• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عام انتخابات -ہو یوں گر یوں نہ ہوجائے/حیدر جاوید سیّد

عام انتخابات -ہو یوں گر یوں نہ ہوجائے/حیدر جاوید سیّد

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک میں عام انتخابات کروانے کے لئے تیار ہیں، اسمبلیاں 12 اگست کو تحلیل ہوئیں تو 12اکتوبر کو پولنگ ہوگی۔ اگر پہلے تحلیل کی گئیں تو 90 روز میں الیکشن کروادیں گے۔ الیکشن کمیشن کے حکام نے عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی سخت مانیٹرنگ کا عندیہ بھی دیا ہے۔ یہ بھی بتایا کہ آر اوز کے لئے ہائیکورٹس کو لکھے گئے خطوط کا جواب ابھی تک نہیں آیا۔
ادھر ای سی سی کے گزشتہ روز منعقد ہونے والے اجلاس میں آئندہ عام انتخابات کے لئے ساڑھے 42ارب روپے کی منظوری دیدی ہے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمانی کمیٹی نے تجاویز کو حتمی شکل دے دی ہے امید ہے کہ ایک آدھ دن میں پارلیمان سے منظوری لے لی جائے گی۔
بادی النظر میں یہی لگ رہا ہے کہ قومی اور دو صوبائی اسمبلیاں 12اگست سے چند دن قبل تحلیل کردی جائیں گی۔ اس طور عام انتخابات 90روز کی مدت میں کرانا لازمی ہوں گے۔ بعض حلقے چند دن قبل اسمبلیاں تحلیل کرنے کے عمل کو سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی ستمبر میں وطن واپسی کے امکان سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں
جبکہ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم و اتحادی انتخابی مہم کے لئے مناسب وقت کے ساتھ ساتھ اس امر کے خواہش مند بھی ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف مقدمات اس عرصہ میں منطقی انجام تک پہنچ جائیں۔
دوسری جانب انتخابی عمل کے پرانی مردم شماری اور حلقہ بندیوں یا نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں پر کرانے کا معاملہ ابھی تک الجھا ہوا ہے۔ (ن) لیگ کے چند وفاقی وزراء نے گزشتہ دنوں پرانی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر آئندہ انتخابات کرانے کی بات کی تھی مگر وزیراعظم شہباز شریف کاکہنا تھا کہ ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا۔
31 مئی کو اگر حالیہ مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری ہوجاتا تو اس صورت میں چار ساڑھے چار ماہ کے عرصہ میں نئی حلقہ بندیوں کاکام مکمل ہوسکتا تھا۔ گو اس طور یہ ضروری ہوتا کہ پارلیمان سے انتخابی عمل کی مدت کو ڈیڑھ سے دو ماہ آگے کرنے کے لئے منظوری لی جاتی۔ اب یہی لگتا ہے کہ انتخابات گزشتہ مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہوں گے اس کی دو بڑی وجوہات ہیں اولاً حالیہ مردم شماری پر مختلف حلقوں کے تحفظات جوکہ پچھلی مردم شماری کے نتائج کے مقابلہ میں زیادہ سنگین نوعیت کے ہیں نیز یہ کہ ملک کے بڑے صوبے پنجاب کے بالائی اور وسطی اضلاع سے مردم شماری میں غلط اعدادوشمار کا اندراج بھی ایک مسئلہ ہے۔
ثانیاً یہ کہ مقررہ وقت پر مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوپایا جس سے حلقہ بندیوں کا عمل مکمل نہیں ہوا۔
گزشتہ سے پیوستہ روز وزیراعظم نے ملاقات کے لئے آنے والے ایم کیو ایم کے وفد کو مردم شماری اور دیگر معاملات پر تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ایم کیو ایم کا مسئلہ صرف کراچی اور حیدر آباد ہے اسی طرح سندھ حکومت کے تحفظات ہیں پھر پنجاب کے وسطی اور بالائی اضلاع میں مردم شماری کے لئے بنائے گئے بلاکس میں اضافی آبادی کے اندراج کی سنگین شکایات ہیں یہ اور دیگر مسائل کیسے حل ہوں گے اور کیا مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے 2023ء کے انتخابات نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر کرانے سے انحراف سے آئینی بحران تو پیدا نہیں ہوگا یہ بذات خود ایک سوال ہے۔
بالفرض اگر ان افواہوں کو رتی برابر اہمیت بھی نہ دی جائے کہ انتخابات مقررہ وقت پر نہیں بلکہ آئندہ برس فروری ومارچ میں ہوں گے تو بھی یہ امر جواب طلب ہے کہ گزشتہ مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر انتخابی عمل اگر چیلنج ہوگیا تو متبادل صورت کیا ہے؟
ایک رائے یہ ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے صورتحال نگران حکومتوں (وفاق اور 2صوبوں) کے قیام کے بعد ہی واضح ہوگی اس رائے کے حاملین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ نگران حکومت کی مقررہ آئینی مدت 60 یا 90 دن سے زائد عرصہ کے لئے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا جائے گا۔ ایسا ہوتا ہے تو کیا انتخابی عمل کے فریقین اسے تسلیم کرلیں گے؟
اسی دوران (ن) لیگ کے ایک رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں بلاانتخابی نشان کے طور پر ہوگا یا نہیں قبل ازقت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ایاز صادق کے بیان اور انتخابی عمل کے مقررہ وقت پر عدم انعقاد کے حوالے سے گردش کرتی افوا نما خبروں کو ملاکر دیکھا جائے تو مستقبل کا منظرنامہ ان وعدوں اور اعلانات کے برعکس بنتا دیکھائی دیتا ہے جو حکومت اورالیکشن کمیشن کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگران حکومتوں کی آئینی مدت پوری ہوچکنے پر ان کا برقرار رہنا اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات شاید ہی وقت پر ہوں۔
ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ آئین اورقانون سے کھلواڑ کی کھچڑی کہیں نہیں پک رہی ہوگی اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد مقررہ آئینی مدت میں ملک میں عام انتخابات منعقد ہوں گے نہ صرف یہ کہ وقت پر عام انتخابات ہوں بلکہ یہ آزادانہ اور شفاف بھی ہوں تاکہ ماضی کی طرح کے الزامات اور صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس امر کی بھی توقع ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے برعکس پرانی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر انتخابات کے انعقاد سے کوئی آئینی بحران جنم نہ لے اوریہ بھی کہ یہ تاثر بھی نہ ملے کہ کسی ایک فریق کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کےلئے کہیں صلاح مشورے اور انتظامات جاری ہیں۔
ہماری دانشست میں سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کوا نتخابی عمل میں شرکت کا مساوی موقع ملنا چاہیے جہاں تک عمران خان کے خلاف مقدمات کا تعلق ہے تو یہ مقدمات اب عدالتوں میں ہیں اس میں یقیناً انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔
اندریں حالات رائے دہندگان کی نظرمیں انتخابی اصلاحات کے لئے قانون سازی کی سفارشات تیار کرنے کے عمل میں مصروف پارلیمانی کمیٹی پر لگی ہوئی ہیں۔
رائے دہندگان چاہتے ہیں کہ بھاری بھرکم اخراجات والی مہنگی انتخابی مہم کے خلاف قانون سازی ہونی چاہیے۔ سیاسی جماعتیں تبدیل کرنے والوں کو کم از کم ایک انتخابی عمل میں نئی جماعت اپنا امیدوار نہ بنائیں۔
مذہب و مسلک ذات برادری اور لسانی عصبیت پر انتخابی سیاست پر مکمل پابندی لگنی چاہیے۔ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی اس امر کو بطور خاص مدنظر رکھے کہ بھاری انتخابی اخراجات نے سیاسی عمل کو باضابطہ کاروباربنادیا ہے۔
سفید پوش نظریاتی سیاسی کارکنوں کےلئے انتخابی عمل میں شرکت کے دروازے بند ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے طبقاتی بالادستی کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی ہے۔ یقیناً پارلیمانی کمیٹی قانون سازی کے لئے سفارشات مرتب کرتے وقت ان معاملات کوبھی مدنظر رکھے گی۔
اسی طرح ہم یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ کسی اگر مگر حیل و حجت کے بغیر انتخابی عمل مقررہ وقت پر ہی مکمل ہوگا اور مستقبل کے لئے رائے دہندگان کی منتخب کردہ قیادت کی حکومت سازی کے عمل میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جائے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply