قربانی ایک تحقیقی مطالعہ(5،آخری قسط)-انور مختار

قربانی ایک تحقیقی مطالعہ
(حصہ پنجم )
قربانی کی رسم قدیم ترین زمانوں سے جاری ہے۔ مختلف قدیم تہذیبوں اور ثقافتوں میں قربانی کا سلسلہ مختلف صورتوں میں رہا ہے۔ قربانی بھی طرح طرح کی رہی ہے۔ جمادات، نباتات اورحیوانات سب کی قربانی ہوتی رہی ہے۔ کبھی تو انسانوں کی قربانی بھی ہوتی رہی ہے۔ قربانی کی بعض صورتیں تو غیرعاقلانہ رہی ہیں۔ معقول و نامعقول قربانیوں کی صورتیں اب بھی دکھائی دیتی ہیں۔
بعض انسان طبیعی عوامل مثلاً آسمانی بجلی یا زلزلے کے خوف سے اپنے ہی بنائے خداؤں کی خدمت میں ہدیے پیش کرتے رہے ہیں تاکہ ان کی پناہ یا خوشنودی حاصل کر سکیں۔ وہ انہی طبیعی مظاہر کیلئے خدائی کے قائل بھی رہے ہیں۔ قدیم زمانے میں گوشت، غلہ، پھل، شراب اور گھی وغیرہ بھی قربانی کے طور پر پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ اسی طرح بہت سے انسانوں نے سورج، حیوانات یا بتوں کی پوجا شروع کردی۔ بعض انسان اپنے اموال بتوں کے قدموں میں رکھ دیتے تھے۔ بعض لوگ اپنے معصوم بچوں کو خداؤں کے نام پر قربان کر دیتے تھے۔
آشوری اپنے آباؤ اجداد کی قبروں پر چھڑکاؤ کرتے تھے۔ ہندوؤں کے ہاں بھی تطہیر اور پاکی کیلئے یہ کا م انجام دیا جاتا تھا۔ زیادہ تر عرب سامی اقوام کی طرح اپنی قربانیوں کے خون کا چھڑکاؤ کرتے تھے یا پھر فنیقیوں کی طرح دودھ کاچھڑکاؤ کرتے تھے۔ بعض لوگ خون کے بجائے شراب کا چھڑکاؤ کرنے لگے اور وہ اسے انگور کا خون قرار دیتے تھے۔ بعض قوموں میں خود خداؤں کی قربانی کا بھی رواج رہا ہے۔ ہندوؤں کی بعض قدیم کتابوں کے مطابق ان کے خدا قربانی دے کر بہشت حاصل کرتے تھے۔
دومۃ الجندل کے لوگ ہر سال خاص انداز سے ایک شخص کا انتخاب کرتے اور اپنے خداؤں اور بتوں کے حضور اسے قربان کر دیتے پھر اس کا جسم قربان گاہ کے قریب دفن کر دیتے۔
عبدالصبور شاکر اپنے ایک مقالے ’’مذاہب عالم میں قربانی کا تصور‘‘میں مختلف ملکوں اور قوموں کے ہاں قربانی کے تصور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
افریقا، جنوبی امریکا، انڈونیشیا،جرمنی اور اسکینڈی نیویا کے بعض قبائل اپنے دیوتاؤں کے غضب سے بچنے، ان کی خوشنودی حاصل کرنے، کسی نئی عمارت، پُل یا بادشاہ کی موت، یا ناگہانی آفت کے وقت انسانوں کی قربانی کیا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق قدیم یونانی بھی انسان کی قربانی کے قائل تھے جس کی تصدیق ان ہڈیوں سے ہوتی ہے جنھیں آثار قدیمہ کے ماہرین نے کھدائی کے دوران برآمد کیا ہے۔ کریٹ کے قلعے سے ملنے والی بچوں کی ہڈیاں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ انھیں ذبح کیا گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ چوتھی صدی قبل مسیح میں روم میں کنسولی کامیل کے زمانے میں سینٹ اور عوام میں اختلاف کے خاتمے پر جشن برپا کیا گیا اور تمام عبادت گاہوں میں خداؤں کے شکرانے کیلئے قربانیاں پیش کی گئیں۔
مغربی ایشیا کے سامی بادشاہوں میں سے ایک کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ موآب (جو شام کا علاقہ تھا) کے بادشاہ نے جب اپنی سلطنت کو بنی اسرائیل سے خطرے میں محسوس کیا تو اپنے بڑے بیٹے کو خداؤں کے حضور فدیہ کردیا۔ یہ اس کا وہی بیٹا تھا جسے اس کا جانشین ہونا تھا۔ بادشاہ کے حکم پر اسے شہر کی قربان گاہ پر لے گئے جہاں اسے فدیہ کے نام پر قتل کردیا گیا اور اس کے جسم کو جلا دیا گیا۔
عرب کے بہت سے قبیلے جب کسی جنگ میں کامیاب ہو جاتے تو مغلوب قوم کے اموال لوٹ لیتے اور ان کے لوگوں کو قیدی بنا لیتے۔ اس فتح کے شکرانے میں وہ جو کام انجام دیتے ان میں سے ایک یہ تھا کہ قیدیوں میں سے خوبصورت ترین شخص کو اپنے بتوں کے حضور قربان کر دیتے۔ اس کے خون کو کامیابی کے تسلسل کیلئے اپنے سر اور چہرے پر ملتے۔
بعض قدیم ادیان میں غیر خونی قربانی کی سلسلہ بھی رائج رہا ہے مثلاً پھلوں، سبزیوں، اناج کے دانوں، مائعات خصوصاً پانی اور شراب کو قربانی کے عنوان سے پیش کیا جاتا تھا۔ چیزوں اور حیوانوں کو قربانی کیلئے وقف کردیا جاتا تھا ۔ فرائڈ کا کہنا ہے کہ نباتات کی قربانی تازہ اتارے گئے پھلوں کو ہدیے کے طور پر پیش کرنے سے شروع ہوئی۔ یہ زمین کے مالک کی طرف سے ایک طرح کی مالی قربانی یا ٹیکس کی ادائیگی شمار ہوتی تھی۔
قبل ازاسلام کے مصری لوگ دریائے نیل کی روانی برقرار رکھنے کیلئے ایک خوبصورت اور کنواری دوشیزہ کی قربانی دیتے تھے جسے زیورات وغیرہ سے سجا سنوار کر دریا کے عین وسط میں چھوڑ دیا جاتا جس کے بعد دریائے نیل رواں ہو جاتا
علی عباس جلالپوری اپنی کتاب “رسوم اقوام” میں اس بارے میں لکھتے ہیں کہ “رابرٹسن سمتھ کے خیال میں قربانی کی رسم قدیم مذہب کی اساس تھی۔ وہ کہتا ہے کہ قربانی وہ نذرانہ یا تحفہ تھا جو قدیم زمانے کے لوگ ان دیوتاؤں اور دیویوں کو پیش کرتے تھے جو ان کے عقیدے کے مطابق ان کے مقدر پر تسلط رکھتے تھے۔ وہ قربانی دے کر ان کی خوشنودی حاصل کیا کرتے تھے۔ لہو کو حیات اور توانائ کی علامت مانتے تھے۔ چنانچہ نفس کا معنی حیات بھی ہےاور لہو بھی، جیسا کہ لفظ نفّاس سے ظاہر ہے۔ چنانچہ لہو کا کھانا ممنوع ٹھہرا اور ذبیحہ کا رواج ہوا۔ ذبیحہ کا خون بتوں پر چھڑکتے تھے تاکہ دیوتاؤں کی توانئ بحال رہے۔ جسمانی اور اخلاقی پاکیزگی کیلئے بھی خون بہاتے تھے۔ کوئ شخص سائ بیلی دیوی کے مت میں داخل ہونا چاہتا تو ایک گڑھے میں ننگا بٹھا دیتے تھے پھر گڑھے کے کنارے بیل ذبح کرتے جس کا خون اس شخص پر گرتا اور وہ پاک ہو جاتا۔ متھرامت والے بھی خون سے بپتسمہ لیتے تھے۔ قول و قرار اور عہد و پیمان کیلئے ایک دوسرے کے بازو پر چرکا لگا کر لہو پینے کا رواج عام تھا۔ جادوگر ٹونے ٹوٹکے خون سے لکھتے رہے ہیں۔ ایک دفعہ شاہ قسطنطین بیمار پڑگیا۔ مرض نے طول پکڑا تو ایک درباری نے مشورہ دیا کہ جہاں پناہ کسی کنواری لڑکی کے خون سے غسل کریں تو شفایاب ہو جائیں گے۔ ہنگری کی شہزادی باتھوری اپنے شباب کو بحال رکھنے کیلئے نوجوان لونڈیوں کے خون میں نہایا کرتی تھی۔
جنگ میں فتح حاصل کرنے، دافع بلیات، دھرتی کی بار آوری کو برقرار رکھنے۔ بارش برسانے، حصول اولاد کیلئے بھی خونی قربانی دی جاتی تھی۔ پہلے پہل نربلی (مرد کی قربانی) دینے کا رواج تھا، پھر گھوڑوں، بیلوں،بھیڑ، بکریوں کی قربانیاں دینے لگے۔ قدیم یونان و رومہ میں لڑائ چھڑنے سے پہلے کسی کنواری لڑکی یا گھوڑے کی قربانی دی جاتی تھی۔ ہندوستان میں دھرتی میں زرخیزی کے اضافہ کرنے کیلئے سیاہ یا سفید گھوڑا قربان کیا کرتے تھے۔ رامائن میں سیاہ اور مہا بھارت میں سفید گھوڑے کی قربانی کا ذکر آیا ہے۔رومہ میں ڈیانا دیوی کے معبد میں گھوڑا ذبح کیا جاتا تھا۔ ایران قدیم میں متھرا دیوتا کیلئے سانڈ کی قربانی دی جاتی تھی۔ رومی جرنیل اپنی فتح کے جلوس کے بعد دیوتا مریخ کے معبد میں مفتوح سپہ سالار کو ذبح کرتے تھے۔ قرطاجنہ مصیبت کے دفعیے کیلئے دیوتا مولک پر ننھے منے بچے آگ کے شعلوں میں پھینک کر قربان کیا کرتے تھے۔
دھرتی کی زرخیزی بڑھانے کیلئے جنوبی ہند کے گونڈ اور ماریا قبائل فصلیں بوتے وقت ایک جوان لڑکی کی قربانی دیتے تھے۔ اس لڑکی کو کھمبے سے باندھ دیتے اور قبیلے کے سردار باری باری اس پر خنجروں سے وار کرتے تھے۔ اس کا بہتا ہوا خون کھیتوں میں چھڑکتے تھے۔ بعض وحشی قبائل میں یہ رواج تھا کہ سالانہ قربانی کیلئے ایک نوجوان کو منتخب کر لیا جاتا۔ سال بھر خوب اسکی خاطر مدارات کرتے۔ حسین لڑکیاں اس کا دل بہلاتیں اور اسے اچھے اچھے کھانے کھلائے جاتے۔ سال کے خاتمے پر اسے ذبح کر دیتے تھے۔
رضوان خان صاحب لکھتے ہیں کہ
متھرا کائناتی بیل کو پچھاڑ کر ذبح کرتے ہوئے
زیر نظر مجسمے میں متھرا Cosmic Bull یا آسمانی بیل کو شکست دینے کے بعد پچھاڑ کر ذبح کررہا ہے۔۔ یہ مجسمہ برٹش میوزیم میں ہے۔۔
آسمانی بیل کے جسم سے خون نکل کر پوری زمین پر پھیل گیا اور یہ ساری زرخیزتا اس خون کی بدولت ہے
متھرا کو پرانی ہندو اور فارسی دیومالا میں روشنی کا خدا کہتے ہیں اور اس کے ماننے والے ہندوستان سے سپین تک پھیلے ہوئے ہیں۔۔
دیومالا کے مطابق متھرا کے والدین نہیں اس کو دھرتی ماں نے خود جنم دیا اس کا جنم مقدس درخت کے سائے تلے ہوآ اور بوقت پیدائش اس کے ہاتھ میں جلتی مشعل تھی۔۔
سکندر اعظم کے فارس آنے سے پہلے متھرا کو صرف ہندوستان اور فارس میں پوجا جاتا تھا لیکن سکندر نے جب دارا کو اور بعد میں پورس کو ہرایا تو متھرا پر یقین ماننے والے یونان سپین اور سکندر اعظم کے سارے مفتوحہ علاقوں میں پھیل گئے
تیسری اور چوتھی صدی میں عیسائت کو سب سے زیادہ مزاحمت متھرا کے ماننے والوں سے پیش آئ
رومن شہنشاہ کموڈیس نے دریائے ڈینیوب کے کنارے تیسری صدی میں متھرا کا ایک عالیشان مندر بنوایا جس کو وہ رومن سلطنت کا محافظ قرار دیتا تھا
میکسکو میں سورج دیوتا ہوئ پولو کتلی کی روشنی کو بحال رکھنے کیلئے ہر روز طلوع آفتاب کے وقت اس کی قربان گاہ پر جنگی قیدی ذبح کئے جاتے تھے۔ پروہت پتھر کے خنجر سے ذبیحہ کا سینہ چاک کر کے اس کا دھڑکتا ہوا دل سینے سے کھینچ لیتا اور ہاتھ بلند کر کے سورج دیوتا کو پیش کرتا تھا۔ ازتکوں کے دیوتا زائب ٹوٹک کے بت کے سامنے آدمیوں کی زندہ کھال کھینچ کر قربانی دیتے تھے۔ قدیم فلسطین میں عام طور سے کوئ چٹان مذبحہ ہوتی تھی، جس پر انسان ذبح کئے جاتے تھے بعد میں بکری کے بچوں کی قربانی دینے لگے۔ کنعان میں بچوں کی قربانی دے کر انہیں مرتبانوں میں بند کر کے دفن کر دیا کرتے تھے۔ ایسے کئ مرتبان کھنڈروں سے برآمد ہوئے ہیں۔
ہندوستان میں کالی یا چنڈی دیوی کے بت کے سامنے نربلی (انسانی قربانی) دینے کا رواج تھا۔ آج کل کلکتہ میں اس کے معبد میں دو ڈھائ سو بکریاں روز قربان کی جاتی ہیں۔ وندھیا چل میں مرزا پور کے قریب کالی کا ایک مندر ہے جہاں ٹھگ آدمی کی قربانی دیا کرتے تھے۔
فراعنہء مصر کے دور حکومت میں ہر سال دریائے نیل میں بروقت طغیانی لانے کیلئے ایک حسین دوشیزہ کو دلہن بنا کر منجدھار میں ڈبویا کرتے تھے۔ آج کل ان دنوں میں مٹی کی مورتی بنا کرڈبوتے ہیں جسے عروسہ کہتے ہیں۔ کالدیہ اور اشوریا میں بعل مردوک کے مندروں کی قربان گاہیں انسانی خون سے سارا سال تر بتر رہتی تھیں۔ بعل کے بت کے سامنے پہلونٹی کے بچے ذبح کرتے تھے۔ یہودی اپنی فصلوں کے پہلے خوشے اور باغوں کا پہلا پھل معبد میں بھینٹ کرتے تھے۔ عرب اونٹ یا بکری کے پہلے بچے کو جس کو “فرع” کہتے تھے اپنے بتوں کے سامنے ذبح کرتے تھے۔
اموری مقدس کھمبے پر جو لنگ کی علامت تھا پہلے بچے کی قربانی دیتے تھے۔ آگا میمنون شاہ سپارٹا نے سمندر کے دیوتا کو خوش کرنے کیلئے اپنی بیٹی آئفی جینیا کی قربانی دی تھی۔ یہودی سپہ سالار جضنہ نے امونیوں پر فتح پائ تو اس خوشی میں اپنی بیٹی قربان کی تھی۔ یہودیوں کی خطا کی قربانی کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ خطا کی اجتماعی قربانی دینے کیلئے وہ سال میں ایک مرتبہ ایک بکرا لاتے جسے عورتیں، مرد اور بچے باری باری چومتے گویا اپنی خطائیں اس بکرے میں منتقل کر رہے ہیں۔ پھر اس بکرے (scapegoat) کو پہاڑ کی چوٹی سے دھکا دیکر کھڈ میں گرا دیتے تھے۔
فکرو نظر کی ارتقاء کے ساتھ انسان دوسروں کی قربانی دینے کے بجائے لذات دنیوی کی قربانی تجرد اور ریاضت کی صورت میں دینے لگا۔ راہب، جتی، سنیاسی وغیرہ عمر بھر مجرد رہنے کا عہد کر لیتے تھے۔ یہ اپنی ذات اور شباب کی قربانی تھی۔ یہ لوگ تیاگ اور تجرد کی آگ میں جل جل کر بھسم ہوتے رہتے تھے۔ اس غیر فطری زندگی نے نہ صرف جنسی بے راہ روی کا باب کھول دیا بلکہ کئ تارک الدنیا ذہنی اعتدال سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اپنے سلگتے ہوئے جنسی جذبے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے وہ بسا اوقات پیٹھ پر خار دار کوڑے برسایا کرتے اور اپنے آپ کو لہو لہان کر لیتے تھے۔مسیحی “اولیاء” کے سوانح اس پہلو سے نہایت المناک اور عبرت آموز ہیں۔
کلیسائے روم والوں کی سب سے بڑی قربانی کو عشائے ربانی کہتے ہیں۔ پال ولی نامہء کار نتھیاں میں کہتا ہے۔
“مجھے یہ روایت خداوند مسیح سے ملی جسے میں تم سے بیان کرتا ہوں کہ خداند یسوع نے اس رات کو جس میں مخبری کی گئ روٹی لے کر ادائے شکریہ کے بعد توڑی اور کہا “لو اسے کھاؤ، یہ میرا جسم ہے جو تمھارے واسطے توڑا گیا۔ بطور یادگار تم بھی ایسا کرنا” اسی طرح آپ نے پیالہ پیا اور اس میں تھوڑا پی کر فرمایا “یہ پیالہ میرے خون کا عہد جدید ہے جب کبھی تم پینا میری یاد میں ایسا ہی کرتے رہنا”
اس تقریب پر مسیحی روٹی کا ٹکڑا جناب مسیح کا بدن سمجھ کر کھاتے ہیں اور شراب ان کا لہو سمجھ کر پیتے ہیں۔اس رسم کی جڑیں قدیم ترین ٹوٹم مت تک جاتی ہیں جس میں لوگ اپنے ٹوٹم کو مل کر کھا جاتے تھے تاکہ اس کی مانا یا طلسماتی توانائ ان میں بھی سرایت کر جائے۔ لیکن بعض اہل تحقیق کے خیال میں یہ قربانی متھرا مت سے لی گئ ہے، جس میں روٹی کو متھرا کا بدن سمجھ کر کھاتے تھے اور پانی کو اس کا لہو سمجھ کر پیا کرتے تھے تاکہ اس کی برکت ان میں بھی نفوذ کر جائے۔ متھرا مت کی یہ رسم بھی ظاہراً ٹوٹم مت ہی سے ماخوذ ہے۔”
Greek and Roman Sacrifices
In sacrifices to the gods of the upper world, only certain portions were burned to the gods, such as thigh-bones or chine-bones out of the victim, some of the entrails, or some pieces of flesh with a layer of fat, rolled around the whole, together with libations of wine and oil, frankincense, and sacrificial cakes.
Roman sacrifices
The most common animal sacrifices in Rome were the suovetaurilia, or solitarily, consisting of a pig, a sheep, and an ox. They were performed in all cases of lustration, and the victims were carried around the thing to be lustrated, whether it was a city, a people, or a piece of land
Indeed, women were allowed to perform sacrifices in a wide range of places and under various conditions. First of all, some priestesses such as the Vestal Virgins performed sacrifices pro populo, ‘on behalf of the people’ (Ovid, Fasti 5.621). However, they were not the only ones enjoying this privilege.
ختم شد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply