عارف خٹک کی سائیکل۔۔۔ عارف خٹک

میرا ابوظہبی میں بسیرا ایک ایسی جگہ ہے جہاں صرف امریکنیاں اور کینڈین خواتین رہتی ہیں۔ تیس اپارٹمنٹس میں واحد اپارٹمنٹمیرا ہے جہاں صرف مرد پایا جاتا ہے اور وہ میں ہوں۔ ابوظہبی آتے ہی بیگم سے کہا! “بیگم مجھےایک عدد سائیکل چاہیئے میری فٹنسکا سوال ہے۔ بیگم نے منہ بنا کر جواب دیااس منہ میں مزید رکھا کیا ہے جس کو اور کمزور کرنا ہے۔ مطلب یہ کہ میرے سائیکلکا خواب محض خواب ہی رہے گا؟ مگر وہ خٹک ہی کیا جو باپ یا بیوی سے سنھبلے۔ سو ہم نے بھی آنلائن سائیکلیں ڈھونڈنی شروع کردی۔ صبح شام سڑکوں پر دوڑ سے تھک جاتا تو ایک دو گوریوں کیساتھ دوستیاں گانٹھ لیں کہ مجھےبھی کتے کا پالنے بڑا شوق ہے۔ وہعجیب حیرت سے مجھے دیکھتی اورکہتی کہ

مسلمان بڑے کافر ہوتے ہیں وہ تو ان معصوم بے زبانوں سے نفرت کرتے ہیں تم اتنے رحم دل کیسے ہو؟۔

میں اپنی جانورں سے محبت کا اظہار یوں کرتا کہ اٹھ کر ان کا کتا چٹاچٹ چومنا شروع کردیتا۔ وہ حیرت و استعجاب سے مجھے دیکھ کرواریاں واریاں ہونے لگتیں۔ کتوں کی یہ مالکانیاں بڑے زرخیز جسموں کی مالک تھیں اور میں کتوں کے منہ یہ سوچ کر بھی چومتا کہاس منہ نے بھی ان جگہوں کو چاٹا ہوگا۔

ایک دن بدقسمتی سے بیگم نے چماچاٹیوں کیساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ دو دن گاوں والوں کے ڈیرے میں رہا۔ بالآخر اس شرط پر گھرواپسی ممکن ہوئی کہ وہ سائیکل لینے پر کوئی اعتراض نہیں کریں گی۔

ایک دن نیٹ گردیاں کرتے کرتے ابوظہبی شہر میں ایک سائیکل کے اشتہار پر نظر پڑی۔ سائیکل کی تصویر دیکھ کر دنگ رہ گیا کہاسپورٹس سائیکل مالکن بیس ہزار کی بیچ رہی ہیں۔ سو فورا سے پیشتر ابوظہبی پہنچ کر سائیکل کی مالکن کو شیشے میں اتارا اور ایک لاکھ کیسائیکل اٹھ ہزار میں خرید لی۔  سائیکل کا سودا ہوتے ہی میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر غائب ہوجاوں مبادا مالکن کا ارادہ کہیںبدل نہ جائے۔ سائیکل کو گاڑی کےساتھ باندھ کر واپس اپنے شہر پہنچا تو رات کے دو بج چکے تھے۔ سائیکل کو جیسے ہی گاڑی سےاتارا فورا سیٹ پر بیٹھ کر پیڈل مارا اور یہ جا وہ جا۔ بیگم پیچھےسے آوازیں دیتی رہ گئی کہ کل صبح چلا لینا۔ اب بیگم کو کون سمجھاتا کہموت کا کیا بھروسہ کہ کل صبح کس نے دیکھی ہے۔

فرط جذبات میں آکر سائیکل گلیوں سے نکال کر مرکزی سڑک پر لے گیا، اور اتنی رفتار سے بھگانی شروع کردی کہ کار والے حیرتسے مجھے دیکھنے لگے کہ ایسا بائیکر انھوں نے  شایدپہلی بار دیکھا تھا۔ اچانک سامنے سگنل آگیا جس کی بتیاں سرخ ہوگئی تھیں اور میںنے آگے پیچھے بریک زور سے لگانے چاہے مگر یہ کیا؟ سائیکل کو فرق ہی نہیں پڑا۔ سائیکل زوم سے سگنل توڑتی ہوئی دوسری طرفنکل گئی۔ قسمت اچھی تھی کے مخالف سمت سے کسی گاڑی نے ہٹ نہیں کیا۔ گھبراہٹ میں سڑک کنارے لگے کھمبے کو کس کرپکڑا اور کم بخت سائیکل پیروں کے نیچے سے نکل فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور میں کسی بدکردار سگ کی طرح کھمبے سے لٹک گیا۔

گھر لنگڑاتا ہوا آیا۔اور ایک کونے میں پڑ کر سو گیا۔

اگلے دن سائیکل کو ایک بنگالی مستری کی دوکان پر لے کر گیا۔ اس نے انیس سو اکہتر میں پاکستانی فوج کی تمام زیادتیوں کا بدلہ مجھسے کچھ اس طرح لیا کہ اس نے دونوں بریک مبلغ پانچ ہزار میں ڈال کر دیئے۔پوچھنے پر بولا صاب اشپورٹس سائیکل کے پارٹساتنے ہی مہنگے ہوتے ہیں۔ساتھ ہی جاتے جاتے جتلادیا کہ بھیا ٹائر بھی بدلوا لو گھس گئے ہیں۔ ہم نےمزید اٹھ ہزار کا خرچہ نظر اندازکیا اور سائیکل گھر کے کر آگئے۔ شام کو فرنگیوں کی ہواخوری کا وقت ہوا ہم نے بھی سائیکل نکالی اور ایک ادائے دلبری سےسائیکل کو ایڑھ لگائی۔ سامنے سے ایک تھنتھناتی ہوئی چھ فٹ کی انگریزنی آئی اس نے باچھیں پھیلا کرہائےکہا اور ہم سدا کےٹھرکی یہ بھول گئے کہ سائیکل چلا رہے ہیں دونوں ہاتھ اٹھا کرہائےکا جواب دینا چاہا ہی تھاکہ سائیکل تیر کی طرح اس کے بھرےبھرے رانوں کے بیچ گھس گئی۔ اگلے لمحے ہمارا منہ وہیں تھا جہاں ہم نے ہمیشہ اس کے کتے کا دیکھا تھا۔ ہمیں اپنے آپ رشکآگیا کہ اچانک پیچھے سے بیگم کی چنگھاڑتی ہوئی آواز آئی

مزید بیغرتیاں بس کردو۔ آجاؤ جو کرنا تھا کرلیا باقی کام گھرآ کے کرلینا۔

متوقع بےعزتی کے ڈر سےاسی وقت بنگالی کی دوکان پر چلا گیا کے بھائی ٹائر بدل دو، ہارن بھی لگا دو اور ایک ہلمٹ بھی دیدو تاکہمرکزی سڑک پر گاڑیوں کے ساتھ سائیکل باآسانی چلائی جاسکے۔ دوکان سے نکلتے ہی معلوم ہوا کہ پندرہ ہزار کا ٹیکا لگ چکا ہے۔ واپسمڑا اور کینہ توز نظروں سے بنگالی کو گھورا۔ اتنا خرچہ؟۔

آگے سے اس نے میرے اندر کے غرور کو مزید ہوا دی۔

بھائی شوب یہ اشپورٹس سائیکل ہے لاکھوں کی ہے اس کے پارٹس مہنگے ہیں۔

ہیلمٹ پہن کر سائیکل مرکزی سڑک پرایڈی میریکسکی طرح بھگانی شروع کردی۔ابھی چند گز کا فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ نکڑ سےپولیس کی گاڑی نے ہوٹر بجاکر میرا رستہ کسی پشتو فلموں کے ولن کی طرح روکا۔

روڈ پرمٹ دیکھائیں اور اپنے کلب کا کارڈ دیکھا دیں۔

میں ہونقوں کی طرح ان کا منہ دیکھنے لگا۔ جب کوئی بہانہ نہیں بنا تو رونی صورت بنا کر ان کو بتایا کہ رستہ بھول چکا ہوں۔ اماں کییاد آرہی ہے۔ ویزٹ ویزے پر آیا ہوں۔ ان کو مجھ پر ترس آگیا۔ گاڑی میں بٹھا واپس گھر لاکر سائیکل سمیت بیگم کے سپرد کر دیا۔

اگلے دن چھوٹی سی چڈی پہن کر اپنی بلڈنگ سے نکلا کہ سامنے کچھ کالی و زرخیز امریکی خواتین بمعہ پٹھان چوکیدار کے حسرت سےمیرے بھرے بھرے ڈولوں اور رانوں کو دیکھنے میں مصروف عمل تھیں۔ میں نے بالوں کی لٹ کو بے نیازی کیساتھ ماتھے سےہٹایا اور سائیکل پر بیٹھ کر زور سے پیڈل مارا۔ سائیکل کا چین اترا ہوا تھا مجھے معلوم نہیں تھا سو سائیکل کسی ضدی کھوتے کی طرحاپنی جگہ ایستادہ رہی اور میں منہ کے بل پکی سڑک پر لوٹنیاں لگانے لگا۔ پیچھے سے منحوس زنانہ قہقہوں نے جتنی تکلیف پہنچائی وہزخمی ٹخنوں کی تکلیف سے کافی زیادہ تھی۔

آخری سانحہ جانکاہ ایک بھرے پھرے پارک میں پیش آیا۔ گھر سے ملحقہ پارک میں سائیکل ٹریک ہے جہاں ہر شام زرخیز بدن تھلتھل کرتے ایک بہار کا سماں باندھ دیتے ہیں۔ اس شام ہم بھی بچوں اور ان کی ماؤں کے بیچ اپنی سائیکل دوڑا دوڑا کر میراتھنکررہے تھے کہ یکلخت زنجیر دو حصوں میں الگ ہوکر پچھلے پہیے میں پیوست رہ گئی اور اگلے ہی لمحے ہم کسی شکست خوردہ سپاہ سالارکی طرح میدان جنگ میں چاروں شانے چت پڑے سرشام آسمان میں ٹمٹماتے تارے ڈھونڈنے لگے۔ بیگم گاڑی لے کر آگئی اورگالیاں دیتی ہوئی مجھے بمعہ سائیکل ڈھو کر گھر لے آئی۔

اگلے دن بیگم نے غصے سے کہا چلو سائیکل نکالو اورمجھے بھی سکھاؤ تاکہ روز روز کی حادثوں سے آپ کی جان چھوٹ جائے۔ میںاپ کو لے کر آیا جایا کروں گی۔ میں نے فورا انکار کردیا کہ لعنت ہو اس سائیکل پر۔ اس سے اچھے تو میرے اپنے پیر ہیں چلیںآپ کو پندرہ بیس کلومیٹر بھگا کر لے آتا ہوں۔

پے درپے سانحات و بے عزتیوں نے اتنا دلبرداشتہ کردیا کہ اگلےہی دن بنگالی کے پاس اپنی سائیکل لے گیا کہبھیا آپ تو جوہریہیں اس سائیکل کی اصل قدروقیمت آپ کوتو معلوم ہی ہے لہذا میں اپنی سائیکل آپ کو بیچنا چاہوں گا۔

اس نے بے نیازی سے اپنا سر نفی میں ہلایا اور بولا۔۔

بھائی شوب آپ کا سائیکل اشپورٹس ہے اور اس کا خریدار نہیں ملتا اگر  مجھےبیچنی ہو تو میں اس کے آپ کو مبلغ چار ہزار سکہرائج الوقت ابھی دے سکتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوستو! سائیکل ابھی بھی کھونٹے سے بندھی ہوئی ہے اگر آپ میں سے کسی کو چاہیئے تو بتادیں میں بقلم خود لے کر حاضر ہوجاتا ہوںورنہ ابوظہبی کے چڑیا گھر سوری عجائب گھر والے کافی مرتبہ پوچھ چکے ہیں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply