ریزگاری -پیش لفظ/ارشد ابرار

عظیم مارکیز فرماتے ہیں'” ایک ادیب ، غرقاب شدہ جہاز کے ملاح کی طرح ، سمندر کے بیچوں بیچ بالکل تنہا ہوتا ہے ، اس پیشے کی تنہائی کسی بھی دوسرے پیشے کی تنہائی سے بڑھ کر ہے کہ جب آپ لکھ رہے ہوں تو کوئی بھی شخص آپ کی مدد نہیں کرسکتا ۔”

یقین کیجیے یہی آخری سچ ہے دوستو ! کسی بھی قلمکار کیلئے اپنی ذات کی پرتیں آشکار کرنے سے بڑھ کر کارِ دشوار شاید کوئی  نہ ہو ۔میں کون ہوں اور کیا ہوں میں  ؟ اس سے قطعِ نظر اپنی ” ریزگاری “ کی صورت اب آپ کے ہاتھوں میں موجود ہوں ۔

یہ ریزگاری ہے ۔ میرے پانچ سالوں کے رتجگے، میری کچی پکی نیندیں اور میرے خواب ہیں۔ وہ خواب جو اِن جاگتی آنکھوں نے دیکھے تھے اب اوراق کا پیرہن اوڑھ کر تعبیر پا چکے ہیں ۔اوراق کے وہ سفید پیرہن کہ جن پر کالے سیاہ حروف سے کشیدہ کاری کرتے ہوۓ میں نے اپنی انگلیوں کی پُوریں چھلنی کی ہیں ۔

میں اور کچھ بھی نہیں ، سواۓ ایک گمنام کہانی کار کے میری کوئی  دوسری پہچان نہیں ہے ۔ یہ تمام افسانے درحقیقت میری ذات اور زندگی کے ہی بکھرے ہوۓ کچھ حصے بخرے ہیں دوسرے معنوں میں پیاز کی پرتوں جیسے ایک شخص کے ڈھیر سارے چہرے ۔

دراصل دوسرے انسانوں کی طرح ایک ہی جسم میں سانس لینے والا کہانی کار کبھی ایک زندگی جی ہی نہیں سکتا ۔
ہمہ وقت وہ کسی نہ کسی کردار کے ساتھ بسر کر رہا ہوتا ہے۔
یعنی وہ لایعنی سا شخص اپنے کرداروں کی صورت میں اپنے آپ کو بیان کرتا ہے ۔
اُنہی کرداروں کے ٹکڑے باہم جوڑیں تو ایک مکمل قلمکار کی تصویر بن جاتی ہے ۔
دوسروں کی خبر نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ میرے ہر افسانے اور ہر کہانی میں کہیں نہ کہیں میں یا میری ذات کا کوٸی ٹکڑا ضرور موجود ہوتا ہے۔

تو اگر اس کتاب کی آخری کہانی یعنی ” آخری پتھر “ کے آخری حرف تک پہنچتے پہنچتے آپ کے خیال کے کینوس پر کوئی  ایک صورت ابھرتی ہے تو وہ یقیناً میری ہی ہوگی
اور اگر ایک سے زیادہ چہرے بنتے ہیں تو وہ میرے ، آپ کے اور ہمارے اردگرد بکھرے اُن تمام لوگوں کے ہوں گے جن کو جینے کی تمنا نے مار ڈالا اور جو زندگی کرتے اور اپنا آپ ڈھونڈتے موت کے منہ تلک جا پہنچے ۔

اگر آپ مجھ سے، یہاں وہاں بکھرے ہوۓ میرے بے شمار چہروں سے شناساٸی کے تمناٸی ہیں تو یہ میری عمر بھر کی کل کماٸی ، میری جمع پونجی اور میری زندگی کی ریزگاری آپ سب کیلیے ہے اسے پڑھیے ۔

جینیٹ ونٹرسن نے کہا ہے کہ ”کتابیں اور دروازے ایک ہی چیز ہیں۔آپ انہیں کھولتے ہیں، اور آپ دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں۔“

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ریزگاری بھی میری اور آپ سب کی دنیا ہے کہ جہاں اَن گنت انسان اپنے ہی عکس اٹھاۓ اپنی پہچان کے نشان ڈھونڈ رہے ہیں۔
بسم اللہ کیجیے دوستو ۔۔۔ اس دو سو پچیس صفحات کی کائنات کا در کھولیے کہ ایک دنیا آپ کی منتظر ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply