پیالی میں طوفان (65) ۔ ایٹم/وہاراامباکر

آج ہم سب ایٹموں کے بارے میں جانتے ہیں۔ کسی کو ان کے وجود پر شک نہیں۔ ہم بچپن سے ہی پڑھتے ہیں کہ ہر شئے مادے کے ناقابلِ تقسیم اور سادہ ذرّات سے بنی ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز پر سائنسی کمیونٹی میں اس پر سنجیدہ مباحث تھے کہ ایٹم اصل میں ہیں یا پھر یہ ایک تخیّلاتی تصور ہے۔

فوٹوگرافی، ٹیلی فون، ریڈیو کی آمد ہو چکی تھی۔ دنیا نئے ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہو رہی تھی لیکن اس پر کوئی اتفاق نہیں تھا کہ سب کچھ آخر بنا کس سے ہے۔ کئی سائنسدانوں کے نزدیک ایٹم ایک معقول خیال تھا۔ مثلاً، کیمیادان یہ دریافت کر چکے تھے کہ مختلف عناصر خاص تناسب میں ری ایکشن  دیتے ہیں،اور اس کی بہت اچھی وضاحت اس سے کی جا سکتی تھی کہ کسی چیز کا ایک ایٹم کسی اور چیز کے دو ایٹموں سے ملے تو ایک مالیکیول بنتا ہے۔
لیکن متشکک ابھی قائل نہیں ہوئے تھے۔ ان کے وجود کا یقین آخر کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس میں سب سے دلچسپ فقرہ، جو نئی دریافتوں کی بنیاد بنتا ہے، یوریکا (پا لیا) نہیں ہے، بلکہ “یہ کچھ عجیب لگ رہا ہے” ہے۔
سائنسی دریافتوں کے بارے میں یہ آئزک آسیماف کا قول ہے اور ایٹم کی دریافت کی تصدیق اس راستے کی ایک اچھی مثال ہے اور اس میں 80 سال لگے تھے۔
یہ 1827 کی بات ہے جب ماہرِ نباتات رابرٹ براؤن ایک خوردبین کے ذریعے پانی میں معلق پولن کے ذرات کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ اس سے چھوٹے ذرات الگ ہو جاتے تھے۔ (یہ آپٹیکل خوردبین سے دیکھی جانے والی چھوٹی ترین شے ہیں)۔ رابرٹ براؤن نے مشاہدہ کیا کہ جب پانی بالکل ساکن ہو تب بھی یہ چھوٹے ذرات جھٹکوں سے ہلتے رہتے تھے۔
پہلے براؤن سمجھے کہ یہ ذرّات زندہ ہیں۔ لیکن بعد میں انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اگر کسی بے جان ذرّے کو بھی ڈالیں تو یہی ہوتا ہے۔
یہ عجیب تھا اور ان کے پاس اس کی کوئی وضاحت نہیں تھی۔

انہوں نے اس کے بارے میں لکھا۔ اگلی دہائیوں میں کئی دوسرے لوگوں نے بھی یہی دیکھا۔ اس عجیب حرکت کو brownian motion کا نام ملا۔ یہ حرکت کبھی نہیں رُکتی تھی لیکن صرف بہت ہی چھوٹے ذرّات کے ساتھ ایسا ہوتا تھا۔
اس کی کئی وضاحتیں تجویز کی گئیں لیکن اس اسرار کی تہہ میں کوئی نہیں پہنچ پا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کے سب سے مشہور پیٹنٹ کلرک ہونے والے نے اپنی پی ایچ ڈی کے مقالے کی بنیاد پر ایک پیپر 1905 میں لکھا۔ آئن سٹائن کی زیادہ شہرت سپیس اور ٹائم کی نیچر کی سٹڈی اور تھیوری آف سپیشل اور جنرل ریلیٹویٹی کی وجہ سے ہے۔ لیکن ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع مائع کی شماریاتی مالیکیولر تھیوری پر تھا۔ 1905 اور 1908 کو انہوں نے براونین موشن کی بہت تفصیلی ریاضیاتی وضاحت پیش کر دی۔
انہوں نے کہا کہ فرض کر لیجئے کہ مائع کے اندر مالیکیول ہیں جو ایک دوسرے سے مسلسل ٹکراتے رہتے ہیں۔ مائع کی ایک ڈائنامک اور غیرمنظم شے کے طور پر تصویر پیش کی جس میں یہ ٹکراتے ہیں، اور ہر ٹکراؤ کے بعد رفتار اور سمت بدلتی ہے۔ ایسی صورت میں ایک ایسے ذرے کے ساتھ کیا ہو گا جو مالیکیولز سے کافی بڑا ہے؟
اس کو ہر طرف سے ٹکریں لگیں گی۔ لیکن چونکہ ٹکریں رینڈم ہیں تو کبھی ایک سائیڈ سے زیادہ ٹکر لگے گی اور کبھی دوسری طرف سے۔ کبھی اوپر سے تو کبھی نیچے سے۔ اور اس وجہ سے اس میں حرکت ہو گی۔ تو اس ذرّے کی یہ حرکت اس وجہ سے ہے کہ اس کو ہزاروں مالیکیول آ کر ٹکرا رہے ہیں۔
براؤن مالیکیولز کو تو نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن بڑے ذرّے کو دیکھ سکتے تھے۔ ان کی پیش کردہ حرکت کی تصویر آئن سٹائن کی پیشگوئی سے عین مطابق تھی۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا تھا اگر مائع ایسے مالیکیولز سے بنا ہے جو کہ ایک دوسرے سے ٹکراتے پھر رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ مادے کے انفرادی  چھوٹے ذرّات (ایٹم) موجود تھے۔
اور اس سے بھی بہتر؟ آئن سٹائن کی ایک مساوات اس کی پیشگوئی بھی کرتی تھی کہ ایٹم کا سائز کتنا ہو کہ یہ جھٹکوں والی حرکت نظر آئے۔
اور پھر 1908 میں جین پیرن نے اس سے بھی زیادہ تفصیلی تجربات سرانجام دئے جو آئن سٹائن کی تھیوری پر فٹ بیٹھتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایٹم کے متشککین کے پاس نئے شواہد کے آ جانے کے بعد اب قائل ہو جانے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔
یہ دنیا بہت سے چھوٹے ایٹموں سے ملک کر بنی ہے اور یہ ایٹم ہر وقت ہلتے جلتے رہتے ہیں۔ اور اب ہم آگے بڑھ سکتے تھے۔ اور ان کا یہ مسلسل ہلنا بھی اتفاقی نہیں تھا۔ یہ دنیا کے سب سے بنیادی فزیکل قوانین کی وضاحت کرتا تھا جو بتاتے تھے کہ دنیا کام کیسے کرتی ہے۔
اور ایک بار آپ ایٹموں کے بارے میں جان لیں تو روزمرہ کی اشیا، حتی کہ برسات میں بھیگے کپڑے بھی دلچسپ ہو جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply