• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کا سیاسی و معاشی مستقبل/ڈاکٹر ابرار ماجد

پاکستان کا سیاسی و معاشی مستقبل/ڈاکٹر ابرار ماجد

معاشی بحران کی سب سے بڑی وجہ ہمارا سیاسی عدم استحکام ہے جس کی وجہ ہم خود ہی ہیں، حالات سب کے سامنے ہیں۔ اور سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ان خطرات کا ہمارے عوام اور اداروں کے اندر بیٹھی چند شخصیات کے اندر احساس تک نہیں جاگ رہا اور نہ ہی ان کے نزدیک معاشی کوششیں ہماری پہلی ترجیح ہیں۔ پچھلے ایک سال سے ریت کے گھروندوں کی طرح حکومتوں کو گرانے اور بنانے کا کھیل جاری تھا۔ سیاست کے نام پر جو کھیل جاری ہےاس سے یوں لگتا ہے کہ جیسے ملک سے زیادہ اقتدار کا حصول عزیز ہے۔

ابھی سیاسی استحکام کے لئے سنجیدگی سے سوچ و بچار اور کوششیں جاری ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ اچھے نتائج نکلیں گے مگر ان کی مستقلی کے لئے کوئی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کی امیدیں فی الحال ہماری مروجہ جمہوری روایات میں نظر نہیں آرہیں کیونکہ ہماری موجودہ جمہوری طرز سیاست سے مستفید ہونے کے لئے عوامی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات بنیادی شرائط ہیں جن کا ہمارے ملک میں انتہائی فقدان ہے۔ لہذا ہمیں اپنی اقدار، ضروریات اور سماج کے مذاج کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری تبدیلیاں متعارف کروانی ہونگی۔ ہمیں ہماری معیشت اور آزادانہ تجارتی پالیسی کی راہ میں بہت ساری مشکلات سے سامنا ہےجن کا تعلق بین الاقوامی مفادات کے ساتھ جڑے ہوئے عوامل ہیں جن کو حکمت عملی سے ڈیل کرنے کی ضرورت ہے۔

مختلف سیاسی، معاشی اور اقتصادی ماہرین جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی پر مبنی اپنے اپنے مختلف ترقی کے ماڈلز متعارف کروا رہے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو رائج کیسے کیا جائے۔ کون ان پر عمل اور کامیابی کو یقینی بنائے گاایک بہت بڑا سوال ہے۔

ہماری قومی و ملکی ضروریات، روایات اور حقائق کو دیکھتے ہوئے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے عسکری ادارے کا ہماری ریاستی انتظامات میں ایک اہم کردار ہے جس کی وجہ ہماری سیاست کا ہمارے دفاعی اور اندرونی امن عامہ کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ خاص کر موجودہ صوتحال میں تو انتہائی ناگزیر بن چکا ہے۔ جس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں ان کے کردار کو اہمیت دینی ہوگی اور ان کی حکومت کے ساتھ ایک آئینی تعلق کو مضبوط بنانے کے لئے ہمیں کچھ عرصے کے لئے روائیتی جمہوریت کو حالات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اس کی ماضی میں بھی کوشش ہوتی رہی ہیں مگر شائد وہ اس لئے کامیاب نہیں ہوسکیں کہ ذاتی مفادات کے قومی مفادات پر ترجیح دینے کاماحول غالب رہا ہے۔

اب محسوس ہورہا کہ ذاتی مفادات کی سوچ کو کافی حد تک شکست ہوچکی ہے اور ایک نئی سوچ اس کی جگہ لے رہی ہے جو اپنے آپ کو منوا بھی رہی ہے اور ماضی کے تجربات سے حاصل تجربات بھی ایک قدرتی عمل کے طور پر نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

پہلی دفعہ ہماری قومی پالیسیوں میں چائنا کے ساتھ دل اور ہاتھ دونوں ملانے کے اشارے مل رہے ہیں جو ہماری تجارتی اور معاشی ضرورت بھی ہے اور حالات کا تقاضہ بھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں چائنا کے ساتھ مکمل ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے اپنی سیاسی حکمت عملیاں بھی چائنا کی طرز پر ہی ترتیب دے لینی چاہیں تاکہ ہماری لازوال دوستی میں فطری ہم آہنگی بھی پیدا ہوجائے اور اس لازوال دوستی کو ناقابل شکست بھی بنا یا جاسکے۔ مگر اس خواب کی تکمیل کے لئے ہمیں قومی سطح کی یکجہتی اور عزم کی ضرورت ہے۔

اب ہمارے پورے ریجن میں چائنا کی معاشی پالیسیوں کے اوپر اعتماد اور ان کے رائج ہونے کا ماحول دیکھنے میں آرہا ہے جس سے ہمارے لئے بھی یقیناً خوشگوار ماحول پیدا ہورہا ہے۔ چائنا کی دوستانہ اور امن پسند سیاسی و معاشی حکمت عملیوں کو دنیا میں سراہا جارہا ہے اور دنیا کے متاثریں ممالک کو سکھ کا سانس لینے کا موقع مل رہا ہے۔ ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم جغرافیائی لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل ہیں اور اپنی اس حیثیت سے ہمیں فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم عالمی سطح کے امن کو بھی یقینی بنائیں تاکہ دنیا کو ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کے لئے ساز گار ماحول میسر آسکے۔

وزیر خزانہ نے ڈیفالٹ کے خدشات کو رد کرتےہوئے جو اشارے دیئے ہیں وہ انتہائی الارمنگ ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہوسکتا کیونکہ ہمارے پاس کئی ٹرلین کے اثاثے موجود ہیں، فی الحال کسی بہتر معاشی انڈیکیٹرز کی طرف اشارہ نہیں۔ ان کایہ اظہار کہ ضروری اصلاحات کرکے مضبوط معیشت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے ایک اچھی امید ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معیشت کے بہتر ہونے میں وقت درکار ہوتا ہے مگر عوامی اعتماد کے لئے انکی بنیادی ضروریات کے میسر ہونے کے اشارے بھی تو دکھائی دینے چاہیں۔

حکومت کو عوامی ریلیف اور امیتازی سلوک کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہونگے چاہے جتنے بھی مشکل فیصلے کرنے پڑیں۔ عوام کی مہنگائی کو برداشت کرنے کی برداشت جواب دیتی جارہی ہے۔ عوام نے پہلے اپنی خوراک میں کمی کی، پھر اثاثوں کا نقصان اٹھایا اور اب ان کو مزید آزمانا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ عوام نے دل کھول کر حکومت کا ساتھ دیا ہے اب حکومت کو بھی سلہ دینا ہوگا۔

ہمارے ہاں اب کوئی بھی سیاسی جماعت بشمول تحریک انصاف ایسی نہیں جس کو ملک کی خدمت کا موقع نہ ملا ہو۔ اپنی اپنی جگہ پر تو سب ہی بڑے بڑے دعوے رکھتے ہیں مگر زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئےاگر ہم ماضی کی حکومتوں کا تقابلی جائزہ لیں تو نواز شریف اور ان کی ٹیم ہی وہ قابل اعتماد اور تجربہ کارسیاسی طاقت بنتی ہے جن کو عوامی نمائندگی سونپ کر بہتری کی امید وابسطہ کی جاسکتی ہے۔ ہمیں اب ان کو ایک لمبے عرصہ کے لئے اختیار دینا ہوگا تاکہ وہ مکمل ذہنی سکون اور اعتماد کے ساتھ محنت کر سکیں۔ اس کا یہ مطلب قطعاً بھی نہیں کہ ان کو مطلق العنان بنا دیا جائے مگر کم از کم ان کو ماضی جیسے بے بنیاد الزامات لگا کر حوصلہ شکنیوں سے تو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی دینی ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہمیں سنجیدگی سے سوچنے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہمارے پاس نہ تو دیر کرنے کی گنجائش ہے اور نہ ہی مزید غلطیوں کی۔ ہمیں چائنا کے ساتھ تجارتی سہولیات پر مکمل تعاون اور تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ ہم سی پیک کے باہمی مفادات کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ ہمیں انکی سرمایہ کاری کو بھی مکمل تحفظ کا عملی ماحول پیدا کرنا ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply