دنوں میں ہی لوگ بابا کی اتنی مدد کرتے ہیں کہ بابا ایک ریسٹورنٹ کھولتے اور ساتھ کچھ ملازم بھی رکھتے ہیں۔

کچھ ہی دنوں بعد بابا کی طرف سے یوٹیوبر گورو پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے میرے لئے دیے  گئے فنڈز میں خرد برد کی ہے۔ اس الزام کے ساتھ بابا گورو پر پولیس ایف آئی آر کراتے ہیں اور لگے ہاتھوں ایک وکیل اور ایک دوسرے یوٹیوبر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس بھی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے بابا خود سے تو اتنا کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ اس سازش میں ساتھ موجود یوٹیوبر اور وکیل کا برابر کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس الزام کے بعد لوگ سوشل میڈیا پر ایک بار پھر طوفان کھڑا کرتے ہیں۔ گورو پر لعن طعن کیا جاتا ہے اور شدید دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ ان الزامات کا جواب دے۔ فیس بک، ٹویٹر انسٹاگرام ہر جگہ گورو کے خلاف ٹرینڈز بنتے ہیں۔ گورو شدید ڈیپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ بڑی کوششوں کے بعد وہ پولیس انویسٹی گیشن میں اپنی بینک سٹیٹمنٹ اور تفصیلات پیش کر کے ثابت کرتا ہے کہ وہ بے گناہ ہے اور فنڈز میں کوئی خرد برد نہیں کی۔

گورو کے بری ہونے کے بعد سوشل میڈیا ٹرولز کا طوفان ایک بار پھر بابا کی طرف ہو جاتا ہے اور بابا کے خلاف باقاعدہ ٹرینڈز چلتے ہیں کہ کیسے بابا نے سب حاصل کر کے مزید کے لالچ میں گورو پر الزامات لگائے اور بابا کو ولن کے طور پر پینٹ کیا جاتا ہے۔

اب کی بار کرونا کی لہر سے دوبارہ انڈیا میں لاک ڈاؤن لگ جاتا ہے اور بابا کا نیا ریسٹورینٹ بھی بند ہو جاتا ہے  ا ور بابا پھر سے اپنے پرانے ڈھابے پر آجاتے ہیں۔ اب چونکہ بابا ولن کے طور پر پینٹ ہوچکا تھا تو لوگ ان کو مزید نظر انداز کرنے لگتے ہیں۔ بابا جو کہ پہلے سے اتنے دباؤ کا شکار تھا، اور عوام کے رد عمل اور غم روزگار کی سختیوں کے بیک وقت وار کی تاب نہیں لاتے اور خودکشی کی کوشش کرتے ہیں اور آخری اطلاعات تک بابا ہسپتال میں موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔

سوشل میڈیا نے جہاں بہت سے مثبت کام کئے ہیں وہیں  ٹرولز کی ایک ایسی “آرمی” کو جنم دیا ہے جو کسی بھی ایشو پر بغیر کچھ جانے پوسٹ کرنا، رائے دینا، طنز و تنقید کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ انکا کام یہی ہے کہ کوئی بھی موضوع جو سوشل میڈیا پہ چل رہا ہے اس کو بغیر تحقیق کے مصالحہ لگا کر آگے پھیلانا، بے وجہ کی مورل پولیسنگ کرنا، ملزم کو مجرم بننے سے پہلے ہی سزائیں تجویز کرنا اور victim اور انتظامیہ پر اس قدر پریشر بنانا کہ وہ جلد بازی میں کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

2012 میں اپر کوہستان میں کچھ لڑکیوں کی ناچنے کی ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں ان کے ساتھ کچھ لڑکوں کو دکھایا گیا جو کہ دو الگ وڈیوز تھیں  اور یہ ظاہر کیا گیا کہ ایک مخلوط ناچ ہورہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ وڈیو وائرل ہوگئی اور نتیجے میں تین لڑکیوں کو انکے ہی عزیزوں نے قتل کر دیا۔ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر ایکٹویسٹ افضل کوہستانی اور انکے دو بھائیوں کو بھی بعد میں قتل کر دیا گیا۔
ایسا ہی ایک اور مشہور زمانہ کیس قندیل بلوچ کا بھی ہے جو اسی سوشل میڈیا ٹرائل کا شکار ہوئی۔ پہلے اس کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا گیا اور پھر انہی ٹرولز نے انکو اس قدر ذلالت کا نشانہ بنایا کہ آخر کار وہ بھی اپنوں کے ہاتھوں قتل ہوئی۔

حال ہی میں ہانیہ عامر اور عاصم اظہر کے حوالے سے ایک سٹوری گردش کرنے لگی اور گھنٹوں کے اندر لوگوں نے ٹاپ ٹرینڈ بنادیا جس میں ایک گروپ ہانیہ عامر کو ٹرول کر رہا تھا تو دوسرا گروپ عاصم اظہر کو گالیاں دے رہا تھا۔ کچھ فیس بک پیج ایسی کہانیوں کو اس طرح سے پھیلاتے ہیں کہ دو تصویریں لگائی اور کیپشن لگایا کہ”اگر آپ کو ان کی سٹوری کا نہیں معلوم تو آپ۔۔۔۔۔۔۔”۔ لوگ پھر اپنی بے وجہ کے  تجسس سے ہر سوشل سائٹ پہ انکو سرچ کرتے ہیں اور یوں کہانی لگی لپٹی کے ساتھ زبان زد عام ہو جاتی ہے۔

اس کے علاؤہ ایک اور رخ بھی اس سوشل میڈیا کی شہرت کا ہے جس کا شکار معصوم احمد شاہ ہورہا ہے۔ یہ ننھا سا پٹھان بچہ اپنی برجستہ اور پیاری باتوں سے مشہور ہوتا ہے اور آج وہ اپنے ہی عزیزوں کے ہاتھوں اس شہرت کو کیش کرانے کے چکروں میں اپنے بچپن کی آزادی کو کہیں کھو چکا ہے اور ٹی وی شوز میں نہ جانے کیسے کیسے ظالم میزبانوں کے پے در پے سوالات سے چڑ رہا ہوتا ہے۔ آج وہی ٹرولز اس بچے کو بھی ٹرول کر رہے کہ کیسے پیسے اور شہرت کے لئے کیا کیا کر رہا ہے یا کرایا جا رہا اس عمر میں۔ حالانکہ اس بچے کو علم بھی نہیں کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ایسی کئی کہانیاں اور کئی لوگ ہیں جو ان ٹرولز کی آگ میں جلے اور آج  ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں سے لڑ رہے ہیں۔

خدا را اپنی خود ساختہ فوجداری کو لگام دیں کیونکہ ایسا دن کسی پر بھی آسکتا ہے اور ٹرولنگ کا چسکا ایسا ہے کہ یہ کسی کو بھی نہیں بخشتا۔ ایک آندھی طوفان کی طرح آتا ہے، تباہی مچا کے چلا جاتا ہے۔ باقی ماندہ لوگ جو اس طوفان کی زد میں آتے ہیں وہ یا تو برباد ہو جاتے ہیں یا پھر دوبارہ نارمل ہونے تک اس کا  ذہنی، جسمانی اور مالی نقصان اس قدر ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ پر بوجھ بن کے رہ جاتے ہیں۔
مثبت تنقید ضرور کریں لیکن اتنا کہ جتنا ضروری ہے۔ کسی کی تکلیف پر چسکے لینے سے گریز کریں اور مورل پولیسنگ کو اپنا فریضہ ہرگز نہ سمجھیں۔ مثبت سوچیں تاکہ سوشل میڈیا کی اچھائیوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(بابا کا ڈھابہ سٹوری کریڈٹ۔ Dhruv Rathee وی لاگ۔)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply