لغت میں نفس کے کئی معنی آتے ہیں: مثلاً روح، جان، کسی کی ذات جسم، عقل، خواہش اور دل وغیرہ اللہ تعالیٰ نے انسانی قالب میں عقل، قلب اور روح کی طرح ’’نفس‘‘ کو بھی ایک مستقل جوہر کے طور پر پیدا فرمایا ہے حقیقت میں نفس ایک ہی ہے مگر اس کی صفات مختلف ہیں اس کی بہت سی اقسام ہیں، ہر قسم کے نفس کے الگ خواص وصفات ہیں اور یہ الگ اثرات انسانی طبعیت و مزاج، عادات و خصائل اور اخلاق و اعمال سے ظاہر ہوتے ہیں نفس بذات خود بھی انسان کے احوال و اخلاق کی تشکیل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نفس کی بہت سی جبلتیں بھی ہیں اور اسکی خواہشات کی اصل جڑ اور اس کی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے۔
مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ “نفس کا لفظ کبھی تو زندہ اشخاص کے لیے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْت۔ اور کبھی اس سے مراد(Mind) یا ذہن ذی شعور ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا 0 فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا۔ کبھی اس سے مراد روح ہوتی ہے۔ جیسے فرمایا وَاِذَالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (یعنی جب روحیں پھر جسم کے ساتھ ملادی جائیں گی)۔ کبھی اس سے مراد انسان کی پوری ذات ہوتی ہے مع جسم و روح، جیسے فرمایا وَفِٓیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (کیا تم خود اپنی ذات یا اپنے وجود پرغور نہیں کرتے؟) کبھی اس سے مراد انسانی ذہن کے اس حصے سے ہوتی ہے جو خواہشات اور جذبات کا محل ہے، جیسے فرمایا وَفِیْھَا مَاتَشْتَھِیْہِ اْلاَنْفُسُ (جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی نفس خواہش کریں گے) اور کبھی اس سے مراد ذہن انسانی کا وہ حصہ ہوتا ہے جو اپنی قوت فیصلہ(Judgement) استعمال کرکے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کس راہ کو اختیار کرنا اور کس طریق کار یا طریق زندگی کو اپنانا ہے۔ یہ نفس اگر برائی کی راہ پر جانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے نفس امارہ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓءِ۔ اگر وہ برائی کے ارتکاب پر کڑھتا اور ملامت کرتا ہے تو اسے نفس لوامہ (یا جدید اصطلاح میں ضمیر) کہا جاتا ہے، جیسے فرمایا وَلَآ اُقْسِمُ بِانَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ۔ اور اگر وہ راہ راست کو پورے شرح صدر کے ساتھ اختیار کرکے اس کی تکلیفوں کو صبر و سکون کے ساتھ گوارا کرتا ہے اور اس کے خلاف چلنے کے فوائد کو ٹھکرا کر پچھتانے کے بجائے خوش رہتا ہے تو اسے نفسِ مُطْمَئِنَّہ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلیٰ رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً سے مراد ذہن ذی شعور ہے جسے سوچنے سمجھنے، رائے قائم کرنے اور انتخاب و فیصلہ کرنے کے لیے ضروری صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں اور علم و فہم اور تعقُّل کے وہ ذرائع بھی بہم پہنچائے گئے ہیں جو ان صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لیے درکار ہیں۔ تسویہ سے مراد کسی چیز کو ٹھیک ٹھیک تیار کردینے کے ہیں، جیسے موٹر کو اس طرح تیار کردینا کہ وہ پوری طرح سڑک پر چلنے کے قابل ہوجائے۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک ایسا الہامی (Intuitive Inherent)علم رکھ دیا ہے جس سے وہ برائی اور بھلائی میں تمیز کرتا ہے اور پہنچانتا ہے کہ برائی کی راہ کونسی ہے اور بھلائی کی کونسی۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَذْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا میں نشونما دینے اور دبانے والے سے مراد انسان کی وہ ’’انا‘‘ یا اس کی وہ خودی ہے جو ’’میرا ذہن‘‘، ’’میری عقل‘‘، ’’میرا دل‘‘،’’میری روح‘‘، ’’میری جان‘‘، ’’میری زندگی‘‘ وغیرہ الفاظ بولتی ہے۔ یہی ’’انا‘‘ اس ذہن ذی شعور کی مالک بنائی گئی ہے۔ اس کو یہ ذہن اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ اس کی صلاحیتوں اور قوتوں کو استعمال کرکے اپنی اچھی یا بری شخصیت جیسی بھی چاہے بنائے۔ یہ اگر اس ذہن ذی شعور کو صحیح طور پر ترقی دے اور اس کو ٹھیک طریقے سے استعمال کرے تو فلاح پائے گی، اور اگر وہ نفس امارہ کی غلامی اختیار کرکے ذہن کی ان بہترین صلاحیتوں کو اس فطری راستے پر نہ بڑھنے دے جس پر چلنے کے لیے ہی یہ صلاحیتیں اس میں پیدا کی گئی ہیں اور اس کو زبردستی نفس امارہ کے مطالبات پورے کرنے کے لیے تدبیریں اور چالیں چلنے اور طریقے ایجاد کرنے پر مجبور کرے اور نفس لوامہ کی تنبیہات کو بھی زبردستی دباتی چلی جائے تو یہ نامراد اور ناکام ہوجائے گی۔ جبکہ
دماغ ذہن کا محل اور اس کا وہ مادی آلہ ہے جس کے ذریعہ سے ذہن اپنا کام کرتا ہے۔ اور جسم وہ مشین ہے جو ان احکام کی تعمیل کرتی ہے جو دماغ کے ذریعہ سے ذہن اس کو دیتا ہے۔ اس کو ایک بھدی (Crude)مثال کے ذریعہ سے یوں سمجھے کہ انسان کی ذات گویا مجموعہ ہے ڈرائیور اور موٹر کار کا۔ ڈرائیور ذہن ہے۔ انجن اور اسٹیرنگ ویل میں لگے ہوئے آلات بحیثیت مجموعی دماغ ہے۔ وہ قوت و توانائی جو انجن کے اندر کام کرتی ہے روح ہے اور موٹر کار کی باڈی جسم ہے۔”
جبکہ علم نفسیات (psychology) بنیادی طور پر رویے (behavior) اور عقلی زندگی کے سائنسی مطالعے (scientific study) کو کہا جاتا ہے۔ چونکہ بات یہاں صرف عقل اور اس کے حیاتیاتی افعال انجام دینے کی نہیں بلکہ عقلی زندگی کی ہے یعنی جسمانی اور عقلی کا مجموعہ؛ اس لیے نفسیات کو یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ نفسیات دراصل نفس (soul) کے مطالعے کا نام ہے اور اسی لیے اس کو نفسیات کہا جاتا ہے یعنی نفس کا مطالعہ۔ انگریزی میں اس کو psychology کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ psych تو نفس کو کہتے ہیں اور logy مطالعہ کو اور یہ انکا مرکب لفظ ہے۔انگریز سائنسدان ولیم ہاروے نے سب سے پہلے انگریزی زبان میں لفظ سائیکالوجی کو استعمال کیا
نفسیات ایک وسیع علم ہے جو صرف انفرادی علاج معالجے تک محدود نہیں بلکہ اس میں جانداروں کی عقل (mind) پر تحقیق اور اس کے انسانی (و حیوانی) رویے (behavior) پر اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
محبت، نفرت اور خوف کے بنیادی جذبات پر انسان کے مزاج کاآئینہ تشکیل پاتا ہے۔ علم نفسیات اب فرائیڈ کے نفسیاتی تجزیے تک محدود نہیں رہا بلکہ کلینکل سائیکالوجی اور ایموشنل انٹیلی جنس کی صورت ڈھل چکا ہے۔
نفسیات (Psychology) رویے اور ذہن کی سائنس ہے کہ آپ کا شعور و لاشعور کیسے کام کرتا ہے اور کن باتوں سے ہمیں غصے اور ہمدردی کے جذبات آتے ہیں، جو خالصتاً حیاتیاتی کیمیاوی عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہمارے نیورونز، برقی شعاعوں سے پیغامات کا تبادلہ کرتے ہیں جس کا تعلق گنتی سے ہوتا ہے،اس لیے ہمارا دماغ کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے جو ایک ہی کلک پر متعلقہ مواد اپنے ڈیٹا بیس سے ہمارے پاس منتقل کرتا ہےاور ہم کیمیاوی ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب نیوروبرین سائنس اور کلینکل سائیکالوجی ایک صف میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ کرہ ارض میں مقیم جتنے بھی آدم و حوا کے رویوں اور برتاؤکے رنگ ہیں، اتنے ہی نفسیات کے رنگ ہیں۔ مزاج کی یہ سائنس تجرباتی نفسیات سے شروع ہوکر آج حیاتیاتی یعنی نیورو سائیکالوجی،رویہ جاتی یعنی ’’نفسیاتی مزاج شناسی‘‘(Psychological behaviourism)، ذہنی نفسیات (Cognitive psychology)، سماجی نفسیات، شخصی نفسیات( Personality psychology)، لاشعوری دماغ اور نفسیات، حوصلہ افزائی کی نفسیات، ڈویلپ مینٹل سائیکالوجی، بیہیوریل جینیٹکس، دماغی صحت کیلئے پروفیشنل سائیکالوجی، سائیکوڈائنامک سائیکو تھراپی، تعلیمی نفسیات، انڈسٹریل اینڈ آرگنائزیشنل سائیکالوجی اور ہیلتھ سائیکالوجی تک جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی، معاشی، لسانی، گروہی،بین التعلقات جیسے کئی شعبوں میں نفسیات کا دائرہ بڑھ کر معاشرتی علوم سے کہیں آگے سائنسی علوم میں داخل ہوگیا ہے۔
انسان تین عناصر کا مرکب ہے دماغ، جسم اور ذات یا ہستی۔ اس ذات یا ہستی کو سائنس کی ترویج سے قبل روح بھی کہا جاتا تھا اور اب جدید طبی سائنس اس کو انسانی شعور کہتی ہے۔ ان تینوں عناصر میں سے انسانی دماغ ایک پیچیدہ مشین ہے۔ ہمارے رویے، رجحانات، جذبات اور دوسرے افراد کے ساتھ رشتوں کی نوعیت اسی مشین کی کارستانیاں ہیں۔ انسانی شعور بھی اسی مشین کی کارکردگی پر انحصار کرتا ہے۔ یہ مشین اتنی اہم ہے کہ زندگی تمام اٹھکھیلیاں اسی سے جڑی ہیں۔ دماغ میں خون کی روانی بند ہوتے ہی زندگی کا کھیل ختم ہو جاتا ہے۔جس طرح معدہ، دل، جگر اور مثانے وغیرہ میں خرابی پیدا ہونے کی صورت میں لوگ بیمار پڑ جاتے ہیں، دکھی ہو جاتے ہیں اور زندگی کو بھرپور طریقے سے نہیں جی سکتے اسی طرح دماغ میں خلل پیدا ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ دماغی امراض میں مبتلا افراد اپنے اور اپنے سے جڑے دیگر افراد کے لیے باعث زحمت بن جاتے ہیں۔ آج کل نفسیاتی بیماریاں اتنی عام ہیں کہ میرے خیال میں ہر گھر میں ایک نفسیات داں ہونا چاہیے کیونکہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی حد تک نفسیاتی بیماری نہیں بھی تو نفسیاتی الجھن میں ضرور مبتلا ہے۔انسانی شخصیت کی تعمیر میں اس کی جینیاتی خصوصیات، بچپن کی کنڈیشننگ (سکھلائی) اور سماجی ماحول اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حاصل شدہ معلومات، مشاہدات اور انسانی تجربات کے مرکب سے انسانی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ ’انسانی نفسیات‘ انسانی دماغ اور انسانی رویے کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔
لوگ اپنے سے وابستہ دیگر افراد کے ساتھ غیر معمولی، غیر صحت مندانہ اور ضرر رساں سلوک کیوں روا رکھتے ہیں؟
ان لوگوں کو ایسے رویے سے کیسے باز رکھا جا سکتا ہے؟
ایسا معالجہ دواؤں سے بھی ممکن ہے اور کونسلنگ (ماہرانہ مشورے) سے بھی۔ دوا کے بغیر الفاظ، گفتگو اور ماہرانہ تجاویز سے قائل کر کے نفسیاتی عارضوں میں مبتلا افراد کا طرز فکر اور طرز حیات بدل دینے کا عمل ”سائیکو تھراپی“ کہلاتا ہے بین الاقوامی طور پر اہم ترین نفسیاتی بیماریوں کو جن اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے ان میں پہلا گروہ ”موڈ ڈس آرڈر“ کا ہے جس میں ڈپریشن اور بائی پولر ڈس آرڈر اہم بیماریاں ہیں۔ دوسرے گروہ میں اینگزائٹی ڈس آرڈرز (گھبراہٹ اور بے چینی ) آتے ہیں۔ تیسرا گروہ پرسنیلٹی ڈس آرڈر ( شخصیت کی کجی) پر مشتمل ہے جس میں بارڈر لائن پرسنیلٹی ڈس آرڈر اہم ترین ہے۔ ، چوتھے گروہ میں سائیکوٹک ڈس آرڈرز (دماغی خلل) شامل ہیں جس کی ایک مثال شیزو فرینیا اور دوسری بائی پولر ڈس آرڈر ہے۔پانچویں گروہ میں ایٹنگ ڈس آرڈرز آتے ہیں۔ کھانے کی بیماری، جس میں اکثر جنوبی ایشیائی قومیں بالخصوص پاکستانی بڑے شوق سے مبتلا ہیں۔ چھٹا گروہ ذہنی صدمات سے پیدا شدہ بیماریوں سے متعلق ہے جس کو ٹراما ریلیٹڈ ڈس آرڈر (صدمات سے پیدا شدہ ذہنی عارضے ) کہتے ہیں اور اس کی ایک مثال پوسٹ ٹرامک سٹریس ڈس آرڈر (کسی صدمے کو بھلا نہ پانا اور غم میں مبتلا رہنا) ہے۔ ساتواں گروہ سبسٹس ابیوز ڈس آرڈر ہے جس میں منشیات کے استعمال سے پیدا ہونے والی ذہنی بیماریاں شامل ہیں۔
Branches of psychology
Abnormal psychology
Behavioral psychology
Biopsychology
Clinical psychology
Cognitive psychology
Comparative psychology
Counseling psychology
Cross-cultural psychology
Developmental psychology
Educational psychology
Experimental psychology
Forensic psychology
Health psychology
Industrial-organizational psychology
Personality psychology
School psychology
Social psychology
Sports psychology
Clinical psychology
Cognitive psychology
Evolutionary psychology
Forensic psychology
Neuropsychology
Sexual psychology
Occupational psychology.
Social psychology

1. علمی نفسیات۔
2. کلینیکل نفسیات۔
3. نیورو سائکولوجی۔
4. حیاتیاتی نفسیات۔
5. تقابلی نفسیات یا اخلاقیات۔
6. تعلیمی نفسیات
7. ارتقائی نفسیات۔
8. کھیلوں کی نفسیات
9. قانونی نفسیات
10. شخصیت کی نفسیات
11. صحت نفسیات۔
12. جوڑے کی نفسیات۔
13. خاندانی نفسیات۔
14. کاروباری اور تنظیمی نفسیات۔
15۔ ملٹری نفسیات۔
16۔ سکول کی نفسیات۔
17. جیرونٹولوجیکل نفسیات۔
18۔ تجرباتی نفسیات۔
19. ترقیاتی نفسیات۔
20. انجینئرنگ نفسیات۔
21. مارکیٹنگ نفسیات۔
22۔ سیکسولوجی۔
23. کمیونٹی نفسیات
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں