• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • غیر قانونی تارکین وطن کو ایک ماہ میں نکل جانے کا حکم/قادر خان یوسفزئی

غیر قانونی تارکین وطن کو ایک ماہ میں نکل جانے کا حکم/قادر خان یوسفزئی

برصغیر کے مسلمانوں بالخصوص افغان یا پختون ہمیشہ سے یا تو جنگ و جدل کا شکار رہے یا پھر نقل مکانی پر مجبور رہے، یہ نقل مکانی کبھی دوسرے ممالک لیکن اکثر اپنے ہی وطن میں ترک مکانی یا نقل مکانی ثابت ہوئی، تقریباًدس صدیوں سے معلوم تاریخ کے مطابق یہ قوم کبھی اپنے وطن میں پر سکون نہیں رہ پائی، کبھی خود حملہ آور ہوئے تو کبھی دوسروں نے جنگ یا پھر مہاجر بننے پر مجبور کیا، گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے اول روسی مداخلت اور پھر امریکہ و اتحادیوں کی وجہ سے افغان در بدر ہوتے رہے، ان کی اکثریت پاکستان آئی اور یہاں پر سالہا سال رہنے کی وجہ سے اپنے کاروبار شروع کئے، جائیدادیں خریدیں ، نئے دوست اور رشتے بنائے ، چالیس سال سے کم افغانوں میں سے کچھ نے تو اپنا وطن افغانستان شاید دیکھا بھی نہیں ہے، حالات پر سکون ہونے پر کبھی کبھار افغانستان کا چکر لگانے یا سیر کرنے پہنچ گئے وگرنہ انکی اکثریت یہی پر خوش باش رہنے لگے، کچھ افغان عرب ممالک، یورپ اور امریکہ میں سٹل ہو گئے اور مضبوط خاندانی نظام کی برکت سے پاکستانی افغان بھی خوش و خرم زندگی گزارنے لگے ، یہاں تک کہ مقامی لوگوں کی اکثریت بھی ان کے مقابلے سے باہر رہنے پر مجبور ہوئی، کئی مرتبہ پاکستانی حکومت کی جانب ان کی باعزت واپسی کا پروگرام ترتیب دیا گیا لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی مجبوری مانع ہوگئی، اب جبکہ پاکستان میں عبوری حکومت لمبے منصوبے بنا رہی ہے اس میں ایک افغانوں کی واپسی اور ان کو دی گئی ڈیڈ لائن ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے غیر قانونی تارکین کو 31اکتوبر 2023ء تک پاکستان چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے خبر دار کیا ہے کہ 10اکتوبر سے پاک افغان بارڈر پر نقل و حرکت کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پر ہوگی ، یکم نومبر 2023ء سے نقل و حرکت کی اجازت صرف پاسپورٹ اور ویزا پر دی جائے گی۔ یکم نومبر سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے کاروبار ؍ جائیدادیں ضبط کرنے کے علاوہ ان کو گرفتار کر کے جبری ملک بدر کیا جائے گا۔ رہائش فراہم کرنے یا سہولیات فراہم کرنے والے کسی بھی پاکستانی شہری یا کمپنی کی خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے گی۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ جنوری 2023ء سے اب تک ملک کے مختلف حصوں میں 24خودکش حملے ہوئے ، 14خود کش حملہ کرنے والے افغان تھے۔ اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کا انخلا، بارڈر پر آمد و رفت کے طریقہ کار کو ایک دستاویز کی صورت میں منظم کرنا اور غیر قانونی غیر ملکی افراد کی تجارت اور پراپرٹی کے خلاف سخت کارروائی کے فیصلے کئے گئے ہیں۔ دوسری جانب افغانستان نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کرے، اس سے دوطرفہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، افغان پناہ گزینوں کو پاکستان چھوڑنے کے لیے ایک سال کا وقت دیا جائے ۔ اسلام آباد میں قائم افغانستان کے سفارتخانے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم’’ ایکس‘‘ پر اپنے بیان میں الزام عائد ہے کہ افغان پناہ گزینوں کے خلاف’’ دن رات‘‘ کارروائیاں جاری ہیں اور ہزاروں گرفتاریاں کی گئی ہیں، جن میں ایسے افغان بھی شامل ہیں جن کے پاس امیگریشن دستاویزات تھیں۔ پاکستان گزشتہ نصف صدی سے ایک جانب دہشت گردی کا شکار ہے تو دوسری جانب 45لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ 70ء کی دہائی میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا اس وقت قریباً 45لاکھ افغان مہاجر پاکستان آئے تھے، جہاں انہیں مہاجر کے بجائے مہمان کا درجہ دیا گیا، دیگر ممالک کی طرح کیمپوں میں پابند کرنے کے بجائے انہیں ملکی وسائل میں شریک کیا اور آزادی دی، بعد ازاں یہ تعداد کم زیادہ ہوتی رہی ہے، اس وقت پھر یہ تعداد 44لاکھ تک پہنچ چکی ہے، جن میں سوویت دور کے رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد صرف 14لاکھ باقی 30لاکھ غیر قانونی تارکین وطن ہیں، جن میں دہشت گرد، سمگلرز، جرائم پیشہ بھی شامل ہیں، اکثریت ان کی ہے جو کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان آئے، یعنی افغانستان کے غدار، اسلام آباد ان لوگوں سے بھرا پڑا ہے، ان کی رہائش کا خرچ بھی مغربی سفارتخانے اٹھاتے ہیں۔ دوسری جانب المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں افغان شہری ملوث ہیں، چند ماہ میں حملہ کرنے والے 24میں سے 14دہشت گرد افغان شہری تھے ، پاکستان اس دہشت گردی میں اب تک نصف کھرب ڈالر کا معاشی نقصان اور 80ہزار سے زیادہ قیمتی جانوں کا نقصان برداشت کر چکا ہے۔ اس تناظر میں توقع تھی کہ کابل میں طالبان حکومت آجانے پر پاکستان کو دہشت گردی سے نجات مل جائے گی، لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا، بلکہ
دہشت گردی میں اضافہ ہوا اور ایسے شواہد بھی سامنے آئے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے دوست افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو ہینڈل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی نے پاکستان کی معیشت ، معاشرت اور سکیورٹی کو شدید نقصان پہنچایا ہے ، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس سب کے با وجود عجلت میں کوئی بڑا اور حساس فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے لئے انتہا درجے کی احتیاط، غور و فکر اور تدبر کی ضرورت ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمارا کوئی بے لچک فیصلہ ہمارے دوست ملک کو تاک میں بیٹھے دشمنوں کی گود میں دھکیل دے۔ بھارت ہمیشہ سے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے، طالبان کے آنے سے پہلی بار پاکستان کو اس جانب سے بے فکری کی امید تھی۔ اس صورتحال میں ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ بھارت ٹی ٹی پی کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان دوستی کو دشمنی میں بدلنے کی سازش کر سکتا ہے، امریکہ بھی ایک زخمی سانپ کی طرح بل کھا رہا ہے، اسے بھی غصہ ہے کہ پاکستان نے اسے طالبان کے ہاتھوں پٹنے سے کیوں نہیں بچایا، کیا وہ اب پاکستان اور طالبان کو لڑانے کا موقع ہاتھ سے جانے دے گا ؟ افغان مہاجرین کا معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ ایک حکم جاری ہوا اور سب نکل جائیں، وہ نصف صدی سے ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں، یہاں شادیاں ہوئی ہیں، کاروبار قائم ہیں۔ سوچنا ہوگا کہ ایک ایسے وقت میں جب ہم پوری دنیا کو سر مایہ لانے کی دعوت دے رہے ہیں، افغان سرمایہ نکالنے کا آپریشن مناسب ہو گا ؟ دوسرے یہ کہ نصف صدی سے ہم نے قربانیاں اس لئے دی تھیں کہ افغانستان میں ہماری دوست حکومت آئے تاکہ ہماری یہ طویل ترین سرحد محفوظ ہو سکے، اب کیا ٹی ٹی پی کے رد عمل میں ہم اپنے نصف صدی کی ریاضت یک لخت ضائع کر دیں گے؟ یہ مناسب نہیں ہو گا۔ ہماری خیال میں افغان حکومت کی یہ تجویز صائب ہے کہ افغان مہاجرین کو اپنے کاروبار اور جائیدادیں منتقل کرنے کی خاطر کم از کم ایک سال کا وقت دیا جائے، البتہ اس دوران جو کوئی سمگلنگ، دہشت گردی یا کسی دوسرے جرم میں ملوث پایا جائے اس کے خلاف بے رحم کار روائی کی جائے۔ پاکستان کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آچکا ہے، متعلقہ ذمہ داران کو چاہئے کہ افغان حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر اس مسئلہ کو حل کریں، خدانخواستہ کوئی جذباتی اقدام بھارت کی طرح افغان سرحد کو بھی غیر محفوظ نہ بنا ڈالے۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply