کاروبار میں نقصان کیسے ہوا؟/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے

 

 

 

 

کاروبار میں ناکامی کی وجوہات میں اہم ترین وجہ آمدنی و اخراجات میں تفاوت کا ہونا تھی۔ اخراجات تو بہر طور کرنے ہوتے تھے مگر ایک تو جو مال موجود تھا وہ یا تو بکتا نہیں تھا یا پرچون میں بکتا تھا دوسرے دوسری جانب سے یعنی ندیم کی جانب سے ایک فاش غلطی ہو گئی تھی۔ کیونکہ کاروبار جیکارڈ کپڑے کا تھا، اس نے سفید اور سیاہ جیکارڈ کپڑے کا ایک کنٹینر بھیجا تھا۔ میں نے اسے تقسیم کرکے دور کے شہروں کی دو پارٹیوں کو بھجوا دیا تھا۔ دونوں طرف سے شکایت موصول ہوئی تھی کہ کپڑے میں نقص ہے۔ میں نے کہا تھا، کوئی بات نہیں، میرے اخراجات پر تمام کپڑا ماسکو واپس بھجوا دو۔ ایک کنٹینر کپڑا تقریباً  ایک لاکھ ڈالر کے مساوی رقم کا بنتا تھا۔ میں نے ندیم  سے بات کی کہ ڈیمانڈ تو موجود ہے لیکن کپڑے کا ایک ایک میٹر جانچ پڑتال کے بعد بھجوایا جائے۔ دو ماہ کے بعد ندیم نے اس یقین دہانی کے ساتھ کہ تمام کپڑے کی پوری طرح سے پڑتال کی گئی ہے، اکٹھے دو کنٹینر بھجوا دیے تھے۔ چونکہ پارٹیوں سے پہلے ہی طے تھا کہ نیا پڑتال شدہ کپڑا ملنے کے بعد کسٹم سے فراغت کے بعد فوراً  انہیں بھجوا دیا جائے گا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا تھا۔ تین روز بعد پارٹیوں کی جانب سے دہائی دی گئی کہ یہ کپڑا بھی ناقص ہے۔ جب میں نے ندیم سے بات کی تو وہ بضد تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔

اس نے مجھے تجویز دی تھی کہ تم کپڑے کے تھانوں میں سے کہیں کہیں سے دو دو میٹر کے ٹکڑے کاٹ کر کراچی بھجوا دو تاکہ چیک کرنے والوں اور سپلائی کرنے والوں سے پوچھ گچھ کی جا سکے۔ میں نے ایسا ہی کیا تھا۔ دو ہفتے تک ندیم کی جانب سے کوئی خیر خبر نہیں ملی تھی۔ جب میں نے خود ہی اس سے رابطہ کیا تھا تو اس نے بتایا تھا کہ دونوں فریق نہیں مان رہے کہ سارا کپڑا ناقص ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی کہا کہ یار کچھ کرو، ظاہر ہے کپڑا واپس منگوانا مشکل ہے۔ ہوا یہ تھا کہ ندیم نے اپنے دوست ایک شریف النفس میمن صنعتکار سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے ملبوسات سازی کے کارخانے سے کپڑے کی پڑتال کرنے والے کچھ ماہرین فراہم کرے جو اس نے کر دیے تھے۔ کپڑا چیک کرنے کے دوران غالباً  کپڑا سپلائی کرنے والے چنیوٹی بروکر نے ان اہل کاروں کو ندیم کی جانب سے دیے گئے معاوضے کے برابر یا زیادہ اجرت دے دی ہوگی اور انہوں نے پڑتال کیے بغیر کپڑے کے معیاری ہونے کی تصدیق کر دی تھی۔ مجھے اپنے خرچ پر ایک تہائی کپڑا واپس لینا پڑا تھا اور دو تہائی کو ایک تہائی قیمت پر بیچنا پڑا تھا۔ بہت بڑا نقصان تھا لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ کاروبار گھٹنوں کے بل زمین پر آ رہتا اگر کراچی سے مال کی فراہمی جاری رہتی مگر ایسا نہیں ہو سکا تھا۔ اس کی بھی ایک وجہ تھی۔

کوئی دو سال پیشتر جب میں کراچی گیا تھا تو ندیم کا ڈرائیور مجھے ہوائی اڈے سے لے کر سیدھا ندیم کے دفتر پہنچا تھا۔ ندیم کے ساتھ اس کا ایک دوست جو کراچی کسٹمز کا ایک اعلیٰ  افسر تھا محوِ  گفتگو تھا۔ ندیم نے ضرب تقسیم کا ایک سوال میرے ذمے لگا دیا تھا کہ جواب نکال لو گے تو باقی بات بھی تمہیں بتا دیتے ہیں۔ جب میں نے لاکھوں کے ہندسے میں جواب پیش کیا تو کسٹم افسر شاہ صاحب گویا ہوئے،” ندیم صاحب اتنا جیکارڈ تو پورے سال میں پورے پاکستان میں بھی نہیں بنتا ہوگا”۔

میں نے جب استعجاب سے ان دونوں کی جانب دیکھا تو ندیم نے بتایا کہ ایک پارٹی نے گوادر کی بندرگاہ سے ایک مہینے میں جتنا تم نے حساب لگایا ہے اتنے میٹر کپڑا ایکسپورٹ کیا ہے۔ یاد رہے اس زمانے میں گوادر نام کی بندرگاہ سے صرف لانچیں چلتی تھیں۔ لانچ میں مال چڑھانے کے لیے حمالوں (بوجھ اٹھانے والے مزدوروں) کو مال کندھوں پر اٹھا کر گھٹنوں گھٹنوں پانی میں چلتے ہوئے جا کر لانچ میں چڑھانا ہوتا تھا جبکہ جیکارڈ کی ایک بیل (تھانوں کی گانٹھ) کا وزن ستر اسی کلوگرام ہوتا ہے۔ یعنی یہ ساری ایکسپورٹ فراڈ تھی جس کی مد میں کروڑوں روپے ریبیٹ لیا جانا مقصود تھا۔ اس کام میں ندیم کے ایک شناسا نوجوان کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور کراچی کے کسٹمز کلیکٹر بھی ملوث تھے۔ ندیم اس معاملے میں حد سے زیادہ دلچسپی لے رہا تھا۔ اتنے میں وہ نوجوان بھی اتفاق سے پہنچ گیا تھا جو مبینہ طور پر اس جرم میں ملوث تھا۔ وہ مان ہی نہیں رہا تھا۔ ندیم نے اس سے کہا تھا کہ تم شاہ صاحب یعنی وہاں موجود کسٹم افسر کو ایک نئی کار لے دو تو معاملہ دب جائے گا ورنہ بہت دھول اٹھے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بات طے نہیں ہو سکی تھی۔ شام کو میں نے ندیم کو سمجھایا تھا کہ اس معاملے میں نہ پڑے کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں، مگر اس نے میری نصیحت کو ہنس کر ٹال دیا تھا۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ دو سال بعد اس جرم میں ملوث فریقین نے پولیس کے ساتھ مل کر ندیم کو ناک چنے چبوا دیے تھے۔ ان مجرموں کا تو جو نقصان ہونا تھا ہوا یعنی انکوائری کمیٹی بیٹھ گئی تھی مگر وہ ندیم کو زمین پر لے آئے تھے۔ ندیم باہمت شخص تھا، اس نے رفتہ رفتہ اپنے کراچی کے کاروبار کو تو سنبھالا دے لیا تھا لیکن ماسکو کے کاروبار سے وہ عہدہ برآء نہیں ہو سکتا تھا اس لیے ہاتھ یکسر کھینچ لیا تھا۔ میں ندیم کو مسلسل رقوم بھیجتا رہا تھا۔ اس کا نقصان تو ہوا تھا لیکن اتنا نہیں۔ کچھ نقصان بے ایمان چنیوٹی بروکر کا ہوا تھا لیکن سب سے بڑا نقصان مجھ کو پہنچا تھا جو چار سال سے کام کر رہا تھا اور سمجھوتے کے مطابق حساب ہونے پر مجھے اس کا حصہ ملنا تھا۔ ندیم نے مجھ سے کہا تھا دینے والوں سے جو تم وصول کر لو وہ تمہارا۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں نے ایک پارٹی کو الماآتا میں ادھار پر مال دیا ہوا تھا۔ ایک بیلاروس والا ساشا تھا جو گم ہو گیا تھا۔ ایک سپارتاک والا سرگئی تھا جو ٹرک لے کر آ گیا تھا اور بچے کھچے ملبوسات جن کی مالیت کوئی پچیس ہزار ڈالر بنتی تھی، لے کر چلا گیا تھا۔ میں نے اسے مال اس لیے ادھار پر دے دیا تھا کہ ویسے بھی مال پڑا ہوا ہے، کچھ تو رقم ملے۔ مافیا ہر ماہ وصولی کے لیے آ دھمکتی تھی۔ دفتر کا کرایہ بڑھ چکا تھا اور بڑھتا رہتا تھا۔ عملہ موجود تھا، تنخواہیں بھی دینی پڑتی تھیں۔ چنانچہ میں نے سوچا کہ عملہ کم کر دیا جائے۔ احسن اپنی والدہ کی ناگہانی موت کی وجہ سے پاکستان واپس جا چکا تھا۔ سہیل بھی چلا گیا تھا۔ میں نے دونوں روسی منیجروں کو فارغ کر دیا اور اکاؤنٹنٹ کو پارٹ ٹائم ۔ ظفر اور منیجر مقرب تاجک کو سارا کام سونپ دیا اور خود وصولی کرنے کی خاطر ٹرین میں سوار ہو کر تین دنوں اور چار راتوں کا سفر کرکے الماآتا کزاخستان پہنچ گیا تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply