بریگیڈئیر، کریک ڈاؤن اور کرکٹ۔۔اشرف لون

1990کی دہائی کے آخر سے کرکٹ دیکھ، سن اور کھیل رہا ہوں۔ بریگیڈئیر کا نام پہلے آرمی کریک ڈاؤن میں سنتا تھا ،جسے اس وقت عموماً برگیڈر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ بہرحال جو بھی ہو’سی۔ او‘ اور برگیڈر یعنی بریگیڈئیر کا کسی فوجی مہم یا کریک ڈاؤن میں حصہ لینا بہت خطرناک سمجھا جاتا تھا اور لوگ برگیڈر کا نام سنتے ہی سہم جاتے تھے اور یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ تھا کہ اس بار ضرور کچھ ہونے والا ہے۔ یہاں میں عرض کرتا چلوں کہ میں آج تک فوج کو آرمی اور بریگیڈئیر کو برگیڈر کے نام سے ہی پکارتا ہوں کیوں کہ یہ دونوں لفظ تب میرے ذہن میں بیٹھ گئے یا بٹھا دیئے گئے ہیں جب مجھے ان الفاظ کے معنی بھی اچھی طرح پتہ نہ تھے۔ پھر ریڈیو پاکستان سے کرکٹ کمنٹری سننے کے دوران یہ نام بار بار سنتا تھا۔ کبھی کوئی ریٹائرڑ برگیڈر کمنٹری کرتا تھا تو کبھی وہ کسی کرکٹ کی ’سلیکشن پینل‘ میں ہوتا تھا۔ پھر سوچتا تھا کہ جس انسان کو ہم اتنا ظالم سمجھتے ہیں وہ اتنا ظالم نہیں بلکہ کرکٹ بھی کھیل سکتا یا کھیلتا ہے۔ تبھی تو اس کا نام بار بار کرکٹ کمنٹری کے دوران میں لیا جاتا ہے۔ ایسے میں مجھے برگیڈر پرکسی حد تک ترس بھی آتا تھا اور میں سمجھ گیا کہ سب برگیڈر جنگ یا کریک ڈاؤن میں حصہ نہیں لیتے بلکہ ان کا کھیل کے ساتھ بھی کچھ تعلق ہے۔

برگیڈر سے مجھے یاد آیا کہ ایک دن جب ہم کریک ڈاؤن کے دوران میں زیارت کے سامنے جمع تھے تو اچانک کسی نے اطلاع دی کی بارہ مولہ سے برگیڈر اور ’سی او‘ تشریف لا رہے ہیں۔ ہم سب سردی سے ٹھٹھرے ہوئے تھے، مزید کپکپی طاری ہوئی۔ اس پر خالی پیٹ اور بھوک نے ہماری حالت مزید خراب کردی تھی۔ اتنا تھا کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے اور پہچان سکتے تھے کیونکہ یہ آپ اس سے ہی پوچھیے جس کو صبح خوف و دہشت میں خالی پیٹ گھر سے نکلنا پڑتا ہو، بلکہ یہاں تو چند منٹ کی  تاخیر  پر کچھ لوگوں کو زبردستی گھسیٹ کے زیارت تک لے جایا جاتا تھا۔ میں بھی بڑا ضدی تھا، بنا چائے پیے ، کم ہی کریک ڈاؤن کے لیے نکلتا، ایک بار ایک فوجی نے جیسے ہی میری ٹانگوں پر ڈنڈے مارنے کی کوشش کی تو میں نے جھٹ سے اپنی ٹانگوں کو مروڑی  دی اور یوں ڈنڈے کا سارا زور میرے فرن نے سہہ لیا اورمیں خطرناک چوٹ سے بچ گیا۔

بہرحال میں نے بات شروع کی تھی برگیڈر کے نام سے، اس کو پہلے پورا کرتا ہوں۔ برگیڈر کی کریک ڈاؤن میں آمد کے ساتھ ہر طرف خاموشی چھاگئی اور ہر کوئی قیاس آرائی میں لگ گیا کہ شاید برگیڈر گرفتاری کا کوئی حکم نامہ جاری کردے۔ ہر کوئی اس سوچ اور خوف میں مبتلا تھا کہ شائد اس بار آرمی اُسے اٹھا کے لے جائے گی۔ مگر خدا کا کرنا تھا کہ کچھ ہی منٹ بعد برگیڈر کو بارہمولہ سے فون آگیا اور یوں ہم مزید پریشانیوں اور مارپیٹ سے بچ گئے کہ اس کے ساتھ ہی کریک ڈاؤن بھی ختم کردیا گیا۔ اس طرح کئی مائیں اور بہنیں بھی پریشانیوں سے بچ گئیں۔ کیوں کہ ان کریک ڈاؤن  میں اکثر مائیں اور بہنیں آرمی کی گاڑیوں کے پیچھے آہ و زاری کرتی نظر آتی تھیں جب ان کا کوئی لخت جگر یا بھائی آرمی اٹھا کر لے جاتی تھی۔ اور پھر جب آرمی ان نوجوانوں کو رہا نہ کرتی تو ان ماؤں اور بہنوں کو سفارش کے لیے اور اپنے لخت جگروں کو چھڑانے کے لیے برگیڈر کے آفس کا ہی رخ کرنا پڑتا تھا۔

ان آٹھ دس برسوں میں کئی بار برگیڈر کا نام سننے کا موقع ملا یا یوں کہیے کہ برگیڈر کا نام سننے سے کپکپی طاری ہوئی بلکہ کئی بار تواس برگیڈر کی زیارت کے سامنے زیارت بھی ہوئی۔

ادھر جب جب ریڈیو پاکستان پر کرکٹ کمنٹری بھی سننے کا موقع ملا تو ساتھ ہی اس میں برگیڈر کا نام بھی سننے کا موقع ملتا تھا اور یوں برگیڈر سے متعلق جوخوف ذہن میں بیٹھ گیا تھا وہ نکلتا گیا کہ اب مجھے اچھی طرح احساس ہوا تھا کہ جس برگیڈر کو ہم جانتے تھے یا جس برگیڈر کے نام سے ہمیں خوف دلایا جاتا تھا وہ دراصل ایک اچھی مخلوق ہے جو کمنٹری بھی کرتا ہے اور ٹیم کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب بھی کرتا ہے اور کبھی کبھی کرکٹ بھی کھیلتا ہے۔

حالیہ برسوں میں برگیڈر لفظ کی تعریف و تشریح میں مزید اضافہ ہوا۔ پاکستان سے متعلق خبروں میں عموماً  برگیڈر کا لفظ سننے اور پڑھنے کا موقع ملا۔ اور یہ بھی پتہ چلا کہ برگیڈر حضرات صرف کرکٹ کمنٹری یا کھلاڑیوں کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ کچھ اورکام بھی انجام دے سکتے ہیں۔ برگیڈروں کے مختلف عہدوں پر تعیناتی نے برگیڈر اور سیاست دان کے لفظ کی دوئی کو مٹا دیا ہے۔ اور اب یہ دونوں ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ا ور اب کچھ مہینوں سے ہم برگیڈروں کو نیوز چینلوں پر دانشوری کا فلسفہ بھی بگھارتے دیکھ رہے ہیں۔

اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ کوئی بھی برگیڈر زندگی بھر بنا روزگار کے نہیں رہتا بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی آشیرواد سے اسے کہیں نہ کہیں نوکری مل ہی جاتی ہے۔ نوجوانوں کو نوکری ملے یا نہ ملے وہ بہرحال الگ مسئلہ ہے۔

حال ہی میں پاکستان کی عمران خان حکومت نے روایت کی پاسداری کرکے ایک ریٹائرڑ فوجی جنرل کو سعودی عرب کا سفیر مقرر کر دیا۔ شائد یہ اسی کا ثر ہے جس کے تحت کرکٹ اور برگیڈر و جنرل لفظ ہم معنی لگتے ہیں کہ عمران خان ماضی میں خود بھی ایک اچھے کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ شائد اسی وجہ سے جنرل پر ترس آیا ہو اور اسے نوکری پر لگادیا ہو۔ ہمیں اس پر چو نکنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ خوش ہونا چاہیے کہ دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں ریٹایئرڑ برگیڈروں اورجرنیلوں کو تو ملازمت آسانی سے مل جاتی ہے،لیکن نوجوانوں کو غزوہ ہند اور زیتون انقلاب کی گولیاں کھلا کر سلا دیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سب معاملے کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ ہمارے یہاں برگیڈر صرف گولیاں چلانا اور مارپیٹ نہیں جانتا بلکہ وہ اپنی عمر میں جنگ میدان میں بھی حصہ لے سکتا ہے، کمنٹری بھی کرسکتا ہے، کھلاڑیوں کا انتخاب بھی کرسکتا ہے، تجزیہ کار یا دانشور اور سفیر بھی بن سکتا ہے۔ بس اتنا ہے کہ آپ اسے موقع دیجیے۔ وہ کسی بھی کردار میں فٹ بیٹھ سکتا ہے۔

Facebook Comments

اشرف لون
جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی،انڈیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply