مثل برگ آوارہ/مشکل سے مگر بچے مل گئے(15)-ڈاکٹر مجاہد مرزا

ریڈی میڈ کپڑوں کے کارٹنوں سے بھرا کنٹینر پہنچنے والا تھا۔ ہم سب کا ندیم کی وزیٹر فیملی سمیت ایک گھر میں رہنا غیر آرام دہ تھا چنانچہ شہر کے مرکز میں دو کمروں والا ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا گیا تھا۔ میں وہاں منتقل ہو گیا تھا۔ یہ نسبتاً  پُر سکون جگہ تھی کیونکہ اپارٹمنٹ والی عمارت، مین سرکلر روڈ کی عمارتوں سے ہٹ کر اندر کی جانب تھی۔ مالکان مکان ادھیڑ عمر اور پڑھے لکھے تھے۔ ٹرانسپورٹ کی سہولت کی خاطر مزید ایک کار خرید لی گئی تھی۔ یہ بھی سیکنڈ ہینڈ تھی، میرون کلر کی آوڈی۔ اب ولیری اس کار کو چلاتا تھا، پہلے خریدی گئی سفید رنگ کی فورڈ میرے مصرف میں آ گئی تھی۔

چند روز بعد کنٹینر پہنچ گیا تھا۔ ان دنوں مزدور دستیاب نہیں تھے اس لیے ساشا سے کہا گیا تھا کہ اپنے کلاس فیلوز کو لے آئے تاکہ کنٹینر خالی کروانے میں مدد کر دیں، انہیں اس کام کا معاوضہ ادا کر دیا جائے گا۔ مظہر پہلے ہی ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی کے اوول گراؤنڈ کے نیچے تہہ خانے کا کچھ حصہ بطور گودام کرائے پہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ لڑکوں نے چار پانچ گھنٹے میں کنٹینر سے کارٹن اٹھا کر گودام میں منتقل کر دیے تھے مگر کوئی تیس چالیس کارٹن ایک ٹرک میں رکھوا کر میری رہائش گاہ پر بھی لائے گئے تھے تاکہ ضرورت کے وقت گودام نہ جانا پڑے۔ یہ کارٹن مجھے، مظہر اور ندیم کو ہی فرسٹ فلور پر واقع اپارٹمنٹ کے بڑے کمرے میں منتقل کرکے ایک جانب اوپر تلے دھرنے پڑے تھے۔ کمرے کا باقی حصہ بطور دفتر استعمال کیا جاتا تھا جہاں اب میرے علاوہ گھنگھریالے سنہری بالوں والا فربہی کی جانب مائل بلند قامت اور خاموش طبع سرگئی بطور منیجر کام کرتا تھا۔ شام پانچ بجے سرگئی چلا جاتا تھا۔ اس کے بعد میں اگر چاہتا تو ندیم کی طرف چلا جاتا جہاں سے رات کا کھانا کھا کر لوٹتا تھا یا کبھی کبھار نینا کے ہاں چلا جاتا  ۔ کبھی وہیں سو رہتا تھا اور کبھی لوٹ آتا۔

معاملات سنبھل چکے تھے۔ مال تجارت بکنے لگا تھا۔ منیجر تھا جو انگریزی زبان بول سکتا تھا، مظہر تو پہلے سے ہی کام کر رہا تھا۔ ڈرائیور تھا، گاڑی تھی ،بیوی بچے یہیں تھے اس لیے ندیم عارضی طور پر کام سنبھال سکتا تھا۔

میری سابق بیوی میمونہ اور بچے گم ہوئے کوئی ساڑھے چار پانچ ماہ بیت چکے تھے چنانچہ میں نے سب کچھ ندیم اور اس کے  عمال کے سپرد کیا تھا اور پاکستان سدھار گیا تھا۔ جس شہر میں میرا بھرا پرا گھر تھا، مجھے اب اس شہر میں جاتے ہوئے خجالت محسوس ہو رہی تھی۔ میری انا کسمسا رہی تھی جیسے وہ کچھ قابو میں رکھنے کے مقابلے میں ناکام رہی ہو۔ لوگوں کا سامنا کیسے کرے گی، انا کا مسئلہ تھا۔ میری منطقی سوچ نے انا سے کہا تھا “چپ کرکے بیٹھو، لوگ کیا کہیں گے؟ کیا یہی دنیا کا بڑا مسئلہ ہے۔ لوگ جائیں بھاڑ میں اس وقت بڑا مسئلہ میرے بچے ہیں”۔

کراچی میں چند روز قیام کے بعد میں لاہور پہنچا تھا۔ بڑی بہن کے ہاں سے مجھے معلوم ہوا تھا کہ میمونہ نے میرے بہنوئی کو فون کرکے مطلع کر دیا تھا کہ مجاہد نے اسے طلاق دے دی ہے، یعنی مجھے  بدنام کرنے یا قصور وار ثابت کرنے کی بنیاد رکھ تھی۔ اس کی جانب سے طلاق کے تقاضے تو زبانی کیے جاتے تھے، جن کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا مگر ” میں مجاہد ولد رفیق، میمونہ بنت خالد کو اس کے بے حد اصرار پر طلاق دیتا ہوں” تو میرے ہاتھ سے لکھے کاغذ کی شکل میں میمونہ کے پاس موجود تھا۔ خیر قصور وار کون تھا کون نہیں، شاید حالات قصور وار تھے کیوں کہ کسی نے کسی سے سوال کیا تھا،”یار یہ میاں بیوی کے درمیان طلاق کیوں ہوتی ہے؟” “بلی کودتی ہے تھالی گرتی ہے اور طلاق ہو جاتی ہے” جس سے سوال کیا گیا تھا اس نے جواب دیا تھا۔ سوال کرنے والے نے حیرت سے استفسار کیا تھا،” ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟”۔ “بھائی سمجھا کرو، تھالی استعارہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسائل کی تھالی پر تھالی چڑھتی رہتی ہے، بس وہ آخری تھالی جو بلی کے کودنے سے یعنی کسی جھگڑے کے پیدا ہونے سے گرتی ہے تو تمام تھالیاں ایک چھناکے سے ٹوٹ جاتی ہیں اور ان کا کان پھاڑنے ، دماغ بھنا دینے والا شور طلاق کا کارن بن جاتا ہے”

میں اس قصبے میں پہنچا تھا جہاں آخری بار میں اپنا کنبہ اور بھر اپرا گھر چھوڑ کر گیا تھا۔ پہلے اس دوست سے ملا تھا جس سے افضال نے میرا ماسکو میں پتہ لیا تھا، اس نے میرے ساتھ اس طرح افسوس کیا تھا جیسے کوئی مر گیا ہو۔ ویسے طلاق موت سے کم نہیں ہوتی مگر مجھے یقین تھا کہ کوئی موت نہیں ہوئی، بس کوئی کسی بڑے پتھر تلے آ کر سسک رہا ہوگا۔ افسوس کے علاوہ اس دوست کے پاس اور کوئی معلومات نہیں تھیں۔ پھر میں چوہدری الیاس سے ملنے گیا تھا۔ الیاس نے یاد دلایا تھا کہ اس نے بہت پہلے بتا دیا تھا کہ جو تیرے لچھن ہیں، نتیجہ یہی نکلے گا کہ:
نہ خدا ہی ملا ، نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے رہے

میں اپنا سارا غم بھلا کر الیاس کے گلے پڑ گیا تھا کہ یار اس میں میرے لچھنوں کا قصور کہاں سے آ گیا، جس کے لچھن سے یہ سب کچھ ہوا ہے اس کو بھلا بیٹھے ہو جو میرے بچوں کو لے کر نجانے کہاں بھاگ گئی ہے۔ الیاس نے اسے یاد دلایا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو لے کر گئی ہے تیرے بچوں کو نہیں، اگر تو اپنے بچے سمجھتا تو انہیں چھوڑ کر دیار غیر میں زندگی نہ گذار رہا ہوتا اور لچھن تمہارے ہی تھے کہ تم نے میمونہ کو شروع سے کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ ہر شخص کو دوست سمجھ بیٹھتے رہے اور اسے اپنے بیڈ روم تک میں لے جا بٹھایا۔ میں تمہیں شروع سے سمجھاتا رہا تھا کہ یہ کسی بڑے شہر کا پوش علاقہ نہیں ہے جہاں تمہارا لبرل ہونا عام سی بات ہوگی اور نہ ہی یہاں کے لوگ جنہیں تم اپنے “کامریڈ” کہتے ہو اپنی نفسیات میں لبرل ہیں۔ وہ اندر سے دیہاتی ہیں۔

اگرچہ جاوید بٹر نہ میرا دوست تھا اور نہ “کامریڈ” مگر چوہدری الیاس کی بات میں وزن تھا کہ جیسا ماحول دو گے اس میں وہ لوگ بھی لبادہ اوڑھ کر گھس سکتے ہیں جو اصل میں اس ماحول کے مخالف ہوتے ہیں اور ایسے ماحول سے فائدہ اٹھانے کے خواہاں بھی۔ میں خاموش اور اداس ہو گیا تھا۔ چوہدری الیاس کو احساس ہوا تھا کہ اس نے میری زیادہ ہی کلاس لے لی ہے چنانچہ اس نے ایک بار پھر اپنے یار مرزا کو گلے لگایا تھا اور کہا تھا “اللہ سب ٹھیک کر دے گا”۔ ساتھ ہی بتایا تھا کہ ڈسپنسر یونس کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ میمونہ سرگودھے کے قریب کہیں گئی ہے جہاں جاوید بٹر کی نئی پوسٹنگ ہے مگر مشورہ دیا تھا کہ صبر کرے۔ اس کا موقف تھا کہ وہ اسی علاقے کے بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے کے سبب ان علاقوں کے چھوٹے زمیندار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے جاوید بٹر جیسے لوگوں کی کینہ پرور اور سازشی ذہنیت سے میری نسبت کہیں زیادہ شناسا ہے، ایسا نہ ہو کہ تمہیں یا تمہارے بچوں کو کوئی گذند پہنچے۔

میں بازار گیا تھا جہاں ڈسپنسر یونس ایک چھوتی سی دکان میں بیٹھا کرتا تھا۔ ڈسپنسر یونس بڑی عمر کا ایک مناسب مزاج اور دیانتدار شخص تھا جو میرا واقف تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ اسے اپنے رشتے دار کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ جاوید بٹر سرگودھا کے نزدیک کہیں تعینات ہوا ہے۔ میں شام کو لاہور لوٹ آیا تھا۔ اگلے ہی روز کوچ میں سوار ہو کر سرگودھا پہنچا تھا۔ اس شہر سے میں بالکل ناواقف تھا۔ ڈسپنسر یونس سے میں اس کے رشتہ دار کا پتہ لے گیا تھا۔ اڈے سے تانگے پر سوار ہو کر میں متعلقہ شخص کے پاس پہنچا تھا جس کی منیاری کی دکان تھی۔ اس سے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا تھا۔ اس شخص نے پہلے کھانا کھلانے پر اصرار کیا تھا میں نے بالآخر چائے پینا قبول کیا تھا۔ اس شخص نے بتایا تھا کہ اسے فلاں ڈاکٹر کی زبانی معلوم ہوا تھا اس لیے میں آپ کو ان کے پاس بھجوا دیتا ہوں، وہ آپ کو بتا سکیں گے کہ جاوید بٹر صاحب کہاں تعینات ہیں۔ اس نے اپنے ہاں کام کرنے والے لڑکے کو کہا تھا کہ بھائی صاحب کو فلاں ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر چھوڑ آؤ۔ لڑکے نے سائیکل اٹھائی تھی اور اس پر سوار ہوتے ہوئے کہا تھا،”سر پیچھے بیٹھ جائیں”۔ میں بغیر کوئی سوال کیے کیریر پر بیٹھ گیا تھا۔ چند منٹ بعد لڑکے نے مجھے اس ڈاکٹر کے کلینک پر چھوڑ دیا تھا۔ میں ڈاکٹر صاحب سے ملا تھا اور اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ جاوید بٹر ان کی بیوی کے کسی رشتہ دار کا دوست ہے اس لیے وہ جانتے ہیں کہ وہ کہاں تعینات ہے مگر آپ کو ان سے کوئی کام ہے کیا؟ ڈاکٹر نے پوچھا تھا۔ میں نے شرمندگی تو محسوس کی تھی مگر صاف صاف بتا دیا تھا۔ ڈاکٹر نے بھی مجھ سے ایسے ہی افسوس کیا تھا جیسے اس دوست نے کیا تھا جس سے افضال نے میرا ماسکو میں پتہ حاصل کیا تھا۔

شام ہونے کو آئی تھی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا تھا،” آپ کو تکلیف تو ہوگی لیکن میں اس شہر میں چونکہ نیا ہوں، اس لیے میرے لیے ٹیکسی کا بندوبست کر دیں تاکہ میں اس مقام تک جا سکوں جو آپ نے بتایا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ عموماً  اس علاقے کے لیے ٹیکسی دستیاب نہیں ہوتی، میں رینٹ اے کار والوں سے پچھواتا ہوں۔ کوئی ایک گھنٹے بعد کار آئی تھی۔ تب تک ڈاکٹر صاحب اصرار کرکے مجھے کھانا کھلا چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب یا تو مجھ سے متاثر ہو چکے تھے یا مجھ سے ہمدردی کر رہے تھے یا واقعی ایک اچھے انسان تھے اس لیے مجھے کار تک چھوڑنے گئے تھے اور دونوں ہاتھوں سے الوداعی مصافحہ بھی کیا تھا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد کار ایک چھوٹے سے قصبے میں پہنچی تھی۔ دیہاتوں میں ویسے ہی رات جلدی پڑ جاتی ہے۔ کار والے نے ایک واحدکھلی ہوئی دکان سے “تھانیدار صاحب” کا گھر معلوم کیا تھا۔ قصبے سے تقریباً  باہر نکل کر ایک بڑے سے گیٹ والا گھر تھا۔ میں نے کار کے ڈرائیور کو انتظار کرنے کو کہا تھا اور خود کار سے اتر کر گھنٹی بجائی تھی۔ تھوڑی دیر گذرنے کے بعد اندر دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی۔ میں نے ایڑیاں اٹھا کر دیکھا تھا، ایک پتلا سا بلند قامت لڑکا، راستے میں پڑے ڈھیلوں کو ٹھوکریں مارتا ہوا گیٹ کی جانب آ رہا تھا۔ اس نے آ کر گیٹ کھولا تھا۔ وہ میرا بیٹا تموجن تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایک سال سے کم عرصے میں وہ اتنا بڑا ہو سکتا ہے۔ اس کا قد نکل آیا تھا۔ تموجن اپنے باپ سے سردمہری کے ساتھ ملا تھا۔ تموجن سے پوچھا تھا تمہاری ماں ہے گھر میں۔ تموجن جی کہہ کر لوٹ گیا تھا اور جاتے جاتے کہا تھا،” آپ انتظار کریں میں بیٹھک کھولتا ہوں”۔ میں نے کار والے کو ادائیگی کرکے رخصت کر دیا تھا اور گھر میں داخل ہو کر عمارت کے قریب جا کھڑا ہوا تھا۔

تموجن نے ایک دروازہ کھولا تھا اور کہا تھا “آئیے”۔ میں اندر داخل ہوا تھا۔ تموجن نے کہا تھا، “بیٹھیں ماما آتی ہیں”۔ وہ خود گیٹ بند کرنے نکل گیا تھا۔ اتنے میں میری بیٹی آریانا بھی آ گئی تھی اور باپ سے بڑے جوش و خروش سے ملی تھی۔ میں نے بھی اسے جی بھر کر پیار کیا تھا۔ تموجن بھی آ کر ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔ مجھے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ میں کسی اور کے گھر میں آیا بیٹھا ہوں۔ گھر کی ہر چیز وہی تھی جو میرے گھر کی تھی۔ تھوڑی دیر میں مَیں یہ بھی بھول گیا تھا کہ میموبہ میری بیوی نہیں رہی اور میں نے جھنجھلا کر کہا تھا کہ “کہاں ہے تمہاری ماں، آ کیوں نہیں رہی؟” اتنے میں ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ میمونہ بیٹھک میں داخل ہوئی تھی اور سلام کیا تھا۔ میں نے بھی اٹھ کر زندگی میں پہلی بار “وعلیکم السلام میمونہ خالد” کہا تھا۔ میمونہ نے سامنے والے صوفے پر بیٹھ کر بے تحاشا رونا شروع کر دیا تھا۔ دونوں بچے دکھی ہوئے بیٹھے تھے۔ میں نے اٹھ کر میمونہ کے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور کہا تھا، “صبر کرو میمونہ۔ غلطیاں سب سے ہو جاتی ہیں۔ لوٹ آؤ، مجھے کوئی شکایت نہیں ہوگی”۔ میمونہ نے اپنے دوپٹے سے آنکھیں پوچھتے ہوئے بڑے فیصلہ کن لہجے میں کہا تھا، “نہیں، اب وہ میرے سر کا سائیں ہے”۔ میں نے بیگ کھول کر وسکی کی بوتل نکالتے ہوئے تموجن سے کہا تھا کہ گلاس اور پانی لا کر دے۔ وہ منہ بنا کر گلاس اور پانی لینے چلا گیا تھا۔ میمونہ نے کہا تھا، “دیکھنا کہیں پی کر ہنگامہ نہ کر دینا”۔ میں نے جواب دیا تھا،”تم جانتی ہو میں اپنے گھر میں ہنگامہ کر سکتا ہوں، غیر کے گھر میں نہیں”۔ وہ یہ جانتی تھی، مطمئن ہو کر اٹھی تھی اور خود ایک ٹرے میں گلاس برف، سافٹ ڈرنک اور پانی لے کر آئی تھی۔ میں نے دماغ کو پُرسکون کرنے کی خاطر دو تین پیگ لیے تھے۔ تموجن اٹھ کر اندر چلا گیا تھا مگر آریانا بیٹھی اپنے پاپا سے باتیں کرتی رہی تھی۔ میمونہ کھانے کا انتظام کرنے لگی تھی۔ مجھے بھوک نہیں تھی لیکن میں نے کھانے سے انکار نہیں  کیا تھا۔ کھانے کے دوران پوچھا تھا کہ جاوید کہاں ہے؟ میمونہ نے بتایا تھا کہ وہ ڈیوٹی کے سلسلے میں دو روز کے لیے کہیں گیا ہوا ہے۔ میں نے زیادہ باتیں اس لیے نہیں کی تھیں کہ میمونہ کے جواب کے بعد باتیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، تلخی ہی پیدا ہوتی۔ میں نے میمونہ کو بتایا تھا کہ میں بچوں کو لاہور لے جانے کے لیے آیا ہے۔ میمونہ نے کہا تھا ضرور لے جاؤ لیکن واپس بھجوا دینا۔ رات کو جس کمرے میں مجھے سونے کے لیے بھیجا گیا تھا وہاں اے ایس آئی کی استری کردہ وردی ٹنگی تھی جو میرے داخل ہوتے ہی تموجن نے ہینگر سمیت اٹھا کر کہیں اور منتقل کر دی تھی۔ اگلے روز ناشتہ کرنے کے بعد میں تموجن اور آریانا کو لے کر لاہور روانہ ہو گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply