• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان  کے  سیاسی حقوق کا مستقل اور  win-win  حل۔۔ محمد حسین

گلگت بلتستان  کے  سیاسی حقوق کا مستقل اور  win-win  حل۔۔ محمد حسین

حالیہ  احتجاجی لہر   کا پس منظر

گلگت بلتستان  میں شدید سردی کے باوجود علاقے  کے تمام دس اضلاع میں گزشتہ ایک ہفتے سے شٹر ڈاؤن ہڑتال   جاری ہے۔  مختلف اضلاع سے لوگ   دو سو سے تین سو   کلومیٹر  کے  دشوار پہاڑی راستوں سے گزر کر گلگت شہر  کی طرف   لانگ مارچ کر رہے ہیں۔  موجودہ  نیم صوبائی سیٹ اپ کے قیام کے بعد2012 میں کچھ ٹیکسز کے اطلاق کا فیصلہ ہوا، جسے وفاق کی طرف سے علاقے سے گزرنے والی پاک چائنہ اقتصادی راہداری کو قانونی چھتری دینے کے لیے علاقے پر بطور صوبہ    ٹیکسز کے نفاذ  کے اعلان پر شروع ہونے والا    یہ احتجاج گزشتہ دو مہینہ سے جاری ہے مگر اس میں شدت  اس وقت آئی جب حکومت نے   پچھلے مہینے کیے گئے  ٹیکسوں کے نفاذ کی منسوخی کے اعلان کے باوجود  وہ منسوخ  نہیں کیے۔

مختلف سیاسی،  مذہبی اور سماجی تنظیموں کی مشترکہ عوامی تحریک ’’   عوامی ایکشن کمیٹی‘‘  اور انجمن تاجران  کی کال پر دیے جانے والے اس احتجاج کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گلگت بلتستان کی مختلف طلبہ تنظیموں کی جانب سے راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور، کراچی کے پریس کلبوں  کے سامنے  بھی احتجاجی مظاہرے کیے جا  رہے ہیں۔   واضح رہے کہ اس سے پہلے   متنازعہ اور  پسماندہ  علاقے کی حیثیت سے گلگت بلتستان کو بھٹو دور سے حاصل سبسڈی کے خاتمے کے خلاف، پھر علاقے کے ہزاروں اراضی پر بلا  معاوضہ حکومتی قبضے کے خلاف اور سی پیک میں علاقے کو نظر انداز کیے جانے کے خلاف ،مختلف اوقات میں احتجاج ہوتا  رہا ہے۔  یوں یہ احتجاجی تحریک گزشتہ دور حکومت سے اب تک  پانچ سالوں سے جاری ہے  جس میں وقتا فوقتا شدت آتی جا رہی ہے۔

لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ جب تک انہیں آئینی حقوق نہیں دیے جائیں گے تب تک  علاقے پر ٹیکسوں کا نفاذ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔  اس لیے وہ یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ ’’حق دو  ٹیکس لو‘‘ گلگت بلتستان کے عوام بجا طور پر کہتے ہیں کہ پچھلے ستر سالوں سے ہم تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں۔ آئینی و دستوری لحاظ سے گلگت بلتستان صوبہ ہے اور نہ خود مختار ریاست اور نہ ہی آزاد جموں و کشمیر ریاست کا حصہ۔  یعنی ہمارا کوئی بھی شخص پاکستان کا صدر، وزیر اعظم، ممبر قومی اسمبلی و سینٹ،  عدلیہ،  انتظامیہ، اسلامی نظریاتی کونسل و غیرہ جیسے کسی بھی آئینی ادارے کا رکن سمیت کسی بھی بڑے منصب پر فائز نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح گلگت بلتستان  کا  کوئی باشندہ   ملک کے  کسی صوبے کا رکن  بھی نہیں بن سکتا۔  پاکستان کے دیگر صوبوں یا علاقوں کے حقوق اور گلگت بلتستان کے حقوق کے معاملے میں اس  بنیادی فرق کو بخوبی سمجھیے  کہ پاکستانی عوام کے عمومی حقوق  آئینی و قانونی طور پر تسلیم شدہ ہیں ، ان  کا معاملہ گڈ گورنینس یعنی بہتر طرز حکمرانی سے جڑا ہوا ہے  جبکہ گلگت بلتستان  کے  لوگوں کے آئینی و  سیاسی حقوق مکمل سلب ہیں وہ اصلاً  تسلیم ہی نہیں کیے گئے ہیں۔

گلگت بلتستان  بنیادی سیاسی حقوق سے محروم کیسے محروم ہے؟

بھارت اور پاکستان کے مابین  متنازعہ  کشمیر کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ بھارت کے زیر انتظام  جموں  و  کشمیر  ہے جس کو بھارت  کے آئین میں  عبوری طور پر  خصوصی  خودمختاری کا درجہ حاصل  ہے جس کے تحت اسے  راجہ سبھا اور لوگ سبھا  یعنی پارلیمنٹ اور سینٹ دونوں میں نمائندگی حاصل ہے۔  دوسرا حصہ پاکستان کے زیر انتظام خود مختار ریاست آزاد جموں و کشمیر  ہے  جسے  داخلی خود مختاری حاصل ہے  جبکہ تیسرا حصہ گلگت بلتستان ہے جسے نہ پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے اور نہ ہی داخلی خود مختاری بلکہ ایک غیر آئینی صوبے کا لولی  پاپ  دے کر علاقے کے بیس لاکھ  عوام  کو  بے وقوف بنا رکھا گیا ہے۔ الغرض    گلگت بلتستان ایسے تمام حقوق سے محروم ہے جو ایک متنازعہ علاقے کے لیے حاصل ہیں۔  جبکہ پاکستان  ہی کے زیر انتظام آزاد جموں و کشمیر ریاست کو دفاع، خارجہ اور کرنسی کے علاوہ تقریباً  تمام  دیگر  ریاستی  امور  میں  داخلی  خودمختاری  حاصل  ہے۔ ان کا اپنا صدر، وزیر اعظم، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ، پبلک سروس کمیشن  وغیرہ موجود اور فعال ہیں  اسی طرح سٹیٹ سبجیکٹ رول کے تحت سرزمین کشمیر کا تحفظ کیا جاتا ہے اور کوئی بھی غیر مقامی وہاں زمینوں کی خرید و فروخت نہیں کر سکتا۔

اگرچہ آئین پاکستان میں گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت  کا بھی ذکر موجود نہیں ہے مگر اقوام متحدہ  کے مسئلہ کشمیر  کے مطابق گلگت بلتستان متنازعہ کشمیر کا حصہ ہے۔ پاکستان کے پاس موجود دو حصوں میں سے ایک حصےیعنی آزاد کشمیر کو خود مختاری دی گئی ہے لیکن دوسری طرف گلگت بلتستان کو یہ خود مختاری حاصل نہیں ہے۔

گلگت بلتستان کے سیاسی حقوق کے حل کے لیے ممکنہ آپشنز

ممکنہ طور پر  کئی حل موجود ہیں،

پہلا  آپشن: پانچواں صوبہ

گلگت بلتستان کو   ملک  کا پانچواں  آئینی صوبہ بنایا جائے۔  مگر  اسے آئینی صوبہ بنانے کے لیے حکومت پاکستان کو اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر سے متعلق جمع قرارداد میں اپنے اصولی موقف میں تبدیلی اور پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم  لانی ہوگی جس کے بعد  علاقے میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جانا ہے۔ بھارت سے کئی جنگیں لڑنے، ہزاروں جانیں دینے اور کھربوں ڈالر کے قومی وسائل  خرچ کرنے کے بعد  کشمیر کی قیمت پر  شاید پاکستان  گلگت بلتستان کو کبھی بھی مکمل ٓئینی  صوبہ  نہ بنائے، اس کے علاوہ کشمیری قیادت بھی اس کی شدید  مخالفت کرتی ہے۔  پاکستان  نے یہ امید بھی لگا رکھی ہے کہ جب بھی مسئلہ کشمیر پر پیش رفت ہو اور پورے متنازعہ خطے میں استصواب رائے کیا جائے تو اٹھائیس ہزار مربع میل  سے زائد رقبے کے بیس لاکھ باشندے یعنی گلگت بلتستان کا ووٹ مکمل طور پر  پاکستان کے حق میں ہوگا جس سے مجموعی  صورت حال پاکستان کے حق میں جائے گی۔   ایک بہانہ یہ بھی   پیش  کیا جاتا ہے کہ  پاکستان جی بی کو فی الحال آئینی صوبہ نہیں بنانا چاہتا تاکہ بھارت کشمیر پر اپنا موقف مضبوط نہ کر لے۔   آئینی صوبہ نہ بنانے کے عزم  کا اظہار   مختلف وفاقی وزراء،  سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور رہنماؤں نے متعدد   بار کیا ہے۔

گلگت بلتستان  میں موجودہ صوبائی شکل کسی طور پر آئینی صوبہ نہیں ہے۔ موجودہ اسمبلی، گلگت بلتستان کونسل،  وزیر اعلی اور گورنر خالصتاً  نمائشی عنوانات  ہیں۔ ان کے   اختیارات دونوں ہی مقامی کونسلر سے بڑھ کر نہیں ہیں۔  موجودہ سیٹ اپ آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے جس میں گلگت بلتستان کے نام کا کوئی صوبہ وجود ہی نہیں رکھتا،  کسی بھی آفیشل دستاویز، قومی نصاب   سمیت  دیگر لٹریچر میں گلگت بلتستان کا  صوبے  کے طور پر  ذکر  کہیں نہیں  کیا جاتا  ہے۔ اسی  طرح عملی طور پر  قومی اسمبلی، سینٹ بین الصوبائی مفادات کونسل، این ایف سی ایوارڈ سمیت کسی بھی آئینی فورم پر گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ہے۔  وفاق اپنے ایک وزیر اور اپنی بیوروکریسی کے ذریعے اس علاقے کو انتظامی طور پر  کنٹرول کرتا ہے۔ چنانچہ گلگت بلتستان کے تمام کلیدی عہدوں پر وفاق ہی اپنے بندے بھیجتے ہیں۔ چنانچہ  علاقے کے معاملات میں وزیر اعلیٰ سے زیادہ چیف سیکٹری  کی حیثیت  فیصلہ کن اور اہم ہوتی ہے۔

آزاد جموں و کشمیر طرز کی داخلی  خود مختاری

دوسرا حل  داخلی خود مختاری  دینے کا ہے۔ جی بی عوام زمینی حقائق کا ادراک کرتے  ہوئے  مسئلہ کشمیر کے تصفیے تک  اب کشمیر طرز کی خود مختار ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کو داخلی ریاست کا درجہ ملنے کی صورت میں یہاں آزاد کشمیر کی طرح کرنسی، خارجہ پالیسی ، دفاع  اور مواصلات وغیرہ کے معاملے میں پاکستان جبکہ دیگر معاملات میں خود مختار ہوگا۔ گلگت بلتستان کی مقامی  سیاسی تنظیموں کا بنیادی موقف یہی ہے۔

آزاد  جموں و کشمیر ریاست میں انضمام

تیسرا ممکنہ مگر علاقے  کی عوام کے نزدیک انتہائی نا مطلوب آپشن یہ  بھی ہے  کہ گلگت بلتستان کو موجودہ آزاد کشمیر ریاست میں ضم کیا جائے۔  مگر ستر سالوں سے  کسی طرح تعامل نہ رہنے، جعرافیائی  دوری اور   وسائل و اختیارات میں تقسیم نیز سب سے بڑھ کر گلگت بلتستان کے عوام کے اس آپشن کے لیے غیر آمادگی کے باعث یہ حل انتہائی نامطلوب ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ

لہذا گلگت بلتستان کے بنیادی انسانی و سیاسی حقوق کے مسئلے پر حکومت پاکستان اسے مسئلہ کشمیر کے تصفیے تک آزاد کشمیر کی طرز پر داخلی خود مختاری دینے کے عزم کا اظہار کرے اور علاقے میں استصواب رائے (ریفرنڈم) کرانے کے لیے اقوام متحدہ کو ریفرنڈم کی نگرانی کرنے کی درخواست کرے۔۔ اس حل میں مسئلہ کشمیر پر بھی فرق نہیں پڑتا اور علاقے کو اس کی خواہش کے عین مطابق سیاسی حقوق پر مبنی خود مختاری بھی حاصل ہو جائے گی۔ یہی آسان ترین اور  ہر ایک کی جیت (win-win) حل ہے۔  پاکستان کے لیے بہتر یہی ہے کہ ستر سال سے پکتے ہوئے لاوے کو پھٹنے سے پہلے حل کرے۔

گلگت بلتستان   تزویراتی، دفاعی، اقتصادی اہمیت اور سماجی و سیاسی مسائل

پاکستان کے شمال مشرق میں موجود قدرتی وسائل سے مالا علاقہ گلگت بلتستان ہے  جس کی آبادی تقریباً     دو ملین  ہے   جس میں سے ایک چوتھائی آبادی تعلیم اور روزگار کی خاطر کراچی، راولپنڈی اسلام آباد اور لاہور سمیت دیگر شہروں میں بستی ہے۔ ساٹھ کی   دہائی میں علاقے  کا کچھ حصہ  (شقصم اور اقصائے چین) چین کو دیے جانے  اور سن اکہتر اور اٹھانوے میں کچھ سرحدی علاقے بھارت کے قبضے میں چلے جانے کے بعد  گلگت بلتستان کا موجودہ  رقبہ تقریباً  خیبر پختونخوا کے برابر اور  آزاد جموں کشمیر سے تقریباً  چھ گنا بڑا  یعنی  اٹھائیس ہزار ایک سو چوہتر  مربع میل پر مشتمل  ہے۔ دنیا  کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کے،   دنیا کی  14  بلند ترین چوٹیوں میں سے 5 چوٹیوں کے علاوہ چھ  ہزار میٹر بلندی کی   کئی درجن  برف پوش اور فلک شگاف چوٹیوں،  ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش کے عظیم ترین پہاڑی سلسلوں ، دنیا میں  گلیشئرز کا دوسرا   بڑا ذخیرہ، دنیا کی  سب سے زیادہ بلندی پر موجود  سب سے بڑا میدان دیوسائی (پانچ ہزار مربع کلومیٹر کا  سرسبز رقبہ)، سطح مرتفع پر پہاڑی سلسلوں  کے درمیان دنیا کا سب سے بلند ترین صحرا  بھی اسی علاقے میں موجود ہے۔  پاکستان کو سب سے زیادہ سیراب کرنے والے دریائے سندھ کا  آبی ذخیرہ  نیز درجنوں  خوب صورت جھیلیں  اور آبشاریں اور چشمے اسی علاقے  میں موجود ہیں۔ نادر آبی  و جنگلی حیات کے علاوہ طرح طرح کے پھولوں، پھلوں اور قدرتی معدنیات  اور قیمتی پتھروں کا  ذخیرہ بھی  یہاں پایا  جاتا ہے۔ یہ علاقہ  دنیا کے  بڑے آبی ذخائر میں سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ   بلند  پہاڑی ندیوں سے گرنے والے پانی سے براہ راست   یا   ڈیم  بنا کر   اس  سے پچاس ہزار میگاواٹ   نہایت سستی بجلی پیدا کرنے کی   پوٹینشل موجود ہے۔

مختلف پہاڑی وادیوں میں آباد گلگت بلتستان  تاریخی  و ثقافتی طور پر  مختلف تہذیبوں ، مذاہب، نسلوں اور زبانوں کا مرکز رہا ہے۔  آج بھی مختلف نسلی گروہ، زبانیں، اور متنوع ثقافتی روایات سے یہ علاقہ اپنی قدرتی  خوبصورتی  کو تہذیبی رنگوں سے ملوّن کر رہا ہے۔       بلتی، شینا، بروشاسکی، واخی، کھوار سمیت  ہندکو، کشمیری، پشتو  زبانیں یہاں بولنے والے موجود ہیں۔تعلیمی اداروں کے فقدان کے باوجود شرح خواندگی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی شرح   پاکستان  کے دیگر علاقوں سے زیادہ بلند ہے ، سماجی طور پر جرائم  کی شرح بہت کم ہے ۔ جبکہ   مذہبی ہم آہنگی اور امن کا  گہوارہ یہ علاقہ پاکستان بھر کے لیے مثال ہے ۔ یہاں شیعہ سنی، اہل حدیث، اسماعیلی اور نوربخشی سبھی بھائیوں کی طرح رہتے ہیں سیاسی طور پر ،  مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی،   پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، اسلامی تحریک اور مجلس و حدت مسلمین سمیت پاکستان کی  بڑی قومی سیاسی جماعتیں یہاں کی  مقامی سیاست میں حصہ لیتی ہیں جبکہ چند قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔

علاقے  کے تقریباً  سارے  لوگ اوسط درجے کے ہیں جن کا ذریعہ معاش  زراعت،  مال مویشی، یا ملازمت  پیشہ ہے۔ جبکہ تجارت و سیاحت کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔   تعلیم، صحت، صنعت  و تجارت  اور سیاحت  کے لیے انفراسٹرکچر کا شدید فقدان ہے ۔2002میں قراقرم یونی ورسٹی بننے تک  علاقے میں ایک بھی قابل  ذکر  اعلیٰ تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔  جبکہ ابھی بھی کوئی  میڈیکل کالج، انجیئرنگ کالج سمیت کوئی بھی پروفیشنل ادارہ، تحقیق، زراعت  اور معدنیات کے لیے کوئی سرمایہ کاری نہیں گئی۔    پاکستان کو گلگت بلتستان کے صرف وسائل اور خوبصورتی  سے دلچسپی رکھنے  کے علاوہ  یہاں بنیادی مسائل و حقوق  پر توجہ دینی ہوگی۔

جعرافیائی طور پر  یہ متنازعہ علاقہ اپنے اطراف میں چار  ممالک  (پاکستان، چین، انڈیا اور افغانستان جن میں سے تین ایٹمی طاقتیں ہیں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت چین کا ون بیلٹ ون روٹ  منصوبے کے تحت چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)  اسی متنازعہ خطے سے گزر رہا ہے۔راہداری کے ذریعے  چائنہ کو  پاکستان  سے ملانے  کے لیے  اس علاقے سے  پانچ سو کلومیٹر   سے زائد کا راستہ طے ہوگا۔  سنگلاخ پہاڑی سلسلے میں  سی پیک کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔   مگر اس اہم منصوبے کے نہ کسی اہم بین الممالک اجلاس میں گلگت بلتستان کو سٹیک ہولڈر کے طور پر حیثیت دی گئی اور نہ ہی یہاں  باقی صوبوں کی طرح منصوبے لگائے جا رہے ہیں۔    جو لوگوں کے احساس محرومی  کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔

انسانی حقوق کی پامالی کا معاملہ بھی انتہائی سنگین ہے۔ اس میں ہزاروں ایکڑ  اراضی پر  بلا معاوضہ سول و عسکری اداروں کا قبضہ کرنا،   آزادی اظہار پر قدغن لگاتےہوئے   سیاسی مسائل  و  حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے  دسیوں   سماجی کارکنوں  پابند سلاسل ہیں، ان مسائل پر انسانی حقوق کمیشن  پاکستان کی کئی رپورٹوں میں تشویش کا اظہار بھی کیا گیا۔   چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان میں   پبلک  سروس کمیش  نہ ہونے کے باعث کلیدی عہدوں کے لیے غیر مقامی اور نچلے گریڈ کی ملازمتوں  کے لیے مقامی افراد    کا کوٹہ مختص کرنے کے مسائل تسلسل  کے ساتھ  پیش آ رہے ہیں، سن اکہتر اور  اٹھانوے کی جنگوں سے متاثر ہونے والے سرحدی مہاجرین  کے لیے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے باعث سینکڑوں مہاجرین بے گھر  ہو کر در بدر ہو  رہے  ہیں۔   واہگہ بارڈر اور آزاد کشمیر  بارڈر پر سرحد کی دونوں طرف تجارت بھی اور آمد و رفت بھی جاری ہے مگر  بلتستان   کے سرحدی علاقے  کھرمنگ کرگل بارڈر  مکمل طور پر تجارت و  آمد و رفت کے لیے بند ہے جس کے باعث تقسیم اور جنگوں کے دوران بچھڑنے والے خاندان دونوں طرف  بہت ہی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔   سوست بارڈر  کے محصولات سمیت تمام اہم  محاصل وفاق لے جاتا ہے جبکہ  شاہراہ  قراقرم، دریائے سندھ، اور سالانہ  لاکھوں بین الاقوامی  سیاحوں سے لیے جانے والے ریوینو سے گلگت بلتستان کو کوئی حصہ نہیں دیا جاتا جبکہ متنازعہ علاقے ہونے کے باعث ان سب پر اولین حق علاقے کا ہی بنتا ہے۔

حالیہ احتجاج کی شدت کی بنیادی وجہ یہی وہ سارے عوامل ہیں جو علاقے کے احساس محرومی میں اضافہ کرنے اور لوگوں کے غم و غصے کو بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ وفاق کو   گلگت بلتستان کی داخلی خود مختاری کے لیے فوری طور پر  سیاسی اصلاحات کے عمل کو تیز کر کے اس حساس سرحدی اور تزویراتی علاقے کو مستحکم کرنے میں ستر سال گزرنے کے باوجود مزید تاخیری حربوں سے کام نہیں لینا چاہیے، کیونکہ خظے  کی تعمیر و ترقی کے لیے اہم ترین عنصر سمجھا جانے والی چین پاکستان اقتصادری راہداری  مضبوط و مستحکم اور پُرامن گلگت بلتستان   میں ہی مضمر ہے۔  ہر احتجاج  اور تحریک کو سازش کھاتے میں ڈال کر  پاکستان  کے کسی بھی  آئینی صوبے سے بڑھ کر اس کے لیے ہزاروں افراد کی قربانی دینے والے علاقے کی بے لوث  محبت  و وفاداری  پر سوال اٹھانے کے بجائے بنیادی انسانی حقوق سے متعلق گلگت بلتستان کے سنجیدہ  مسائل کو فوری حل کرے۔

Save

Save

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

محمد حسین
محمد حسین، مکالمہ پر یقین رکھ کر امن کی راہ ہموار کرنے میں کوشاں ایک نوجوان ہیں اور اب تک مختلف ممالک میں کئی ہزار مذہبی و سماجی قائدین، اساتذہ اور طلبہ کو امن، مکالمہ، ہم آہنگی اور تعلیم کے موضوعات پر ٹریننگ دے چکے ہیں۔ ایک درجن سے زائد نصابی و تربیتی اور تخلیقی کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کرنے کے علاوہ اندرون و بیرون پاکستان سینکڑوں تربیتی، تعلیمی اور تحقیقی اجلاسوں میں بطور سہولت کار یا مقالہ نگار شرکت کر چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply