عورت کی تقدیس وتکریم اور موجودہ صورت حال (2)۔۔عمار خان ناصر

عورت کو عدم تحفظ کی صورت حال کا سامنا اپنی خلقی اور حیاتیاتی خصوصیات کی وجہ سے ہوتا ہے اور آج سے نہیں، ہمیشہ سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں، عورت کا غیر محفوظ یا مردانہ جارحیت کا ہدف ہونا ایک فطری صورت حال ہے، انسانی معاشروں کی پیدا کردہ نہیں۔ انسانی معاشروں کی تگ ودو تو اس state of nature کو اپنی نوعی وسماجی ضروریات کے تحت بدلنے اور اخلاقی ضابطوں کے تحت لانے کی رہی ہے۔ جدیدیت کے علمی ڈسکورسز کے زیر اثر آج ہمارے لیے ماقبل جدید معاشروں پر مختلف قسم کے تاریخی اور اخلاقی حکم لگانا آسان ہے، لیکن اس سے یہ حقیقت بدل نہیں جاتی کہ تمدنی ارتقا کی مختلف سطحوں پر تمام انسانی معاشرے عورت کے، جارحیت یا objectification کا ہدف بننے کے امکانات کو محدود کرنے اور اسے کسی نہ کسی انداز میں تحفظ دینے کی سعی کرتے رہے ہیں۔ آج انفرادی آزادی کے مواقع پیدا ہو جانے کے تناظر میں عورت کو فراہم کیے گئے یہ تحفظات ہمیں جبر دکھائی دیتے ہیں ، لیکن ہم یہ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ “جبر” ایک دوسری قسم کے عدم تحفظ اور استحصال کے سدباب کے لیے روایتی معاشروں نے اجتماعی ضرورتوں کے تحت اختیار کیا تھا۔
روایتی معاشرت میں ایسی تبدیلیاں جن سے انفرادی آزادیوں کی بہت زیادہ گنجائش پیدا ہو جاتی ہے، بنیادی طور پر مغربی معاشروں کا تاریخی تجربہ ہے جس کے ساتھ وابستہ نتائج اور مسائل سے نمٹنے کے لیے نئے سماجی میکنزم بنانے کا موقع بھی اہل مغرب کو میسر رہا ہے۔ ان میں اہم ترین میکنزم جدید ریاست کا نظام ہے جس کی نئے خطوط پر تشکیل اس دور کے بالکل آغاز میں شروع ہو چکی تھی جسے اب ہم جدید دور کہتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ روایتی معاشرت کے سٹرکچرز ٹوٹنے سے پہلے مغربی معاشرے ریاست کی صورت میں تنظیم معاشرت کا ایسا میکنزم وجود میں لا چکے تھے جس نے انارکی یا لاقانونیت کے لیے جگہ خالی نہیں چھوڑی، بلکہ نئے اسٹرکچرز کو کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مشرقی معاشروں کی صورت حال اس سے مختلف رہی ہے۔ یہاں ماڈرنائزیشن کا عمل اصلا مغربی اثرات کے تحت شروع ہوا ہے اور اپنی ساخت میں مقامی معاشرت کے لیے اجنبی ہونے کی وجہ سے ابھی تک کسی ٹھکانے پر نہیں پہنچا۔ اس پر مزید پیچیدگی ان اقداری تبدیلیوں نے پیدا کر دی ہے جن کو ہم جدیدیت کا عمومی عنوان دیتے ہیں۔ خواتین کو ملنے والی آزادیوں اور مواقع کے ساتھ ایک طرف تہذیبی اضطراب اور دوسری طرف عدم تحفظ کے مسئلے کا پیدا ہو جانا اسی صورت حال کا ایک جزو ہے۔ یعنی مجموعی معاشرتی نفسیات اس تبدیلی کے ساتھ معاملہ کرنے کا کوئی مسلمہ اخلاقی فریم ورک نہیں رکھتی اور ریاست، اپنی ادھوری اور ناتمام تشکیل کی وجہ سے اس پراسیس کو guide کرنے اور ضروری عملی اقدامات کی صلاحیت سے محروم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply