میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(13)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

گزشتہ اقساط پڑھنے  کے لیے لنک پر کلک کیجیے

https://www.mukaalma.com/author/gohar/

قسط تیرہ
قفس میں جینے کے کچھ بہانے۔ مذہبی تہوار

محرم اور صفر کے بعد ربیع الاوّل کا مہینہ مسلمانوں کے ہر فرقہ کے لیے یکساں اہم ہے۔ ہمارے پیارے نبیﷺ  کی ولادت کا مہینہ ۔اس طرح آمنہ بی بی کے گلشن کی بہار نے قفس میں طاری خزاں کی رُت ہی بدل دی۔ مغرب کی نماز اور رات کے کھانےکے بعد، عید میلاد النبی ﷺ کی محفلیں ہوتیں۔ عورتوں کے لیے علیحدہ بیرک میں انتظام ہوتا۔ یہ بیرکیں بہت روشن تھیں۔ جو شاید قفس کی گھٹن سے ذہنی طور پہ آزاد محسوس کروانے میں مدد گار تھیں  ۔ میلاد والے دن بڑے اہتمام سے نعتیں اور تقاریر پڑھی اور سنی گئیں۔ اگر بتی کی مہک اور گُل پاشی نہ سہی لیکن یہی  کیا کم تھا کہ اس محفل کو سجانے کی اجازت ملی تھی۔ گو واچ ٹاور سے سنتری ہماری ساری کاروائیاں دیکھ سکتے تھے۔ میلاد کی محفل کے بعد ٹافیاں بانٹیں گئیں  جو لوگوں نے اپنے ٹوکنز جمع کر کے خریدی تھیں۔ اس طرح مذہبی اور ثقافتی سرگرمیاں ذہنی طور پہ مثبت ثابت ہورہی تھیں۔خاص کر ان لوگوں کے لیے جو اس صورتحال میں ڈیپریشن اور ہیجان میں مبتلا تھے۔

جب کچھ اور وقت گزرا اور ایک دوسرے سے قربت اور گفتگو کا وقت ملا تو مذہب میں سکون پانے والے مرد حضرات نے پانچ چھ افراد پہ مبنی تبلیغی جماعت کی ٹولی بنالی ۔ جس میں میں ایک صاحب امیر ہوتے،جو تبلیغ کرتے اور باقی سر جھکاۓ ان کے ساتھ ہوتے۔ یہ گروہ لوگوں کو دین کے راستے کی ترغیب دیتا ، نماز کے طریقے اور راست بازی اور نیکی کا درس دیتا۔ میں بھی اس گروپ میں شامل ہوگیا۔ جب درس ہوتا تو ہاتھ باندھ کے ایک طرف کو کھڑا ہوجاتا۔میرے دل پہ ان باتوں کا بہت اثر ہوتا تھا۔

اس گروہ میں ٹی این ٹی میں کام کرنے والے ایک صاحب بھی تھے،نام تھا رفیق ،لمبے سے دبلے پتلے سے نوجوان ، تعلق پنجاب سے تھا۔ان کا خاندان ان کے ساتھ نہیں تھا۔ وہ حافظ قرآن تھے ۔ میں نے ان کی نگرانی میں قرآن مجید دہرایا، جو میں پہلے ہی ختم کر چکا تھا۔ بہت شفیق تھے اور مجھے اچھی اچھی باتیں بتاتے ۔ابّی کی ذہنی حالت کے سبب میں ان کے قریب ہوگیا اور ان کو بڑے بھائی  اور استاد کی صورت دیکھنے لگا۔اس طرح رفیق بھائی  نے قید میں رفاقت کا حق کیا خوب ادا کیا۔اس گروہ میں میرے چچا زاد بھی شامل تھے جو مجھ سے ڈھائی  تین سال بڑے تھے۔ ہم تو کچھ عرصے رہ کے اس گروہ سے نکل گئے۔ لیکن انہوں نے داڑھی رکھ لی اور پاکستان آنے کے بعد بھی ایک تبلیغی جماعت سے وابستہ رہے۔

رمضان کا مہینہ بھی آیا ، ہر قِسم کے  اہتمام کے بغیر ۔ بس روزہ  داروں کو کھانا، سحری اور افطاری کے وقت مل جاتا۔ چاۓ کا مگ افطاری میں ملتا۔ جو لوگ روزہ نہ رکھتے وہ اس کھانے کو بچا کر دیر میں کھا لیتے۔

عید کا اعلان انڈیا ریڈیو کی خبروں سے ہُوا تو ہم سب نے عید ایک ہی دن منانے کا فیصلہ کیا۔ یہ نہیں کہ آدھے لوگ ایک دن اور آدھے دوسرے دن عید منا رہے ہیں۔ سب نے متفقہ طور پہ طے کیا کہ کل ایک وقت میں عید کی نماز ہوگی۔نہ شعیہ نماز ،نہ سنی۔

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوۓ

ہمیں کون سے نئے کپڑے اور خوشبوئیں لگانی تھیں۔ ہمارے پاس گنتی کے کپڑے تھے جو روز دھوتے اور پہنتے اور پھر اس کے اوپر قیدیوں والی قمیض۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ یہ قناعت و سادگی ہماری مرضی نہیں بلکہ اسکے بغیر چارہ نہ تھا۔ عید والے دن دو بالو شاہی فی کس باٹیں گئیں  اور اس دن نہ صرف خاندان سے ملاقات کا وقت دو گھنٹے کردیا بلکہ روزانہ کا کام بھی برخاست کردیا گیا۔اور یہی  سارا اہتمام بقرعید پہ بھی کیا گیا۔قید میں عید مناتے ہوئے ان عیدوں کی یاد دوبالا ہوگئی جو وطن کی آزاد فضا میں ساتھ منائی جاتی تھیں۔جب میرے چھوٹے بہن بھائی امی سے پوچھتے کہ ہم ویسے عید کیسے منائیں گے جیسے پہلے مناتے تھے تو امی کا جواب ایک تسلی ہوتا “پریشان مت ہو۔ اگلی عید ہم پاکستان میں منائیں گے ۔ اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply