• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اسٹیٹ ایجنٹ کا کھتارسس(معاشیات کی طلب و رسد اور ہم)۔۔اعظم معراج

اسٹیٹ ایجنٹ کا کھتارسس(معاشیات کی طلب و رسد اور ہم)۔۔اعظم معراج

کئی دنوں بعد جاجا صاحب جاجا ڈاکٹرائن ” شریف آدمی عزت توں تے ادارے قومی سلامتی توں بلیک میل ہوندے نے۔ سانوں لتھی چڑی دی کوئی نئی ایس لئی سانوں ستے ای خیراں نے”ترجمہ۔۔” شریف آدمی عزت سے اور ادارے ملکی سلامتی سے بلیک میل ہوجاتے ہیں ۔ہمیں عزت بےعزتی کی پرواہ نہیں لہذہ ہم محفوظ ہیں ۔
آن وارد ہوئے،
آتے ہی طنزیہ کہنے لگے،ہاں بھئ آج کل تعمیرات کے شعبے میں خان صاحب کی مراعات کے ثمرات بلکہ مضمرات سمیٹ رہے ہو۔ میں نے کہا بھائی ہم رئیل اسٹیٹ کے لین، دین اور کرائے پر لینے ،دینے سے متعلق خدمات بیچنے کے عوض اپنا طے شدہ معاوضہ لینے والے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں ،
یہ تو ٹھیکداروں اور بلڈنگز بنا کر بیچنے والوں کے لئے رعایتیں ہیں۔ ہاں اس سے تھوڑا بہت فائدہ ہمیں بھی ہوجائے گا۔۔۔

جاجا صاحب بولے” وہ رعایتیں نہیں بلکہ معاشی دہشت گردوں کے لئے معافیاں ہیں جسے عرفِ عام میں پہلے ایمنسٹی کہا جاتا تھا۔اب کنسٹرکشن پیکج کا خوبصورت نام دیا گیا ہے۔چھوڑوں یار نہ میں بیوقوف نہ تم دودھ پیتے بچے ہوں۔ساری تمہاری برادری انہی لوگوں کے مفادات کی پاکستان بھر میں نگرانی کرتی ہے” ان کے مفادات پر ذرا سی ضرب  پڑے تمہاری برادری سڑکوں پر نکل آتی ہے۔” یہ جو اسٹیٹ ایجنٹ کی تعریف تم کر رہے۔ہو وہ تو محنت کرنے والے محنت کش ہیں۔ جو پہلے لوگوں کی تین بنیادی ضروریات میں سے ایک پوری کرتے ہیں اور پھر کاغذی کارروائی کے لئے رجسٹرار ،مال پٹوار،اور سرکار کے اہلکاروں کی ڈانٹ پھٹکار سہتے ہیں ۔میں نے تو کبھی سی ڈے اے،کے ڈی اے، ایل ڈی اے ڈی ایچ ایز، بحریہ ،ایم ای او ودیگر ایسے اداروں کے دفتروں کے باہر اپنے لوگوں کے لئے آسانیاں اور ان کی بحالی عزت نفس کے لئے آواز اٹھاتے نہیں دیکھا تمہارے اسٹیٹ ایجنٹ لیڈروں کو ہاں ایمنسٹی کے لئے ایف بی آر اور دیگر ایسے دفاتر کے چکروں پر چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ہاں اب پہلی بار انکا امتحان ہے۔کہ یہ اسٹیٹ ایجنٹ کو سیکرٹ ایجنٹس بنانے کی کوشش کے خلاف کیا کوشش کرتے ہیں۔۔ “پھر جاجا صاحب کہنے لگے۔
یار چھوڑو ۔۔ یہ میں بھی کن فضولیات میں پڑ گیا ۔۔ میں تم سے ایک ضروری بات کرنے آیا تھا وہ یہ بتاؤ کیا معاشیات کے بنیادی اصول وضوابط تمہاری مارکیٹ پر اثر انداز نہیں ہوتے؟ ۔۔میں نے کہا کیوں نہیں ہوتے ہم اسی دنیا میں کام کرتے ہیں۔تو کہنے لگے۔

” پھر بتاؤ یہ جو غیر قانونی،جرائم کی دنیا، اور رشوت،کی کمائی فارموں کی چھپائی اور بٹوائی ،ان ٹیکسڈ،ان ڈاکومنٹڈ ، اور ایسی دیگر کمائیوں کے لئے غیر اعلانیہ معافی (ایمنسٹی ) دی گئی ہے۔اس کی وجہ سے یہ جو ملٹی اسٹوری بلڈنگز کے جنگل اگنے شروع ہوئے ہیں اور دلنشین اشتہارات  کی بھرمار میڈیا منڈی میں جاری ہے۔ اس سے فوری طور پر روزگار اور کئی صنعتوں کا پہیہ تو چل گیا ہے۔لیکن معاشیات کے بنیادی اصول طلب و رسد (ڈیمانڈ اور سپلائی ) کے مطابق جب سپلائی بہت بڑھ جائے گی اور مہنگی قیمتوں پر بڑھ جائے گی تو معاشیات کی ایک اور ٹرم (اصطلاح )قوت خرید کے مطابق ابھی جو چھوٹے اور درمیانے انویسٹرز ان اشتہارات اور تمہارے لوگوں کی مہارتوں سے اس میں پھنس جائیں گے، انکا کیا ہوگا؟ انھیں کمزور قوت خرید والا پاکستانی اس میں سے کیسے نکالے گا یہ اشتہاری خوبصورت دفاتر اور عالی شان فلیٹ عام استعمال کرنے والا تو بک کروا نہیں رہا۔اور جن کوں وزیر اعظم ریلیف دینا چا ہ رہا تھا ، وہ تو آہستہ آہستہ لنگر خانوں کی طرف جارہے۔انکی قوت خرید دن بدن کم ہورہی ہے۔

میں نے کہا جاجا صاحب بات تو تمہاری سچ ہے لیکن معاشیات کے ہر اصول کے آخر میں لکھا ہوتا ہے بشرطیکہ دیگر عوامل ایسے ہی رہے۔لہذا  ہمارے نہ تو کبھی دیگر عوامل ایک سے رہے ہیں۔ اور نہ ہماری حکومتوں نے کھبی چھوٹے اور درمیانے بیوقوف لالچیوں جنھیں تم چھوٹے درمیانے انوسٹرز کہہ رہے ہو کا کبھی سوچا ہے۔ وہ تو غریبوں کے استحصال اور نوسر بازوں اور اول الذکر ذرائع سے بننے والے سرمایہ داروں کے مفادات کے رکھوالے ہیں آور یہ مجھ سے لکھوا لوں انکے مفادات پر حکومت  ضرب نہیں پڑنے دے   گی۔ چاہے خدا نخواستہ کچھ بھی ہو جائے۔جاجا صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہا یعنی میرا ڈاکٹرائن ہی کامیاب ہے۔میں نے دھیمی آواز میں خود کلامی کے انداز میں کہا” جی ایسا ہی ہے۔”ساتھ ہی میں نے جھینپ مٹانے کے لئے اونچی آواز میں کہا جاجا جاؤ اس سوال کا جواب ان سے پوچھو جو مہنگے کپڑوں سمیت معاشی دہشتگردی کا ننگا کھیل کھیلتے ہیں ،یاپھر ان سے پوچھوں جو حکمرانوں کو ہر دس سال بعد یہ باور کرواتے ہیں۔کہ اگر انھیں عام معافی ایمنسٹی نہ دی گئی تو ملکی سلامتی کو خطرہ ہے۔یا پھر موجودہ حکمران سے پوچھ لوں جو معاشی دہشت گردوں کی معافیوں کے بڑا خلاف تھآ اور اب تاریخ کی سب سے بڑی ایمنسٹی دے کر اتراتا پھرتا ہے۔

اعظم معراج کی زیر اشاعت کتاب اسٹیٹ ایجنٹ کا کھتارسس  سے اقتباس

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply