تشدد حل نہیں ہے۔۔۔۔کامران ریاض

آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ آچکا ہے اور اس پر ردعمل بھی سامنے ہے۔ راستے بند ہیں، سڑکوں بازاروں میں احتجاج ہو رہا ہے اور ملک ایک بار پھر بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلے سے اب کیسے نمٹا جائے آخر حل کیا ہے؟ وزیراعظم صاحب نے یہ کہہ کر کہ ریاست سے جو ٹکرائے گا وہ پاش پاش ہوجائے گا واضح کر دیا ہے کہ حکومت طاقت کا استعمال کرنے کیلئے تیار ہے۔ جب حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جائے تو امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے ایک قانونی منتخب حکومت کا حق ہے کہ وہ ہر ممکن طریقہ استعمال کرے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طاقت استعمال کرنے سے اس احتجاجی تحریک کے قائدین کو گرفتار کرنے، سزائیں دینے یا گولیاں مار دینے سے مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو یہ طریقہ آزما لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اکثر اوقات طاقت کا استعمال اور خصوصا ًًً حساس مذہبی معاملات میں طاقت کا استعمال ایک مصیبت کو ختم کرنے کے بجائے اس سے بڑی مصیبت کو جنم دیتا ہے۔ لال مسجد کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ فوجی حکومت نے بندوق کی طاقت استعمال کی اور اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا اس نے ملک کی چولیں ہلادیں۔

اگر تو یہ معذرت کے ساتھ چند “مولویوں کے چھوٹے سے گروہ کا برپا کیا ہوا تماشا ہے اور اسے عوامی حمایت حاصل نہیں ہے پھر تو طاقت کے استعمال سے اس کا سر آسانی سے کچلا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر احتجاجیوں کو پاکستان کے عوام کے ایک قابل ذکر حصہ کی ہدایت یا ہمدردی حاصل ہے تو طاقت اور تشدد کے استعمال سے وقتی طور پر تو شاید معاملہ رفع دفع ہو جائے لیکن بالآخر مملکت پاکستان کو اس کی ایک بہت بڑی قیمت چکانا پڑے گی۔ احتجاج میں مرکزی کردار تحریک لبیک پاکستان ادا کر رہی ہے  جو پچھلے دو  برسوں میں ایک اہم انتخابی قوت بن کر سامنے آئی ہے۔ 2018 کے انتخاب میں اس جماعت نے پنجاب میں پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کئے اور تیسرے نمبر پر رہی جبکہ سندھ میں صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ دیگر مذہبی جماعتیں بھی اس مسئلے پر تحریک لبیک کے ساتھ ہیں۔ ان جماعتوں نے مجموعی طور پر پچھلے انتخابات میں پچاس لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کیے۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ محض طاقت کا استعمال اس مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ معاشرے کے ایک موثر طبقے میں احتجاجیوں کے موقف کی پذیرائی ہے۔ لیکن ظاہر ہے جس طرح پورے ملک کو بند کیا جارہا ہے کاروبار زندگی میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے اس طرح کاروبار حکومت نہیں چل سکتا حکومت کو کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا تو آخر حکومت کیا کرے؟

پہلا طریقہ تو مکالمے کا ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں بھی مظاہرین سے استدعا کی ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں میں خلل نہ ڈالیں، راستے بند نہ کریں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے موجودہ وزیراعظم ایسی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں رکھتےکہ کسی سےایسا احتجاج نہ کرنے کا مطالبہ کر سکیں۔ عمران خان صاحب بارہا اپنے دھرنوں کے ذریعے پورے ملک کے نظام کو مفلوج کر چکے ہیں سول نافرمانی اور حکومت کا تختہ الٹنے کی اپیل کرچکے ہیں لہذا ان کا کسی اور کو ایسا نہ کرنے کی نصیحت کرنا ایک مذاق سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ بلکہ ان کے جلسوں میں تو مارو، مار دو، جلاؤ، آگ لگا دو جیسی تلقین کی جاتی رہی ہے تو اب وہ دوسروں کو کس منہ سے کوئی نصیحت کر سکتے ہیں. ملک کا سب سے طاقتور ادارہ بھی اس معاملے میں کسی اخلاقی برتری کے مقام پر نہیں ہے کیونکہ اس کے کارپردازگان انہی احتجاجیوں کو پچھلے سال یہ کہتے ہوئے کہا کہ ہم علیحدہ تو نہیں تحائف تقسیم کرتے ہوئے پائے گئے۔ احتجاجیوں سے یہ مطالبہ بھی بے سود ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے چون وچرا تسلیم کرلیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل تو کیا جاتا ہے لیکن اس فریق کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے وہ شاذ ہی اسے تسلیم کرتا ہے۔ نہ پیپلز پارٹی نے بھٹو صاحب کی پھانسی کے فیصلے کو تسلیم کیا نہ تحریک انصاف والوں نے 2013 کے الیکشنز کو منصفانہ قرار دینے کے فیصلے کو تسلیم کیا اور نہ مسلم لیگ والوں نے نواز شریف صاحب کی نااہلی کے فیصلے کو تسلیم کیا لہذا تحریک لبیک سے اس فیصلے کو تسلیم کرنے کی اپیل کرنا بھی بے سود ہے۔

اگر ہم اس معاملے کا پرامن اور دیرپا حل نکالنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے پس منظر میں جانا پڑے گا۔ یہ معاملہ ایسا سادہ نہیں کہ فوری اشتعال کے سبب ایسا ہو رہا ہے اور نہ ہی اس کا تعلق صرف اسی ایک مقدمے سے ہے۔ مجھ جیسے خود کو لبرل کہنے والے اور مولوی حضرات کو درخور اعتناء نہ سمجھنے والے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ اس ملک کے عوام کی اکثریت اسلامی نظام چاہتی ہے۔ عوامی رائے کا ہر سروے اس امر کی تائید کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا آئین بنانے والوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا اور ایسی اسلامی شقیں شامل کیں جو عوام کے نفاذ اسلام کی خواہش کی عکاسی کرتی ہیں۔ لیکن جب بھٹو صاحب کے دور میں یہ اسلامی دفعات کتابی شکل میں تو موجود رہیں لیکن ان پر کوئی عمل درآمد نہ کیا گیا تو اس کا ردعمل بھی مذہبی طبقے میں شدید ہوا- نتیجتاً بھٹو صاحب کے خلاف انتخابی دھاندلی سےشروع ہونے والی مہم نفاذ اسلام کی مہم کا روپ دھار گئی۔ پھر ضیاء الحق صاحب نے اپنے دور میں ایسے اقدامات کئے کہ جن سے اسلامی نظام کی خواہش رکھنے والے طبقے کی تشفی ہو سکے اور اس طرح انہوں نے اپنے اقتدار کو پائیدار بنایا۔ نتیجتاً آئین میں ایسی مزید شقیں شامل ہوئیں اور ایسے قوانین بنائے گئے جن کا مقصد نظام حکومت کو اسلام کے تابع کرنا تھا۔

یہ وہ مرحلہ تھا جس کے بعد سیاسی نظام میں مذہبی طاقتوں کا رسوخ کم ہونا شروع ہو گیا کیونکہ مذہب پسند طبقے کو یہ اطمینان ہو چلا تھا کہ آئین اور قوانین اس حد تک اسلامی ہوچکے ہیں کہ بغیر کسی بڑی جدوجہد کے ملک کا نظام اب آہستہ آہستہ خودبخود اسلام کی طرف مائل ہوتا جائے گا۔ لیکن پچھلے بیس پچیس سال میں اس کے برعکس ہوتا رہا ہے۔ کہنے کو تو حکومت پاکستان اس بات کی پابند ہے کہ مسلمانان پاکستان کے لئے ایک ایسا ماحول قائم کرے جس میں اسلامی عقائد اور احکامات کی ترویج ہو لیکن عملاً آئین کی اسلامی دفعات بالکل غیر موثر ہو چکی ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں بن سکتا جو اسلام کے منافی ہو لیکن عدالت عظمیٰ ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ آئین کی کوئی شق دوسری پر حاوی نہیں ہے اس لیے اب اس میں بھی ابہام پیدا ہو گیا کہ قرارداد مقاصد جو آئین کے دیباچے میں شامل کی گئی ہے اس کی دفعات پر عمل ہوسکتا ہے یا نہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے امتناعی سود کا فیصلہ دیا تو وہ عدالت عظمی میں چیلنج ہو گیا اور عدالت نے کئی سال اسے زیر التوا رکھنے کے بعد دوبارہ سماعت کے لئے وفاقی شرعی عدالت میں بھجوا دیا۔ آئین پاکستان کہتا ہے کہ ملک میں شراب نوشی کی ممانعت ہو گی اور صرف مذہبی اقلیتیں اپنی مذہبی رسومات کے لیے شراب استعمال کر سکیں گی۔ لیکن ہوا یہ کہ مذہبی رسومات کے بجائے روزمرہ کے استعمال کے لیے اقلیتوں کے نام پر شراب نوشی کے لائسنس جاری کئے جانے لگے اور اب شراب کا استعمال مقتدر طبقات کی تقریبات میں عام ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے شراب خانے بند کرنے کا حکم جاری کیا اس حکم کو بھی عدالت عظمیٰ نے ختم کردیا۔ مذہبی طبقہ کو ٹی وی چینلز کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی پر بھی بہت اعتراض ہے۔ یہ طبقہ اس بات پر بھی چیں بہ جبیں ہے کہ ہمارے ماڈرن تعلیمی ادارے ایسے دیسی انگریز پیدا کر رہے ہیں جنہیں نہ تو اپنے مذہب کا کچھ پتہ ہے نہ اپنی ثقافت سے کوئی شغف۔ ہمارے ہاں جو سماجی اور معاشرتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور جس طرح روایتی اقدار ختم ہوتی جا رہی ہیں اس سے بھی یہ طبقہ تشویش میں مبتلا ہے۔

پھر توہین رسالت کے قانون کے مسئلے پر آجاتے ہیں پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان میں توہین رسالت کے سینکڑوں مقدمات درج ہوئے، کچھ مقدمات میں ابتدائی طور پر ملزمان کو سزائیں بھی ہوئیں لیکن پھر اپیل پر بری ہوتے رہے- آج تک کتنے ایسے مقدمات ہیں جن میں قانون کے مطابق توہین رسالت کی سزا پانے والے ملزم کی سزا پر عمل درآمد ہوسکا ہو؟ ہوسکتا ہے کہ تمام مقدمات ہی ایسے ہوں جو جھوٹ پر مبنی ہوں اس لیے سزاؤں پر عمل نہیں ہوا لیکن دوسری طرف مذہب پسند طبقہ یہ محسوس کرتا ہے کہ مغربی ممالک کے دباؤ پر ایسی سزاؤں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ اس سے یہ تاثر قائم ہوا کہ یہ توہین رسالت کا قانون بالکل بے اثر ہے. کسی مجرم کو سزا تو ہونی نہیں اس لیے لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کردیا۔

اس ماحول میں مذہب پسند طبقہ اپنے آپ کو محاصرے میں محسوس کرنا شروع ہو گیا- یہ سوچ پروان چڑھی کہ مٹھی بھر سیکولر اقلیت ریاست میں مقتدر حیثیت رکھتی ہے اور ملکی آئین و قانون کو پس پشت ڈال کر سیکولر نظام مسلط کرنا چاہتی ہے- اس لئیے مذہب پسند طبقہ سمجھتا ہے کہ عوامی سطح پر سخت مزاحمت نہ کی گئی تو سیکولر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے اور نفاذ اسلام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا- اگر عام حالات میں ایسا عدالتی فیصلہ آتا تو شاید عوامی سطح پر اتنی مزاحمت نہ ہوتی، لیکن مذہبی طبقہ میں اب جو سوچ پنپ رہی ہے اس نے اسے اس قدر حساس بنا دیا ہے کہ کاروبار مملکت روک دینے تک نوبت جا پہنچی ہے-

ملک کے مذہبی طبقے کی تسلی کے لئے اب یہ کافی نہیں ہے کہ آئین میں اسلامی دفعات شامل ہیں بلکہ یہ طبقہ ان پر عمل درآمد بھی چاہتا ہے۔ اب اگر طاقت کا استعمال کر کے وقتی طور پر معاملے کو دبا بھی دیا گیا تو مسئلہ ختم نہیں ہوگا بلکہ مذہب پسند طبقے کی تعداد اور جذبات کو دیکھتے ہوئے عین ممکن ہے کہ ملک شدید انارکی اور داخلی انتشار کا شکار ہو جائے- ہم کسی صورت ایسی صورتحال کے متحمل نہیں ہو سکتے- لازم ہے کہ فریقین اس مسئلہ کو آئین پاکستان اور ملکی قوانین کو بنیاد بنا کر حل کرنے کی کوشش کریں- مظاہرین ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے سے باز رہیں جبکہ حکومت آئین کی اسلامی دفعات کی روشنی میں نفاذ اسلام کے لئیے کام شروع کرے اور اسے مکمل کرنے کا نظام الاوقات بھی دے-

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے بھی یہ اصول کی بات ہے کہ سیکولر طبقات ملک کو ایک سیکولر ملک بنانا چاہتے ہیں اور مذہب سے اس کا تعلق ختم کرنا چاہتے ہیں تو عوام سے اس بات پر ووٹ لیں اور جاکر آئین میں ترمیم کر لیں لیکن جب تک آئین میں اسلامی دفعات موجود ہیں تو پھر ان کو بالائے طاق رکھ دینے کی تک نہیں بنتی- آئین پر مکمل عمل درآمد حکومت اور ریاست کے تمام اداروں کا فرض ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ان دفعات کو علامتی طور پر آئین میں شامل بھی رکھا جائے لیکن عملاً اس کے بالکل برعکس اقدامات کیے جائیں۔ بندوق کے زور پر ملک کے اتنے بڑے حصے کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔ اگر آئین اور قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو تشدد پسند لوگوں کی عوامی حمایت بہت کم رہ جائے گی اور پھر وہ شدت پسند جو عوامی زندگی میں مزاحم ہوتے ہیں ان سے نمٹنا آسان ہو جائے گا۔ لیکن موجودہ صورتحال میں مذہبی طبقے کے جائز مطالبات سے صرف نظر کر کے کوئی حل نہیں نکالا جا سکتا۔ مجھ جیسے لوگ ذاتی طور پر مذہب پسند طبقے کے مطالبات سے متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن اکثریتی رائے کا احترام ہی پرامن بقائے باہمی کی ضمانت ہے۔

Facebook Comments

کامران ریاض اختر
پیشہ: تزویراتی مشاورت ، شغل: جہاں گردی ، شغف: تاریخ عالم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply