مومنہ تو زندہ ہے/طیبہ ضیاء چیمہ

شیخ سعدی نےاٹل حقیقت ایک مصرعے میں بیان کر دی”‘بزرگی بہ عقل است، نہ بہ سال”۔ یہ پیری نہیں بلکہ جوانی ہے جہاں سے دانائی، سچائی اور حوصلے کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ 10جون 2011ءایک طوفانی رات 25سالہ مومنہ چیمہ کار کے حادثے میں اللہ کو پیاری ہو گئ۔ اس کے سامنے ایک روشن مستقبل تھا لیکن موت نے اسے اپنے والدین اوربھائیوں سےہمیشہ کے لیے چھین لیا۔

حادثے کے وقت مومنہ ورجینیا یونیورسٹی کے لاءسکول میں زیرِ تعلیم تھی۔ مومنہ چیمہ (10محرم)25 ستمبر 1985ءکو لاہور میں پیدا ہویئں۔ انتہائی منکسر المزاج اورفطرت سلیم پائی تھی۔ نئی نسل کے لئے رول ماڈل تھی۔ اسلامی اور مشرقی اقدار میں پلی بڑھی تھی۔ دنیا کی نامور درسگاہوں سے پڑھی تھی۔ انتہائی فرمانبردار با حیا پر وقار خوبصورت شخصیت کی مالکہ تھی۔

پہلی مسلمان اورپاکستانی سٹوڈنٹ ہے جس کی یاد میں امریکہ کی دو نامور یونیورسٹیوں میں سکالر شپ دئیے جاتے ہیں۔ رب کی مرضی۔ رب نے اپنی امانت واپس بلا لی مگر بدلے میں اس کو اپنی مخلوق کی خدمت کے لئے چن لیا۔ مومنہ کی یہ خواہش تھی کہ وہ پاکستان سے جہالت کا اندھیرا مٹاتے ہوئے دنیا کے سامنے اپنے ملک کا سافٹ امیج اجاگرکرے۔ زندگی اور موت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ کچھ لوگ زندہ رہ کر بھی کام نہیں کرسکتے اورکچھ لوگ مرنے کے بعد بھی دوسروں کے کام آتے رہتے ہیں۔

ہماری مختصر زندگی کے ایام خداکی مرضی کے ساتھ طے شدہ ہیں۔ ایک نہ ایک دن ہم نے یہاں سے چلے جانا ہے، اس کے بعد ہمیں ہمارے افعال واقوال کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا ؛ تاہم جب بھی کوئی جواں مرگ ہوتی ہے تو دل صدمے سے پارہ پارہ ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر ان نوجوانوں کی موت بہت ہی المناک ہوتی ہے جو باصلاحیت اور ہونہار ہوتے ہیں اور ان میں آگے بڑھنے کی خواہش اورکچھ کرنے کی لگن ہوتی ہے۔ مومنہ چیمہ ایسی ہی ایک نوجوان تھیں۔ وہ ایک لائق طالبہ اور بے مثال مقررہ تھیں، لیکن ان کا سب سے قابلِ قدر جذبہ ان کی حب الوطنی تھی۔

وہ پاکستان اور اس کے لوگوں سے بہت پیارکرتی تھیں اور ان کے لیے کچھ کرناچاہتی تھیں۔ وہ سماج کی بہتری کے لیے کوشاں لوگوں میں سے ایک تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام پسندی اور انسان دوستی ان کی فطرت کا حصہ تھی۔ زندگی کچھ کرنے کا نام ہے، ورنہ چھ سات عشرے اس دنیا میں کھاتے پیتے گزارنا کون سا مشکل ہے۔ جب پاکستانی افراد کی اکثریت پر نظر جاتی ہے تو ایک سوچ دل میں جاگزیں ہوتی ہے کہ ہماری زیادہ تر زندگی کسی مقصدکے بغیر ہی بسر ہوجاتی ہے۔ ہم شارٹ ٹرم مقاصد کی تکمیل میں گزار دیتے ہیں۔

مومنہ چیمہ فاؤنڈیشن ملک اور بیرون ملک خدمت خلق میں مصروف ہے۔ گلگت بلتستان کے ضلع سکردو سے ڈیڑھ گھنٹہ ڈرایؤ پر ضلع شگر ہے جو کہ بلتستان کا سب سے بڑا اور سب سے سر سبز دلفریب ضلع ہے۔ مومنہ چیمہ فاؤنڈیشن ضلع شگر کے نواحی دیہات میں موسم گرما کے دو سیزن میں پانی کے پانچ کنویں کھدوا چکی ہے، عرف عام میں انہیں” بورنگ ” کہتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں زمین سے پانی نکالنا مہنگا اور مشکل منصوبہ ہوتا ہے۔

دو سو فٹ تک کھدائی کے بعد کہیں صاف پانی نصیب ہونے کی امید ہو تی ہے۔ ایک بورنگ پر آجکل قریبا دس لاکھ روپے لاگت آتی ہے جبکہ پانی جمع کرنے اور استعمال کے لئے ٹینکی، بجلی کی موٹر، ہائپ، ٹونٹیوں وغیرہ پر پانچ لاکھ خرچہ اٹھ جاتا ہے۔ ایک بورنگ سے ہزاروں افراد مستفید ہوتے ہیں۔ شگر کے گاؤں چھورکا میں ایک میڈیکل کلینک قائم کر دیا ہے جس میں ڈیجیٹل مشین رکھی ہے جس پر دنیا بھر سے ڈاکٹروں کی ٹیم مریضوں کا طبی معائنہ کرتی ہے۔ اور ایک ڈاکٹر اور ڈسپنسر بھی ڈیوٹی پرموجود ہوتے ہیں۔ میڈیکل سٹور بھی ساتھ موجود ہے۔

معمولی فیس کے ساتھ علاج اور دوائی دستیاب ہے اور جو معمولی فیس بھی ادا کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے انہیں فری سہولت مہیا کی جاتی ہے۔ مومنہ چیمہ ایمبولینس بھی ہر وقت خدمت کے لئے تیار رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک پرائیویٹ سکول قائم ہے جس میں 70 بچے زیر تعلیم ہیں جبکہ مزید کمرے نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں بچے داخلے کے منتظر ہیں۔ ایک پاکستانی ڈونر بھائی نے گاؤں میں سکول کے لئے زمین خریدی ہے اور سکول کی تعمیر کا عزم رکھتے ہیں۔ اللہ ان کے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔

سکول کے بچوں میں جن کو طبی مسائل مثال کے طور پر آنکھوں کا چیک اپ، علاج، چشمہ لگوانا یا کوئی اور جسمانی عارضہ یا وہیل چئیر وغیرہ کی ضرورت ہو تو مومنہ چیمہ فاؤنڈیشن بچوں کی ہر تکلیف، معذوری اور ضرورت کا خیال رکھتی ہے۔ پہاڑوں کے مستحقین مسکین مکینوں کو ہوم بزنس یعنی انڈے دینے والی مرغیوں، دودھ والی بکریوں کی مالی معاونت مہیا کی جاتی ہے۔ مومنہ چیمہ فاؤنڈیشن دیہات کی طالبات کو کمپیوٹر ٹریننگ سینٹر شگر سے تربیتی اسناد دلانے کا پروگرام بھی مہیا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ مستحق طالبات کو مومنہ چیمہ سکالر شپ پروگرام کے تحت سکردو کالج ہوسٹل اور دیگر تعلیمی اخراجات مہیا کئیے جا رہے ہیں۔

گلگت بلتستان کے دور افتادہ پہاڑوں میں خدمت خلق کے علاوہ باقی صوبوں کی معروف سرکاری درسگاہوں سے بھی سینکڑوں مستحق طالبات وکیل ڈاکٹر اور دیگر شعبوں سے پروفیشنل ڈگریاں لے رہی ہیں اور متعدد زیر تعلیم ہیں۔ صاف پانی کی بورنگ کا آغاز وزیر آباد مومنہ چیمہ کے آبائی گاؤں داد والی شریف کے ہائی سکول سے کیا گیا تھا۔ سیلاب زدگان کے لئے گلگت بلتستان پنجاب بلوچستان وغیرہ کے دور دراز علاقوں میں امدادی پیکج پہنچائے گئے۔

سکالر شپ پروگرام کے تحت کوئٹہ بولان میڈیکل کالج کی ایک ہونہار طالبہ مومنہ چیمہ فاؤنڈیشن کے تعاون سے امریکہ میں ہارورڈ یونیورسٹی سے میڈیکل ریسرچ پروگرام کر رہی ہے۔ مومنہ چیمہ فاؤنڈیشن کے تحت واٹر، ایجوکیشن، ہیلتھ، مائکرو فنانس، قدرتی آفات میں امدادی پیکج، سکول جیسے منصوبے فقط فیملی اور فرینڈز کی مالی امداد اور مقامی ٹیموں کے تعاون سے چل رہے ہیں۔

شگر کے سکول اور کلینک کا سٹاف بھی مقامی ہے اور مناسب تنخواہ سے ان کے کچن چلتے ہیں۔ مومنہ چیمہ فاؤنڈیشن صدقات خیرات زکوات عطیات ملک کے دور افتادہ دیہی علاقوں کے مستحق گھرانوں تک روزگار کی صورت پہنچانے کے کار خیر کا مقصد سفید پوش افراد کا بھرم قائم رکھنا ہے۔ رب دینے والا ہاتھ پسند کرتا ہے لہٰذا اپنے مساکین محتاج افراد کو بھکاری بنانے کی بجائے چھوٹا موٹا مستقل روزگار مہیا کرنے کی کوشش کرو۔ دیہی علاقوں میں سفید پوش گھرانوں کو انڈے دینے والی مرغیاں، دودھ دینے والے جانور ہدیہ کئے جاتے ہیں، سلائی مشین یا سبزی پھل بیچنے کے لئے ٹھیلہ خرید دیا جائے، اس طرح کے متعدد کم خرچ کاروبار ہیں جن سے غریب اپنی محنت سے اپنے گھر کا چولہا جلائے رکھتا ہے۔

بھیک دے دینے یا دوچار بار روٹی کھلا دینے سے مفت کھانے کی عادت ڈالنے کی بجائے نبی پاک ﷺ کے فرمان کے مطابق مستحق افراد کے لئے مستقل روزگار کا بندوبست کیا جائے۔ اس وقت ملک کی صورت حال یہ ہے کہ ملک کا متو سط طبقہ سخت پریشانی کے عالم میں ہے کیونکہ اب پاکستان میں یہ بات مشہور ہے کہ غریب مانگ کر کھاتا ہے۔ امیر چھین کر کھارہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

درد دل رکھنے والے افراد اس ملک کے غریبوں کے لئے زندہ ہیں بلکہ ضرورتمندوں کی دعاوں کی وجہ سے زندہ ہیں۔ مومنہ بیٹی بظاہر یہ دنیا چھوڑ چکی ہیں مگر خدمت انسانیت سے اپنا نام زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply