سفر نامہ روس(2)-تین گیت ہیں/سید مہدی بخاری

پہلی قسط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

 

 

 

دوسری قسط

تین گیت ہیں 
یہ ماہِ جون تھا۔ چناب کے کنارے لُو چل رہی تھی۔ دُور بہت دُور، سائبیریا کی پہاڑی ڈھلوانوں پر پھُول کھِلنے کے دن تھے۔ میرا نام رول کال میں درج ہو چکا تھا۔ کونجوں کا بلاوا آ چکا تھا۔ سامان پیک ہونے لگا تھا۔ مسافر کا سامان بھی کیا ہوتا ہے ؟ یہی چند جوڑے کپڑے، ایک والکنگ سٹک اور کیمرا۔ میری زندگی میں تین ہی گیت ہیں جن کو میں آج تلک ہر حال ہر پسِ منظر میں گنگناتا آیا ہوں۔ ایک گیت ہے سفر کا، جس کی لے کبھی مدھم نہیں پڑتی۔ روس کا سفر درپیش ہوا تو وہ تمام بیتے لمحے اک اک کر کے دھیان میں آنے لگے جو دریائے عاشقاں کنارے مہمان پرندوں کے ساتھ بیتے تھے۔ دریائے چناب سے دریائے انگارہ تک کا کوچ نقارہ بج رہا تھا۔ پرانے لوگ کیا دھنی لوگ تھے۔ دریاوں کو یوں تقسیم کیا کرتے۔
راوی راسقاں
سندھ صادقاں
چناب عاشقاں
یہ جو چناب تھا یہ میرا عشق تھا۔ یہیں پر میری پہلی ملاقات پرندوں سے ہوئی تھی۔ اب مجھے دریائے انگارہ کا مہمان بننا تھا جو سائبیریا کے اندر بہتا ہے۔ دریا کی جون طغیانی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی تازہ پانی کی جھیل بائیکال سے نکل کر یہ دریا اپنے نام کے برعکس ٹھنڈا یخ ہے مگر اپنی روانی میں شوریدہ ، تُند و تیز ہے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ دریا میرا کیسے استقبال کرے گا۔ بس اک گیت کی لے تھی جو تیز ہوئی جاتی تھی۔ پہلا گیت، سفر کا گیت۔۔۔
دوسرا گیت مجھے میری ماں نے سنایا تھا۔ ابھی جسم لاشعور و شعور کے بیچ ہی کروٹ لے رہا تھا کہ ماں نے میرے سامنے کتابوں کا ڈھیر رکھ دیا تھا۔ عمر کیا تھی ؟ مڈل کا لڑکا جسے یہی حیرت کھائے جا رہی تھی کہ چہرے پر ہلکی مونچھیں کیوں نکل آتی ہیں۔ ابھی ذہن اپنی ذات کی حد سے باہر نہیں نکلا تھا۔ دنیا بچے کے لئے ایک بڑا سمندر تھی اور وہ ساحل پر کھڑا اندازے لگانے میں مگن تھا۔ میٹرک تک آتے آتے اماں کی لائی کئی کتابیں پڑھ ڈالی تھیں۔ اور کتابیں کیا تھیں ؟ یہی کچھ افسانے، کچھ شاعری، کچھ ناول۔۔ سچ پوچھیں تو اس عمر میں آدھی سے زیادہ کتابوں کی سمجھ بھی نہ آتی تھی۔
اماں مرحومہ سرکاری سکول میں سائنس ٹیچر تھیں۔ وہ سکول لائبریری سے افسانے، ناولز، تنقیدی ادب، فلسفہ و شاعری کی کُتب گھر لایا کرتیں اور مجھے تھماتے ہوئے کہتیں ” شام ڈھلے کرکٹ کھیل کر گھر آنے سے بہتر ہے یہ کتابیں پڑھا کر” ۔ اب مجھے سمجھ آتی ہے کہ وہ بس اپنے اکلوتے بیٹے کو انسان بنانا چاہتی تھیں۔میں پڑھتا رہا مگر جون ایلیا کے بقول
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدہ عشرت انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
پہلا لفظ لکھنا ماں نے سکھایا، پہلی غیر نصابی کتاب ماں نے ہاتھ میں تھمائی۔ اماں مجھے کورس کی کتابوں کے علاوہ کوئی رسالہ یا کتاب پڑھتا دیکھتیں تو ان کے چہرہ گلاب کی مانند خوشی سے سرخ ہو جاتا۔ یہ میری خوش قسمتی کہیئے کہ میری تربیت ایک استاد اماں نے کی۔ وہ لفظوں کا خزانہ، وہ جملے تراشنے کا فن شاید قبل از میٹرک ہی میرے لاشعور کا حصہ بن چکا تھا۔ یہ جو زندگی کا دوسرا گیت ہے ترتیب کے لحاظ سے لکھوں تو یہ پہلا گیت تھا۔ اس کو گنگناتے کچھ ہوش سنبھالا تو کئی ادیب دُھن بن کر سامنے آئے۔ میں ان کو گنگنانے لگا۔ ان میں اک حمزہ رسول توف تھا۔
دُور، بہت دُور ، روس کی زمینوں میں سے اک زمین داغستان ہے۔ کوہ قاف کے پہاڑوں میں گھرے اس خطے کے ایک وسیع پہاڑی میدان میں سدا نامی گاوں واقع ہے۔ اس گاوں میں چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنا اک ہے جو اپنے آس پڑوس میں بنے گھروں سے کسی طور مختلف نہیں۔ وہی ہموار چھت، چھت پر اک روشن دان جس سے کرنیں چھن چھن کے اندر داخل ہوتی ہیں، ویسا ہی پھاٹک اور چھوٹا سا صحن لیکن اس چھوٹے سے داغستانی گھر سے، اس چھوٹے سے سنگین پہاڑی آشیانے سے پرواز کر کے اک شاعر، ادیب، دانشور نکلا اور دنیا کے ادبی آسمان پر پر پھیلائے تیرنے لگا۔ یہ حمزہ رسول توف تھا۔ حمزہ کی کتاب “میرا داغستان” اس سے تعارف کا پہلا حوالہ بنی تھی۔
یہ جو گیت ماں نے سنایا تھا اس کی لَے کبھی مدھم تو کبھی تیز رہا کرتی تھی۔ کبھی یوں ہوتا کہ زندگی کا پہیہ کاوشِ روزگار میں تیز گام ریل کی مانند دوڑنے لگتا تو کتابیں کہیں پیچھے رہ جاتیں، زندگی کے ہنگام آگے نکل جاتے۔ اور کبھی فرصت کی گھڑیاں نصیب ہوتیں تو زندگی جیسے پلیٹ فارم پر آن لگتی، کتابیں جھولی میں آن پڑتیں۔ روس سے ادبی حوالے سے پہلا تعارف حمزہ رسول تھا۔ لیو ٹالسٹائی، میکسم گورکی، چیخوف، پوشکن، ولادیمیر ویسوٹسکی، میخائل شولوخوف اور فیودر دوستوئیفسکی سے آشنائی بہت بعد میں ہوئی۔
جس دن روس کا ویزا لگا، دوسرے گیت کی لَے پہلے گیت کے برابر ہونے لگی۔ کانوں میں اک شور سا سنائی دینے لگا۔ دھڑکنیں ڈرم بیٹ کی مانند بجنے لگیں۔ میں اک ایسی سرزمین پر جا رہا تھا جس کے قدرتی حسن نے دنیا کو جھیل بائیکال و سائبیریا عطا کیئے تھے۔ وہیں ادب کا اک ذخیرہ بھی موجود تھا۔ وہی کتابیں جو مجھے اماں کی شکل میں دکھتی تھیں۔
آپ کو اس سے بڑھ کر خوشی کیا مل سکتی ہے کہ جو آپ چاہتے ہوں وہ آپ کو عطا ہو جائے ؟ سائبیریا تھا، بائیکال تھی، حمزہ رسول کا دیس تھا۔ انہی کے بیچ اماں مرحومہ بھی تھی۔
“تو نے ہوم ورک ختم کر لیا ہے ؟ خبردار جو کرکٹ بیٹ کو ہاتھ لگایا۔ پتا نہیں یہ کونسا کھیل ہے جس میں انسان مر سکتا ہے”۔ اماں کی یہی آواز ہر شام 5 بجے آیا کرتی۔ اک بار کرکٹ کھیلتے، بیٹنگ کرتے ، کرکٹ بال میرے نازک مقام پر آن لگی تھی۔ وہ رات ہسپتال میں درد کے مارے کرلاتے بیتی۔ اماں کے ذہن سے وہ بات نہیں نکل سکی تھی۔
“ہاں امی کر لیا ہے۔ کرکٹ نہیں کھیلنے جا رہا، فٹ بال کھیلتے ہیں ہم”۔ میں روز اماں کو ڈاچ کروا کے نکل جاتا اور کرکٹ کھیلتا۔ مغرب کے وقت واپسی ہوتی۔
“تو نے کتابیں پڑھ لی ہیں ساری تو مجھے واپس لا دے۔ صبح لائبریری میں جمع کروا کے کوئی اور لا دیتی ہوں۔ اچھا یہ بتاو کونسی کتاب اچھی لگی؟ “۔ اماں شاید میرا امتحان لینے کو کتابوں کے نام پوچھتیں۔ میں بھی فوری بتا کر امتحان پاس کر لیتا اور یوں اگلے روز چند نئی کتابیں سکول سے گھر آ جاتیں۔ شاید اس وقت میں ایف ایس سی کے امتحانات دے کر فارغ ہوا تھا۔ اک دن گھر میں کتاب ٹیبل پر دھری نظر آئی۔ انگریزی میں لکھا تھا “مائی داغستان”۔ یہ کتاب داغستان کی مقامی زبان “اوارک” میں لکھی گئی تھی۔جولیس کیزر اس کا انگریزی زبان کا مترجم تھا۔
اماں کا انتقال ہوئے اک دہائی بیت چکی۔ میرے ہاتھ سفر کا پروانہ تھا۔ اک تیسرا گیت ہے جس کی دھن مدھم سی رہا کرتی ہے مگر مسلسل بجتی ہے۔ اس کا ذکر آئندہ ہو گا۔ لاہور میں جون کا ماہ گرمی برسا رہا تھا۔ تب مجھے کیا معلوم تھا کہ مقدر کے مالک نے میرے ہاتھ کی لکیروں میں اک لکیر کاٹ دی ہے۔ داغستان ہنوز دور است۔ ایک روسی کہاوت ہے
“آنکھ کھلتے ہی بستر سے اس طرح اٹھ کر نہ بھاگو جیسے تمہیں کسی بچھو نے ڈنگ مار دیا ہو۔ سب سے پہلے اس خواب کے بارے میں سوچو جو تم نے ابھی دیکھا ہے”
میں خواب دیکھ رہا تھا اور اسی کے بارے سوچ رہا تھا۔ قطر ائیرویز کی ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھی۔ سامان پیک ہو چکا تھا۔ جہاز رن وے پر تیار کھڑا تھا۔ جہاز اڑنے سے پہلے بڑا شور مچاتا ہے۔ پہلے طویل ٹیکسی کرتا رن وے تک پہنچتا ہے۔ انجن فل تھراٹل پر سٹارٹ کرتا ہے۔ گرجتا، دھاڑتا، دوڑتا ہے۔ یہ سب کچھ کر چکنے کے بعد ہی پرواز کے لئے روانہ ہوتا ہے۔ یہ صرف خواب ہیں یا خوابوں کا مسافر ہے جو پہاڑی عقاب کی مانند اپنی چٹان سے اڑ کر سیدھا آسمان کی وسعتوں میں پہنچ جاتا ہے اور بڑے شاہانہ انداز میں منڈلاتا اوپر ہی اوپر اٹھتا جاتا ہے یہاں تک کہ نگاہیں اس کا پیچھا نہیں کر پاتیں۔ اک ایسا ہی سفر آغاز ہونے کو تھا۔ اک سفر تو وہ تھا جو خیالوں و خوابوں میں منصوبے ترتیب دے رہا تھا اور اک سفر وہ تھا جس نے مجھے پیش آنا تھا۔ نشانے نے خود اڑ کر تیر پر لگنا تھا، آشکار کرنا تھا۔ اس تلخ حقیقت کا ذرا سا شائبہ بھی خواب و خیال میں نہیں تھا۔
ابھی تو چناب تھا، کونجیں تھیں، دریائے انگارہ تھا، جھیل بائیکال تھی، حمزہ رسول تھا اور پس منظر میں اماں کا گلاب چہرہ تھا۔ رسول حمزہ کی حسب حال و حسب مضمون اردو میں مترجم شدہ اک نظم ہے۔
تین گیت ہیں
جو اتر جاتے ہیں انسانوں کے دلوں میں
تین گیت ہیں
جن میں بھری ہوتی ہیں
انسان کی خوشیاں اور ملال
اور اک گیت ہے جو بھاری ہے سارے گیتوں پر
اسے گاتی ہے ایک ماں
اپنے بچے کے جھولے کے پاس بیٹھ کر
دوسرا گیت بھی
ایک ماں ہی گاتی ہے
ٹھنڈے برف رخساروں پر
اپنی کانپتی انگلیاں پھیرتے ہوئے
اپنے بچے کی لاش پر
ماتمی دھن میں
اور تیسرا گیت وہ ہے
جسے گاتے پھرتے ہیں
اس دنیا کے سارے گلوکار !!!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply