وسعت اللہ خان کے نام/نیّر نیاز خان

مکرمی وسعت اللہ خان صاحب!

آداب
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہونگے اور مظفرآباد یاترا سے اپنے وطن واپس پہنچ گئے ہوں گے ۔ میں ایک مدت سے بی بی سی اردو اور دیگر اردو اخبارات میں آپ کے کالم اور مضامین جو “بات سے بات ” کے عنوان سے  پبلش ہوتے ہیں باقاعدگی سے پڑھتا ہوں ۔ میں تاریخ ، سماجیات اور سیاسیات کا ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے ناطے اس حقیقت کو مان چکا ہوں کہ سماجی اقدار جو برصغیر کے نیم ایشیائی خطے کا تاریخی طور پر ایک مثالیہ رہی ہیں ۔ 1947 کے بٹوارے کے بعد دونوں راجدھانیوں کے انتظامی سنگھاسن پر براجمان سیاسی اشرافیہ نے کب سے ان کا بیڑہ غرق کر دیا ہے ۔ یہی حال دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کی ترویج سے درباری صحافت بھی ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ لیکن وسعت اللہ خان صاحب “بات سے بات ” کو پڑھتے رہنے سے صحافتی دیانتداری کا کریڈٹ آپ کو ہر باضمیر اُردو بین دیتا ہے ۔ وہ اس لیے کہ آپ نے قلم کی حرمت کا مشکل سے مشکل وقت میں بھی خیال رکھا ۔ اگر آپ پورا سچ کہیں نہ بھی لکھ سکے تو کم از کم جھوٹ کو سچ بنانے کا گناہ آپ سے سرزد نہیں ہوا۔ سچ کی تلاش میں محوِ  سفر عام لوگ آپ کی اس بے باکی پر آپ کو ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد رکھیں گے۔

گزشتہ ہفتے آپ حامد میر اور عاصمہ شیرازی کے ساتھ مظفرآباد میں جموں کشمیر کے مسئلے سے جڑی سیاسی منڈی جو کہ کسادبازاری میں ہنوز ایک منافع بخش صنعت ہے کا ذکر کر رہے تھے کہ پنڈال میں موجود چند نوجوانوں کے دلوں کو آپ کی باتیں چھو گئیں ۔ بے یقینی کی ہیجانی کیفیت میں انہیں محسوس ہوا کہ کوئی تو ان کی ترجمانی کر رہا ہے ۔ وہ نوجوان کوئی آپ سے نالاں نہیں تھے۔ انہوں نے جب اتنے بڑے آدمی کے منہ سے وہ سچ سنا جس کی پاداش میں مظفرآباد کی سیاسی اشرافیہ نے انہیں یا ان کے سیاسی کامریڈز کو کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا ۔ ان سیاسی کارکنوں پر روزگار کے مواقع بند کر دئیے ، انہیں دہریہ ، انڈین ایجنٹ ، اسلام دشمن اور پتہ نہیں کیا  کیا نام دئیے گئے ۔ آپ کی گفتگو میں انہیں امید کی کرن نظر آئی ۔
ان نوجوانوں نے چند نعرے لگائے کہ
یہ وطن ہمارا ہے
اس کا فیصلہ ہم کریں گے
اس پہ حکومت ہم کریں گے
اس کی حفاظت ہم کریں گے

مکرمی وسعت اللہ خان صاحب!
ان نعروں کی تاریخی ابتداء 1970 میں ہوئی جب مقبول بٹ محاذ رائے شماری کے صدر منتخب ہوئے ۔ اپنے صدارتی خطبے میں مقبول بٹ صاحب نے یہ نعرے متعارف کروائے۔ انہی نعروں کو حقیقت میں بدلنے کے سیاسی سفر میں لاہور کے شاہی قلعہ ، مظفرآباد کے دلائی کیمپ اور سرینگر کی سنٹرل جیل میں مقبول بٹ کو برصغیر کی توسیع پسند سیاسی اشرافیہ نے تشدد کا نشانہ بنایا اور بالآخر دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی پر چڑھا کر جسد خاکی کو ابھی تک قید میں رکھا ہوا ہے ۔

خان صاحب! کشمیری آزادی پسند نوجوانوں کو جب بھی کہیں امید کی کرن نظر آتی ہے تو وہ مقبول بٹ کے سچ کو حتمی ماننے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ اس لیے کہ آپ بھی اپنی گفتگو میں جس منافع بخش صنعت اور اس سے مستفید ہونے والوں کے نام گن رہے تھے تو کیا وہ نوجوان ان سیاسی بیوپاریوں کے دئیے گئے نعرے لگاتے یا سچ کی خاطر پھانسی کو ہنستے ہوئے چومنے والے اپنے قومی ہیرو کے ؟
صاحب یہ کیا آپ جیسا دھیمے مزاج اور لہجے والا سیاسی تجزیہ نگار اور کہنہ مشق صحافی مظفرآباد کے ان بدتمیز بچوں کو ایک منٹ تک بھی برداشت نہ کر سکا اور نہ صرف پروگرام سے اٹھنے کی کوشش کی بلکہ ان پر کسی ایجنڈے کے تحت پروگرام خراب کرنے کا اسلام آباد کا سرکاری الزام بھی لگا دیا۔

خان صاحب! ساحر لدھیانوی نے یہ شعر کسی اور واقعہ پر لکھے تھے لیکن آپ تو اردو ادب کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں ۔ یہی شعر یاد کر کے صبر کر لیتے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہو گی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے

ذی وقار!
ان نوجوانوں سے پہلے والی نسلوں نے آپ کے ملک پر طویل عرصے تک سیاسی اعتبار کیے رکھا۔ پھر آپ کے ملک کے بڑوں کے کہنے پر تین دہائیاں قبل بندوق بھی اٹھائی ۔ ایک لاکھ سے زائد زندگی کی بازی ہار گئے ۔ کئی ہزار نوجوان بیوہ عورتیں یتیم بچوں کو پالنے پر مجبور ہوئیں ۔ کئی ابھی تک غائب ہیں اور آپ کا کارپوریٹ میڈیا ابھی تک غزوہء ہند کے مجاہدین اور دہلی کے لال قلعہ پر پرچم لہرانے والوں کو پرائم ٹائم میں پروموٹ کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا ۔

صاحب ذی وقار!
یہ نوجوان اور کس طرح اظہار کرتے ؟ آپ ہی بتا دیجیے ناں۔ کیا آپ اور آپ کے ساتھ مظفرآباد یاترا پر جانے والا کوئی بھی صحافی اتنی ہمت کر سکتا ہے کہ وہ ان نوجوانوں کو پرائم ٹائم نہ سہی کسی عام سے پروگرام میں بٹھا کر انہیں یہ بات کہنے کا موقع فراہم کرے کہ وہ یہ بتا سکیں کہ ان کی نسلوں ، ان کی دھرتی اور ان کے وطن کے ساتھ ناکام دو قومی نظریے کے نام پر کیا کھیل رچایا گیا ؟ آپ کے آئینی ملک کے آئین کے آرٹیکل 257 کے تحت آپ کا ان نوجوانوں اور ان کے مقبوضہ ملک کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کا ذکر جو آپ کے ملک کی سیاسی اشرافیہ ہر تقریر میں کرتی ہے کیا آپ اپنے کسی پروگرام میں کشمیر کے کسی آزادی پسند کو بٹھا کر ان قراردادوں کی اصلیت جاننے کی کوشش کریں گے یا پھر مطالعہ پاکستان میں لکھے گئے مقدس جھوٹ پر اپنے قومی بیانیے کو ہی پروموٹ کرتے رہیں گے ؟
نہیں صاحب! آپ کے جمہوری نظام میں ایسے چمتکار کی گنجائش نہیں۔
تو پھر آپ جیسا کہنہ مشق اور جہاندیدہ دانشور ہی کوئی صلاح مشورہ دے دے کہ مظفرآباد کے یہ بدتمیز بچے کون سے پلیٹ فارم سے یہ پیغام دیں کہ ہمیں اب مزید غلام نسلوں کو پیدا کرنے اور مظفرآباد کی لولی لنگڑی طفیلی حکومت کو آزاد حکومت کہنے کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔

اچھا آپ ہی بتا دیجیے وہ کیا نعرے لگاتے؟ آپ کو صرف ہلڑ بازی پر غصہ آیا یا پھر نعروں سے چھلکتے واضح پیغام پر؟ اگر یہ نعرے لگتے تو بھی آپ کا ردعمل یہی ہوتا کیا؟
بدلا ہے پاکستان اب بدلے گا کشمیر
پاکستان سے رشتہ کیا وغیرہ وغیرہ

کسی خطے کی عوام کے لیے پون صدی سدھرنے کے لیے بہت ہوتی ہے صاحب ۔ نائن الیون کے بعد یہی نعرے سیاسی ہتھیار کے طور پر رہ گئے ہیں ۔ آپ کے تہذیب یافتہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا تو ان حقائق کو جگہ دینے سے قاصر انہیں اپنی سرزمین پر چیخنے کا حق تو دیجیے ناں عالیجاہ!

آپ کو یاد کرواتا چلوں کہ لگ بھگ بیس سال پہلے آپ اپنے آنجہانی صدر پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے کو لے کر سرینگر بھی گئے تھے اور وہاں پر کشمیر یونیورسٹی کے بدتمیز بچوں نے آپ سے کچھ ایسے ہی سوالات پوچھے تھے اور کچھ حقائق بھی بتائے تھے جو مطالعہ پاکستان والے ایک صفحے والے مسئلہ کشمیر کے حل کے برعکس تھے۔ کچھ یاد آیا کہ نہیں؟
ارے جانے دیجیے ناں صاحب آپ خواہ مخواہ پریشان نہ ہوں کہ سرینگر کے بدتمیز بچوں کے سوالات اور مظفرآباد کے بدتمیز بچوں کے نعروں میں اتنی مماثلت کیوں ؟
آپ کی مشکل تھوڑی آسان کیے دیتا ہوں کہ مماثلت اس لیے کہ آپ کی قومی اشرافیہ کے پیدا کردہ مسئلہ کشمیر اور اس سے جڑی دانستہ یا نادانستہ حماقتوں نے مظفرآباد اور سرینگر میں ایک جیسی سوچ کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔

بات لمبی نہ ہو جائے خیر کبھی آپ کو آپ کے وفاق کے ترجمانوں برجیس طاہر، فیاض الحسن چوہان ، علی امین گنڈاپور اور اس قماش کے دیگر لونڈوں لپاڑوں کی کشمیریوں کی سر عام ہتک کرنے پر بھی غصہ آیا تھا ؟
خیر بات ختم کرتے ہیں ۔ ہاں یاد آیا چاچا بخشو کو آج کل کوئی نیا پروجیکٹ ملنے والا ہے کیا؟
اپنا خیال رکھیے گا

Advertisements
julia rana solicitors london

جواب کے منتظر
بے وطن کشمیری!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply