• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دنیا کی پراسرار ترین تہذیب “ہڑپہ” جس کا کوئی وارث نہیں/ندیم رزاق کھوہارا

دنیا کی پراسرار ترین تہذیب “ہڑپہ” جس کا کوئی وارث نہیں/ندیم رزاق کھوہارا

گزشتہ دنوں ایک دوست کے قریبی عزیز کے جنازے میں شرکت کے لیے ہڑپہ جانا ہوا۔ جنازہ رات کے نو بجے تھا۔ سردیوں کی راتیں سرِ شام ہی گہری ہو جایا کرتی ہیں۔ اس لیے جنازے کے مقام تک پہنچتے پہنچتے یوں محسوس ہوا جیسے آدھی رات بیت چکی ہے۔ یہ مقام بوائز ہائی اسکول تھا۔ جنازے سے فارغ ہوتے ہی اسکول سے باہر نکلا تو دوست کے ساتھ چلتے ہوئے میں نے یوں ہی پوچھ لیا کہ یہاں ہڑپہ کے قدیم آثار کہیں قریب ہیں یا دور۔ ؟  تو اس نے راستے کے دائیں ہاتھ کی جنوب کو جاتی دیوارکیجانب    اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہڑپہ کے آثار ہی ہیں۔ اس نے جب یہ بتایا کہ اس دیوار کے اندر ہڑپائی تہذیب کے کھنڈرات ہیں۔۔۔ تو میں جھرجھری لے کر رہ گیا۔

میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا جن آثار قدیمہ کے بارے میں میں اکثر سوچا کرتا ہوں۔ جن کی تاریخ جاننے کی جستجو ہمیشہ میرے من میں قائم رہی ہے وہ یوں میرے پیدل راستے کے بالکل ساتھ ساتھ ہیں۔ اندھیری رات کا سحر اور ہڑپائی تہذیب کے آثار کا اثر آپس میں مدغم ہو کر میرے دل و دماغ پر حاوی ہو رہے تھے۔ میں جیسے وقت کے دھارے کے ساتھ پیچھے کو بہکتا چلا جا رہا تھا۔ مجھے یہ خیال شدت سے ستانے لگا کہ میں اس تہذیب کا باسی ہوں، اس تہذیب کا امین ہوں جو دنیا کی قدیم ترین اور پُراسرار تہذیب کہلائی جاتی ہے۔ قدیم ترین ترقی یافتہ تہذیب، اور پُراسرار اس لیے کہ یہ دنیا کی واحد تہذیب ہے جس پر عالمی سطح کے محققین اور ماہرین آثار ِقدیمہ نے اپنی زندگیاں صَرف کر دیں لیکن ابھی تک یہ نہ جان پائے کہ۔ ۔

یہ تہذیب کیسے پنپی؟

یہ تہذیب اچانک صفحہ ہستی سے کیوں مٹ گئی؟

یہ دنیا کی واحد قدیم تہذیب ہے جس کی زبان کو آج تک دنیا کا کوئی بھی ماہر لسانیات “ڈی کوڈ” نہیں کر پایا۔

یہ واحد تہذیب ہے جس کے مذہبی عقائد اور رسوم و رواج کے بارے میں آج تک کوئی واضح معلومات سامنے نہیں آ سکی۔

کون لوگ تھے یہ؟ کہاں سے آئے تھے؟   انہوں نے پانچ ہزار سال پہلے آبپاشی اور نکاسی کے پختہ نظام بنانے کہاں سے سیکھے، کیسے ہزاروں سال تک پُرامن طور پر رہتے رہے،

اور پھر اچانک کہاں چلے گئے؟

کوئی نہیں جان پایا۔ ۔۔ 1929 میں ہڑپہ کے آثار کی دریافت سے لے کر موہن جوداڑو ، مہر گڑھ اور دیگر علاقوں کے آثار کی دریافت تک اور سو سال کی تحقیق کے باوجود یہ راز ہنوز راز ہی ہیں۔ اور یہ راز مل کر ہڑپائی تہذیب کی پُراسراریت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

ماہرین آثار قدیمہ نے اس سلسلے میں کئی نظریات پیش کیے ہیں۔ بے شمار کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں۔ تاہم ابھی تک اس حوالے  سے کوئی حتمی، واضح اور ٹھوس ثبوتوں پر مشتمل نظریہ سامنے نہیں آ سکا۔

میں اس تہذیب کا امین ہوں۔۔  میں ساہیوال کا باسی ہوں۔ کون جانے میرے آباء و اجداد کہاں سے آئے تھے، کون جانے مجھ میں یا میرے اردگرد بسنے والے دیگر افراد یا قوموں کے اندر کتنے لوگوں میں ہڑپائی تہذیب کو بسانے والوں کے ڈی این اے موجود ہوں۔ یہ تو کوئی نہیں جان سکتا۔ میں اس تہذیب کا وارث ہوں یا نہیں، لیکن امین ضرور ہوں۔ دل اس بات پر کڑھتا ہے کہ تمام تر پُراسراریت اور اہمیت کے باوجود ہڑپہ تہذیب کو ملکی اور عالمی سطح پر وہ مقام نہیں مل سکا جو ملنا چاہیے تھا۔ موہن جوداڑو کے کھنڈرات پھر بھی کسی طرح عالمی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ لیکن وہ وقت جب موئن جودڑو کے باسی اپنے تہذیبی عروج کی زندگی جیتے تھے تب بھی وہ ہڑپہ آنے کے خواب دیکھا کرتے تھے، ہری یوپیہ یا ہڑپہ ان کے خوابوں کی سرزمین تھا، جہاں کی ترقی کی چمک اس وقت کی پوری دنیا کو چکاچوند کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین آثار قدیمہ آج سے پانچ ہزار سال پہلے برصغیر کے طول و عرض میں قائم اس تہذیب کو ہڑپائی تہذیب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انڈس ویلی سولائزیشن یا وادی سندھ کی تہذیب اور مہر گڑھ کی تہذیب وغیرہ جیسے نام ضمنی ہیں۔ اس تہذیب کا اصل نام ہڑپائی تہذیب یعنی ہڑپن سولائزیشن ہی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود نہ جانے کیوں ہڑپہ یتیم ہے۔ کیونکہ اس کی بات کرنے والا کوئی نہیں۔

مانا کہ اس کے آثار کی اکثریت ریلوے ٹریک کی پٹڑی بچھاتے وقت برباد ہو گئی لیکن کون جانے کہ جو کھنڈرات کھودے گئے ہیں ان کے نیچے ابھی مزید کیسے کیسے اسرار اور تاریخ دفن ہے جسے صرف اس وجہ سے بند چھوڑ دیا گیا ہے کہ مبادا وقت کی گرد انہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لے یا شاید اس لیے کہ ہڑپہ یتیم ہے۔

رات کافی بیت چکی تھی، میں اپنے خیالات کا پٹارا باندھے گھر واپس لوٹ آیا تھا۔ میرے سوال جواب طلب تھے۔ لیکن پچھلے دنوں پتہ چلا کہ ساہیوال آرٹس کونسل کے زیر اہتمام ہڑپائی تہذیب کے حوالے سے مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ان تقاریب کے روح رواں ڈائیریکٹر ساہیوال آرٹس کونسل ریاض ہمدانی صاحب ہیں تو یوں لگا کہ اب ہڑپہ یتیم نہیں رہا۔ اب ہڑپہ کی بات کرنے والا اس کی پُراسراریت اور تاریخ و ادب و سیاحت میں اس کے مقام کو اجاگر کرنے والا اس کا سرپرست آ گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london
ریاض ہمدانی، ڈائیرکٹر ساہیوال آرٹس کونسل
تصویر(ریاض ہمدانی ، ڈائیرکٹر ساہیوال آرٹس کونسل)

ریاض ہمدانی صاحب سے حلقہ ارباب ذوق کے توسط سے دو تین دفعہ ملاقات ہوئی ہے ماشاءاللہ بہت ہی ملنسار، اردو ادب کے شیدائی اور ہمہ گیر شخصیت ہیں۔ ادبی ذوق بے مثال ہے۔ اپنے آپ میں ایک مکمل ادارہ ہیں۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ ان کی سرپرستی میں ہڑپہ تہذیب کو ملکی اور عالمی سطح پر وہ مقام ملے گا جس کی یہ حقدار ہے۔ سیاحت کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔ اہرام مصر جیسے مقامات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ہڑپہ تہذیب کے کھنڈرات میں بھی بڑی تاریخ دفن ہے۔ کیونکہ اسرار بلند و بالا اور قدیم عمارتوں میں ہی نہیں ہوا کرتے بلکہ زیر زمین بھی دفن ہوا کرتے ہیں۔ اور اس سے بڑا اسرار اور کیا ہو گا کہ اس تہذیب کی زبان ہمارے سامنے ہے لیکن آج تک اسے کوئی پڑھ نہیں سکا۔ یہی اسرار دنیا بھر کے سیاحوں کو یہاں کھینچ کر لا سکتا ہے۔ ضرورت ساہیوال آرٹس کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی تقریبات جیسی مزید تقریبات کے انعقاد کرنے اور ریاض ہمدانی جیسے سرپرست کے ہونے کی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے میں آگے آئے اور ہڑپہ تہذیب عالمی سطح کر اس کا اصل تاریخی مقام دلانے کے لیے تمام تر ممکنہ اقدامات اٹھائے۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply