یونیورسٹی جنسی ہراسگی کیس-چند تجاویز/چوہدری عامر عباس

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور بارے کل کی میری تحریر کے ردعمل میں بہت دوستوں نے اپنی آراء دیں۔ مجھے اس معاملے میں رتی برابر بھی شک نہیں کہ کسی نہ کسی صورت میں جنسی ہراسگی کے واقعات کئی پرائیویٹ یا سرکاری یونیورسٹیوں میں ہوتے رہتے ہیں جنہیں وقتی طور پر انکوائری کمیٹی بنا کر بعدازاں کمیٹی ممبران کے ذریعے ہی “مجھاں مجھاں دیاں بہناں” کے مصداق دبا دیا جاتا ہے۔اس طرح شکایت کنندہ کیلئے آئندہ یونیورسٹی میں زمین تنگ کر دی جاتی ہے. اگر ایسے واقعات کو منطقی انجام تک پہنچا کر ذمہ داران کو سخت سزائیں دی جائیں تو ان میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس پر آگے چل کر تفصیلی بات کرتے ہیں۔

 

 

 

کچھ دوستوں نے مجھے کہا کہ لڑکیوں کو اس سلسلے میں آواز بلند کرنی چاہیے اور مینجمنٹ کو شکایت کرنی چاہیے۔ یہ بات صرف کہنے کی حد تک درست ہے مگر ایسا ہونا قریب قریب ناممکن ہے۔ اسکی دو وجوہات ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ سمسٹر اور سی جی پی اے سسٹم میں پڑھنے والی بہت سی لڑکیاں اپنے اساتذہ پر ڈورے ڈالتی ہیں، وہ ازخود محض نمبر لگوانے کیلئے اور کلاس میں پوزیشنیں حاصل کرنے کے چکر میں سی جی پی اے بہتر کرنے کیلئے اپنے پروفیسر کے دفتر کے اردگرد منڈلاتی رہتی ہیں اور کسی بھی حد تک چلی جاتی ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات معاملات جسمانی تعلقات تک پہنچ جاتے ہیں۔ اب ذرا سوچیں کہ ایسی لڑکی بھلا اپنے پاؤں پر کیسے کلہاڑی مارے گی جس نے اپنا پروفیسر اپنی زلف کا اسیر کر لیا ہو اور اسکے کہے بغیر، اسائنمنٹ لکھے بغیر بہترین نمبرز لگتے رہیں ایسی لڑکیوں کی پانچویں گھی میں ہوتی ہیں انکا دماغ خراب ہے کہ وہ شکایت کریں، وہ تو خود اس گھناؤنے کھیل کی بینیفشری ہوتی ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ بالفرض اگر کوئی پروفیسر، لیکچرار یا سکیورٹی آفیسر کسی طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرے یا اسے نمبرز دینے کا لالچ دے کر جنسی استحصال کرنے کی کوشش کرے اور لڑکی اگر گھر جاکر بتائے کہ اسے جنسی ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دو چیزیں ہوں گی اسے فوری طور پر یونیورسٹی سے ہٹا لیا جائے گا یا اسے ہی خاموش رہنے کا کہہ دیا جائے گا اور متعلقہ استاد یا آفیسر کا گریبان نہیں پکڑا جائے گا یہی ہمارے معاشرے کا گھٹیا ترین چلن ہے کیونکہ بہت سی مجبوریاں آڑے آ جاتی ہیں سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ اس کے بعد آواز اٹھانے والی لڑکی کا معاشرے میں جینا حرام کر دیا جاتا ہے اردگرد کے لوگ اور رشتےدار ہی الٹا لڑکی کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کوئی ڈھنگ کا رشتہ ہی نہیں ملتا۔

اب درجہ بالا دونوں فیکٹرز کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ساری صورتحال سے نمٹنے کا آخر حل کیا ہے. اول تو یہ ہے کہ حالیہ افسوسناک میگا سکینڈل کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور جتنے بھی ذمہ داران ہیں انھیں کٹہرے میں لا کر سخت ترین سزا دی جائے۔ شعبہ تعلیم سے وابستہ لوگ اس کی شدید مذمت کریں اور ایسے واقعات میں کمی لانے کیلئے اقدامات کریں۔ انکوائری رپورٹ میں جو یونیورسٹی کے اندر آئس کے نشہ کی فروخت کا انکشاف ہوا ہے یہ اس سے بھی خطرناک ہے اس پر بھی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں۔

پاکستان میں کو-ایجوکیشن کو بتدریج مکمل طور پر ختم کرکے ایک متبادل سسٹم لایا جائے تو ایسے واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس کا ایک سادہ سا حل یہ ہے کہ خواتین کیلئے ہر یونیورسٹی میں الگ ڈیپارٹمنٹ ہونا چاہئے. فیمیل کلاسز کو صرف فی میل اساتذہ ہی پڑھائیں اور انتظامی سٹاف بھی فیمیل ہی رکھا جائے۔

تیسری تجویز جو کہ میں پہلے بھی دے چکا ہوں کہ طلباء و طالبات کی اسائنمنٹ اور پیپرز دیگر یونیورسٹی میں مارکنگ کیلئے بھیجے جائیں۔ اگر آن لائن مارکنگ کا نظام رائج کرکے طلباء کے نتائج دیگر یونیورسٹیوں سے مرتب کروائے جائیں تو معیار میں کچھ بہتری لائی جا سکتی ہے۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی بہت سی جامعات کی ڈگریاں پست ترین معیار سے بھی نیچے کا درجہ رکھتی ہیں۔ آپ خود اندازہ کیجئے کہ اگر چار سالہ تعلیم کے بعد ایسی ڈگریاں طلباء و طالبات کو تھما دی جائیں تو عملی زندگی میں وہ کیا خاک پرفارم کریں گے. وہ ڈگریاں نہیں بلکہ محض کاغذ کے پرزے ہیں۔اس سلسلے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کو فعال کرنے اور یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کا میکنزم مکمل طور پر تبدیل کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تحریر میں بیان کردہ خیالات مصنف کے ذاتی ہیں ،ادارے کا اس سے اتفاق ضروری نہیں 

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply