مقدمہ گلگت بلتستان کا حل کیا ہے؟(1)۔۔اشفاق احمد ایڈوکیٹ

تاریخی پس منظر

گلگت بلتستان کی قدیم تاریخ پر دستیاب کتب کے مطالعہ سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ 1842سے قبل گلگت بلتستان میں بھی قدیم دور کے یونانی شہری ریاستوں ایتھنز اور سپارٹا کی طرح چھوٹی  چھوٹی آزاد خودمختار ریاستیں قائم تھیں،جنہوں نے صدیوں تک ہمسایہ طاقتور ملکوں کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات قائم رکھے۔

جرمنی کے ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا انسٹیٹوٹ میں شعبہ ثقافتی اور سماجی بشریات کے سربراہ کارل جیٹمار اپنی کتاب “بلور اینڈ دردستان” کے صفحہ نمبر 5 میں لکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی قدیم ریاست بلور (Bolor) دو حصوں پر مشتمل تھی ، مشرقی آدھا حصہ گریٹ بلور جبکہ مغربی آدھا حصہ Little Bolor کہلاتا تھا، گریٹ بلور آٹھویں صدی میں چین کے شاہی دربار میں اپنے سفارت کاروں کو بھیج دیا کرتے تھے۔ ریاست بلور کو بیرونی ممالک کی جارحیت کا خطرہ موجود رہتا تھا، صفحہ نمبر 18میں وہ لکھتے ہیں کہ ترکی کے مبلغین بلور بادشاہی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور انہوں نے بدھ مذہب قبول کیا، 6th or 7th century ADکے دوران پہاڑی چٹانوں پر گلگت بلتستان کے بدھ حکمرانوں کے نام کندہ کئے گئے ہیں، ضلع غذر تحصیل پونیال موضع ہاتون گورنمنٹ سکول کے قریب ایک پہاڑی چٹان پر ایک قدیم نام درج ہے جس کے بارے میں کارل جٹمر اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 19میں لکھتے ہیں کہ The second Patoladeva appears in an inscription discovered near the modern village Hatun not far from the outlet of the ishkoman River into the Gilgit Rive.
, Here we learn his Indian title.. Parambhattaraka Maharajadhiraja Paramesvara.
چھٹی صدی عیسوی اور ساتویں صدی عیسوی میں ریاست بلور کے حکمران گریٹ بلور کے دارالخلافہ سکردو میں رہائش پذیر تھے۔
جبکہ تبت والے Little Bolor Stateکو Bru-za کے نام سے جانتے تھے، جس سے ریاست بروشال کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔جس کے متعلق زکر تبت کی قدیم کتابوں میں کیا گیا ہے بروشال کو بروشسکی زبان بولنے والے لوگوں کا وطن قرار دیا گیا ہے۔
According to Hoffman this country is already mentioned in the 7th century when the king Man slon man brstan married a princess of Bru-za.
ساتویں صدی عیسوی سے نویں صدی عیسوی کے درمیان گلگت ویلی بروشال کے لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔
مارکو پولو بلور ریاست کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ جنگلی ملحدوں کا ملک ہے جو جانوروں کا کھال پہنتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے قدیم ریاستوں میں بلورستان Balurastan قابل ذکر ہے کیونکہ ایک ہزار سال تک بلور ریاست کا نام تاریخ میں موجود رہا ہے۔

بقول احسان محمود خان Medieval Era یعنی 5th to 15th centuryمیں اس خطے میں خودمختار ریاستیں موجود تھے, وہ اپنے ڈاکٹریٹ ڈگری کے مقالے بعنوان
The role of Geography In Human Security ,
A case study of Gilgit Baltistan کے صفحہ نمبر 83
میں لکھتے ہیں کہ ساتویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی عیسوی کے درمیان گلگت بلتستان کے اس خطے میں
سترہ خودمختار ریاستیں موجود تھے جن میں ریاست گلگت، ہنزہ نگر پونیال،یاسین ،اشکومن ، کوہ غذر،چلاس ،داریل تانگیر ،استور،سکردو،گھرمنگ،ٹولٹی، Tolti,شگر،روندو،keris,اور خپلو شامل تھیں ، جن پر ساتویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی تک مختلف مقامی حکمرانوں نے حکومت کی، لیکن وقتاً فوقتاً اس خطے کو بیرونی جارحیت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
گلگت کی جدید تاریخ کے بارے میں اکثر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کے لئے 1840 کے بعد لاہور کی سکھ Dynesty نے باقائدہ فوج کشی شروع کی .
جموں وکشمیر کی ریاست کو مہا راجا گلاب سنگھ نے معاہدہ امرتسر 1846 کے تحت تاج برطانیہ سے پچھتر لاکھ نانک شاھی میں خریدا۔
مثال کے طور پر اس معاہدے کے ارٹیکل 3 میں یہ لکھا گیا ہے

Article III. In consideration of the transfer made to him and his heirs by the provisions of the fore¬ going Articles, Maharajah Golab Sing will pay to the British Government the sum of seventy-five lakhs of Rupees (Nanukshah^e), fifty lakhs to be paid on ratification of this Treaty, and twenty-five lakhs on or before the first October of the current year, a.d. 1846.

لیکن اس معاہدے کے آرٹیکل 10کے تحت مہاراجہ گلاب سنگھ نے تاج برطانیہ کی بالادستی کو بھی تسلیم کیا اور برٹش حکومت کو سالانہ باقائدگی سے خراج دینے کا پابند ہوا ،جبکہ معاہدے کے آرٹیکل 9کے تحت بیرونی جارحیت کی صورت میں اپنی ریاست کی سرحدوں کے تحفظ کیلئے تاج برطانیہ سے مدد کا وعدہ بھی لیا۔

سکھوں نے اسی دوران گلگت بلتستان کے مقامی حکمرانوں کے اندورنی جھگڑوں اور دشمنیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ بقول احسان محمود خان راجا سکردو احمد شاہ کے بیٹے محمد شاہ نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کیا اور شری نگر کے ڈوگرہ حکمرانوں سے اپنے باپ کے خلاف مدد طلب کی اور گلگت پر حملہ کرنے کی دعوت دی، ڈوگرہ نے دعوت قبول کرلی اور ڈوگرہ فوج کی کمان کرتے ہوئے وزیر زورآور سنگھ نے حملہ کیا اور سکردو پر قبضہ کرلیا اور راجہ سکردو احمد شاہ کی جگہ محمد شاہ کو سکردو کا راجا بنا کر تخت پر بیٹھا دیا اور احمد شاہ ڈوگروں کی قید میں 1845میں مرگئے۔

جبکہ گلگت اور اس کے مضافات کا معاملہ کچھ اس طرح ہے۔
سال1842کی بات ہے جب گلگت پر نگر کے حکمران سکندر شاہ کی حکومت تھی اسی دوران یاسین کے حکمران گوہرِ امان نے گلگت پر حملہ کیا اور گلگت کے حکمران سکندر شاہ کو قتل کیا۔
سکندر شاہ کے بھائی کریم خان نے لاہور دربار میں پناہ لیا اور سکھوں سے مدد طلب کی۔
لاہور دربار نے گورنر آف کشمیر کو حکم دیا کہ اس کی مدد کرو۔ یاد رہے اسی دوران کشمیر کے گورنر کو لاہور کے دربار سے ہی تعینات کیا جاتا تھا۔
جنہوں نے ایک ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک طاقتور فوج گلگت پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کیا جس کی قیادت کمانڈر نتھو شاہ کر رہا تھا۔

کرنل نتھو شاہ نے ایک طاقتور فوج کے ساتھ گلگت پر حملہ کیا ڈاکٹر امر سنگھ چوہان کے مطابق نتھو شاہ بسین کے مقام پر گوہر امان کی فوج کیساتھ ٹکرایا مگر کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔
اسی سال دوسرا ڈوگرہ کمانڈر Marhra Dasگلگت میں داخل ہوا جس نے نتھو شاہ کی جگہ لے لی اور نتھو شاہ کو واپس بھیج دیا۔
لیکن گلگت بلتستان کے سب سے نامور حکمران راجہ گوہر امان نے ماترا داس کی فوج پر شروٹ اور گلا پور کے مقام پر حملہ کر کے بدترین شکست سےدوچار کیا ، ڈاکٹر امر سنگھ کا کہنا ہے کہ جنگ میں شکست کھا کر ڈوگرہ فوج کا کمانڈر ماترا داس سیدھا کشمیر بھاگ نکلا۔
راجہ گوہر امان کے پڑ پوتے ضیا الرحمن ایڈووکیٹ نےاس جنگ کے متعلق  ذکر  کرتے بتایا کہ ڈوگرہ افواج کو گوہرِ امان کے افواج نے ہرپون داس بسین ینزل گلگت کے قریب بدترین شکست دیا، راجہ گوہر امان اس جنگ کی خود کمان کر رہے تھے، اس معر کے کے بارے میں مقامی کھوار زبان کے گانوں میں ذکر کیا گیا ہے اور روایت کے مطابق اس جنگ میں ایک ہزار ڈوگروں فوجیوں کو ہلاک کیا گیا اور ان کے خون گھوڑوں کے ٹخنوں تک پہنچ گیا۔

لیکن نتھو شاہ نے شکست تسلیم نہیں کیا اور ہار نہ مانی اور دوبارہ گلگت پر حملہ کیا تو راجہ گوہر امان نے جنگ کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دی، نتیجتاً کرنل نتھو شاہ نے کریم خان کو تخت گلگت پر بیٹھا دیا مگر گوہر امان سے لاحق خطرے اور ممکنہ حملے کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے متفقہ طور پر گلگت پر Joint Administration کرنےپر راضی ہوئے۔
کچھ سکھ ٹروپس کو ایک تھانیدار کے ماتحت گلگت میں تعینات کردیا گیا.
اس طرح گلگت براہ راست پنجاب کے سکھ امپائر کے زیر اثر آگیا۔
1845میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی اور سکھ امپائر آف پنجاب کے درمیان انیگلو سکھ جنگ ہوئی۔
جنگ میں سکھوں کو شکست ہوئی اور ایسٹ انڈیا کمپنی اور شکست خوردہ سکھ امپائر کے درمیان 9مارچ1846کو معاہدہ لاہور طے پایا۔
جس کے نتیجہ میں سکھ اپنی سلطنت کے ایک وسیع حصے بشمول گلگت محروم ہو گئے۔
معاہدہ لاہور کے ایک ہفتے کے بعد برٹش انڈین حکومت نے گلاب سنگھ آف کشمیر سٹیٹ کے ساتھ 16مارچ 1848کے درمیان معاہدہ امرتسر طے کیا۔
اس معاہدے کی شقوں کے مطابق برٹش انڈیا نے کشمیر کے کچھ حصے جو انہوں نے پنجاب کے سکھ حکمرانوں سے حاصل کئے تھے انہیں کشمیر کے ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ کو پچہتر لاکھ نانک شاہی (سکھ کرنسی ) کے عوض میں فروخت کر دیا۔
تاج برطانیہ کی فروخت کیے گئے علاقوں میں گلگت بلتستان کے کچھ وہ علاقے بھی شامل تھے جنھیں پنجاب کے سکھوں نے 1842کے بعد سے قبضہ کرلیا تھا۔
یہ الگ بات ہے بعد میں پورے گلگت بلتستان کو ڈوگرہ افواج نے تاج برطانیہ کے ساتھ مل کر قبضہ کیا ریاست ہنزہ نگر کو تاج برطانیہ کے حکم پر بزریعہ جنگ قبضہ کر کے برٹش ہند کے زیر اثر لایا گیا.

اس پر پنڈت پریم ناتھ نے کہا ویلی اور گلگت کے دو ملین (بیس لاکھ) لوگوں کو بھیڑ بکریاں کی طرح بیجا گیا۔
بعض لکھاریوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنت کشمیر کو پچہتر لاکھ نانک شاہی میں بیچا گیا۔
اس پر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جو خود بھی کشمیری النسل تھے انہوں نے کہا۔
دہقان و کشت و جونے و خیابان فروختند
قومےفروختند و چہ ارزاں فروختند۔
اس طرح1846 میں کشمیر اور گلگت ڈوگروں کو فروخت ہونے کے بعد کرنل نتھو شاہ نے گلگت میں تعینات اپنے ایک سو سکھ سپاہیوں کے ساتھ ملکر سکھوں کی سرکار سے اپنی ملازمت تبدیل کروایا اور ڈوگروں کی حکومت میں شامل ہوگئے اور اس طرح گلگت اور استور میں تعینات سکھ فوج کی جگہ ڈوگرہ افواج اور جھنڈے نے لے لیا ۔

راجا گوہر امان نے گلگت بلتستان کی منقسم چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ملا کر ایک بڑی متحدہ ریاست بنانے کی کوشش کی اور بھوپ سنگھ پڑی میں ڈوگرہ فوج کو بھرپور شکشت دے کر گلگت بلتستان سے ڈوگرہ افواج کو نکال باہر کیا مگر بعد میں ڈگرہ فوج نے دوبارہ حملہ کیا لیکن گوہر آمان کی زندگی نے وفا نہیں کی اور بیماری کی وجہ سے گلوپور پونیال کے مقام پر وہ وفات پا گئے، ان کا مقبرہ آج بھی ڈسڑکٹ غذر وادی یاسین ناز بر نالہ کے پاس موجود ہے۔
راجہ گوہر امان کی وفات کی وجہ سے ان کا متحدہ ریاست گلگت بلتستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا، اگرچیہ اس کے سب سے چھوٹے بیٹے غلام محی الدین عرف پہلوان نے گلگت پر دوبارہ قبضہ کیا مگر چترال کے اس وقت کے راجہ نے شندور کے راستے حملے کر کے مستوج یاسین پر قبضہ کرلیا اور اس وجہ سے پہلوان ڈوگرہ اور چترال کے افواج کا ایک ساتھ مقابلے نہیں کرسکا اور پھر گلگت اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔

راجا گوہرامان کی وفات کے بعد گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار مضبوط لیڈرشپ کا خلا پیدا ہوا اور ڈوگروں نے دوبارہ حملے شروع کیے اور مختلف اوقات میں بعض مقامی حکمرانوں نے ایک دوسرے کے خلاف مہا راجا کشمیر کی افواج سے مدد لینے کی روایت قائم کیا اور بدلے میں مہاراجہ کی بالادستی کو تسلیم کیا ۔
اس طرح مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دور حکومت میں انگریزوں نے 1877میں ایک معاہدہ کے تحت گلگت ایجنسی کی بنیاد رکھی جوکہ 1888تک قایم رھی اور 1889میں برٹش انڈیا نے گلگت ایجنسی کو دوبارہ قایم کرکے ان علاقوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کا عمل شروع کیا اور بعض مقامی حکمرانوں کی فارن پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کرتے رھے اور بلاآخر1891میں برٹش افواج نے پرنسیلی سٹیٹ آف ہنزہ، و ریاست نگر کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑی اور بہت نقصان اٹھانے کے بعد تاج برطانیہ کے فوجی کمانڈر Arnold Durantنے نلت کے معراکے میں ریاست ہنزہ اور ریاست نگر پر کنٹرول حاصل کیا۔اسطرح 1893میں ریاست ھنزہ اور ریاست نگر مکمل طور پر تاج برطانیہ کی Protectorate بن گئے۔
گلگت بلتستان میں بیرونی جارحیت اور جنگ وجدل نے تین طرح کے حکمران پیدا کئے ۔ برٹش انگریز، مہاراجہ کشمیر ،اور گلگت بلتستان کے مقامی حکمران۔
گلگت بلتستان کی فارن پالیسی کو تاج برطانیہ کنڑول کرتی تھی جبکہ انگریزوں کے نیچے دوسرے درجے پر مہاراجہ کی حکومت قایم تھی جبکہ مقامی حکمران برٹش انڈیا اور مہاراجہ جموں وکشمیر کے ماتحت تھے، یوں مہاراجا کشمیر گلگت بلتستان کے مقامی حکمرانوں کے زریعے عوام پر حکومت کرتے تھے، جو عوام سے مالیہ لیتے تھے جبکہ مقامی حکمرانوں سے مہاراجہ خراج وصول کرتا تھا۔

اتحاد،ثلاثہ کی اس پالیسی کے تحت گلگت بلتستان میں تاج برطانیہ اور مہاراجہ کشمیر نے مقامی حکمرانوں کے ساتھ ملکر آسانی سے حکومت کی،لیکن جب 1917میں زار روس کی شہنشاہیت کا خاتمہ کرکے ولادیمیر لینن نے روس میں دنیا کا سب سے بڑا سوشلسٹ انقلاب برپا کیا تو اس کے اثرات یورپ سے لیکر ہندوستان تک پھیل گئے، جو کہ تاج برطانیہ کی سمندر پار سلطنت برٹش انڈیا کے لیے بھی خطرے کی علامت بن چکی تھی اس لیے برٹش انڈیا نے روسی کمیونسٹوں کی ممکنہ پیش قدمی کو روکنے کیلئے گلگت ایجنسی کو براہ راست اپنی کنٹرول میں رکھنے کی حکمت عملی طے کیا.
چونکہ گلگت ایجنسی کی سرحدیں سنٹرل ایشیا، یعنیUSSRاور چین کے ساتھ ملتی ہیں، چنانچہ روس اور چین سے نمٹنے کیلئے گلگت ایجنسی پر براہ راست حکومت کرنا ضروری تھا اس لیئے برٹش انڈیا نے مہا راجہ  ہری سنگھ سے 26مارچ 1935کو گلگت ایجنسی 60 سال کے لیے Lease پر لیا،اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔

لیس آف گلگت ایگرمنٹ1935 کے آرٹیکل 1 کے تحت گورنر جنرل آ ف انڈیا نے گلگت ایجنسی میں برٹش سول اور ملٹری ایڈمنسٹریشن قائم کرنے کا اختیار حاصل کیا۔لیکن ساتھ میں یہ بھی لکھا گیا کہ یہ علاقے بدستور مہاراجہ کے ریاست جموں وکشمیر کا حصہ رہے گا۔
اور سال بھر مہاراجہ جموں وکشمیر کی ریاست کا جھنڈا بھی لہراتا رہے گا۔
معاہدے کے آرٹیکل 5کے تحت یہ ایگرمنٹ 60سال تک نافذالعمل تھا
۔جبکہ آرٹیکل 4 کے تحت منرلز پر مائننگ کے تمام اختیارات مہا راجہ کشمیر کو ہی حاصل تھے۔ اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یکم نومبر 1947کی جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل کلگت بلتستان کی چھوٹی چھوٹی پرنسلی ریاستیں مہا راجا آف کشمیر کی ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تھے۔اور اس دلیل کی مزید تصدیق کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں آئینی اور انتظامی اصلاحات کے لیے گورنمنٹ آف پاکستان منسٹری آف فارن افیئرز کے زیر نگرانی قایم سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ مورخہ 10مارچ 2017کے پیراگراف نمبر 31کے آخری جملے میں لکھا گیا ہے کہ
Though UNCIP ,vide their Resolutions dated 13th August 1948 and 5th January 1949 ,had included the Northern Areas in the State of (J&,K ) for the purpose of over-all plebiscite .”

تاریخی و قانونی طور پر یہ بات سچ ہے کہ موجودہ گلگت بلتستان جو کہ 28ھزار مربع میل علاقے پر مشتمل ہے،1842سے قبل یہ علاقہ نہ تو کبھی مہاراجہ کشمیر کی ریاست کا حصہ رہا ہے نہ تو کبھی برصضیر کا حصہ رہا ہے۔البتہ 1842 کے بعد اس علاقے پر قبضہ کر کے ریاست جموں و کشمیر کا حصہّ بنایا گیا اور پھر ریاست جموں وکشمیر پر پہلی جنگ کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے گلگت بلتستان کو بھی ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیکر تنازع کشمیر میں شامل کیا ہے۔

اسی لیے یکم نومبر 1947کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کو انگریز میجر الیگزینڈر بروان نے بغاوت گلگت کا نام دیا، اور اس کے مرنے کے بعد اس کی کتاب Gilgit Rebellion کو اسکی بیوی نے شائع کروایا اور حکومت پاکستان نے اس کو ستارہ پاکستان سے بھی نوازا۔

اگرچہ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یکم نومبر 1947سے 16نومبر 1947تک گلگت بلتستان میں ایک مکمل آزاد حکومت قائم رہی، اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کے بعد ڈوگرہ حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوئی ،مگر اس علاقے کو مسئلہ کشمیر میں الجھایا گیا اور گلگت بلتستان کی آزادی کو اقوام متحدہ کے کسی بھی ممبر ملک نے آج تک تسلیم نہیں کیاہے۔

سولہ نومبر 1947 کے بعد پاکستان کے صوبہ سرحد کے ایک نایب تحصیلدار محمد عالم خان صاحب نے بحیثیت گلگت بلتستان کے نئے پولیٹیکل ایجنٹ انتظامی معاملات کنٹرول کیے۔اور اس دور سے لیکر 1974تک گلگت بلتستان کے لوگوں کو بنیادی انسانی جمہوری حقوق سے محروم رکھا گیا اور اس خطے پر ایف سی ار کا کالا قانون لاگو کیا گیا.

1974میں  ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان سے FCR اور راجگی کا خاتمہ کردیا۔اور گلگت بلتستان و آزاد کشمیر کو آئین پاکستان میں اسلیے شامل نہیں کرسکا کیونکہ اس کو بخوبی علم تھا کہ یہ ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے۔
پاک چین سرحدی معاہدے 1963 کے وقت ایوب خان کے دور حکومت میں ذوالفقارعلی بھٹو وزیر خارجہ تھے اور اس سرحدی معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کے علاقے اقصاے چن اور ششگام وادی Trans Karakoram Tract کو چین کے حوالے کیا گیا لیکن اس معاہدے کے آرٹیکل 6 میں لکھا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد گلگت بلتستان میں جو بھی حکومت ہوگی اس کے ساتھ اس معاہدے کو Renegotiate کیا جائے گا۔

اسی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے  ذوالفقارعلی بھٹو اپنے دور حکومت میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے حالات کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے خواہش مند تھے جسے کہ سرتاج عزیز کمیٹی میں لکھا گیا ہے کہ ان علاقوں کے مستقبل کے حوالے 13اکتوبر 1973 میں کابینہ کی ایک سپیشل میٹنگ میں  ذوالفقارعلی بھٹونے کہا کہ The conditions prevailing there should be so favourable that they act as an inducement to the people in Occupied Kashmir to join Pakistan.
لیکن افسوس ذوالفقارعلی بھٹو کی سوچ کے برعکس ان علاقوں کے حالات بہت بہتر کرنا تو دور کی بات لوگوں کو ان کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق ہی نہیں دیے گئے۔اور FCRجیسے کالے قوانین گلگت بلتستان کے لوگوں پر نافذ کیا گیا۔
بلاآخر 1994میں ایک LFOدیا گیا اور1999میں اس LFOمیں ترمیم کرکے کونسل کے سٹیٹس کو بڑھا کر ناردرن ایریاز لیجسلیٹیو کونسل کا نام دیا گیا۔۔جس سے KANAڈویزن کا ایک بیوروکریٹ کنڑول کرتا تھا۔
1994کے اس LFO میں 2007میں بھی کچھ ترامیم کی گئیں۔اور اس کے بعد 2009اور 2018 میں صدارتی ارڑرز جاری کیے گئے، نتیجتاً آج صورتحال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ انڈیا کے زیر کنٹرول جموں وکشمیر طرز کے حقوق دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

گلگت بلتستان کے لوگوں کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دایر کیس الجہاد ٹرسٹ بنام فیڈریشن آف پاکستان نامی کیس کا فیصلہ 1999میں ہوا اور سپریم کورٹ نے وفاق پاکستان کو ڈائرکشن دیا کہ وہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کو مہیا کریں اور ایک آزاد عدلیہ کا قیام بھی عمل میں لائے۔

اس کے ساتھ ھی گلگت بلتستان کے لوگوں کے حقوق کے لیے یوروپین پارلیمنٹ نے بھی ایک قرارداد منظور کی تو پھر کہیں جاکر 2009کا آرڈر آیا۔

اور اس کے بعد بدنام زمانہ 2018کا آرڈر دیا گیا۔

گلگت بلتستان کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے پر گزشتہ بیس سالوں سے عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا کہ اسی دوران سابقہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف صاحب کی دور حکومت میں CPECمنصوبہ زور وشور سے شروع ہوا اور گلگت بلتستان کی اہمیت قومی اور بین الاقوامی سطح پر اچانک بہت زیادہ بڑھ گئی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments