امتیازی خصوصیت۔۔مرزا مدثر نواز

اس جہان فانی کا جدّ امجد ایک ہی ہے اور تمام بنی نوع انسان اسی کی اولاد ہیں۔ ساری روئے زمین پر ایک ہی معبود برحق کی پوجا کی جاتی تھی۔ پھر طاغوت کے وار کامیاب ہوئے‘ شخصیت پرستی نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کیے اور ایک معبود کی بجائے کئی معبودوں کی پوجا کی جانے لگی۔ بنانے والا کہتا ہے کہ اس نے انسانوں کے قبیلے‘ گروہ یا خاندان ان کی شناخت کے لیے بنائے لیکن جب یہ گروہ ایک دوسرے کے ساتھ بر سر پیکار ہوئے تو ہر ایک نے تفاخر‘ برتری اور نظام مراتب کے بڑے بڑے قلعے تعمیر کر لیے تا کہ دوسروں پر اپنی دھاک بٹھائی جا سکے۔ یہ قلعے اتنے پائیدار اور مضبوط بنیادوں کے حامل ہیں کہ بڑے بڑے دانشور و سکالرز بھی ان کو چیلنج نہ کر سکے اور ان کی مضبوطی میں معاون بنے کیونکہ ان سے نفس کو ایک خاص قسم کا سرور‘ سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے اور کبر و بڑائی کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ ہندو معاشرے میں ذات پات کے نظام کی جڑیں گو کئی ہزار سال پرانی ہیں لیکن انگریز نے ان کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا۔ ہر گروہ کی کالونیاں الگ ہیں‘شادی مخصوص گروہ کے باہر نہیں ہو سکتی‘ نچلی ذات والے کو اونچی ذات والے کے برابر بیٹھنے اور کھانے پینے کی اجازت نہیں۔برہمن جاہل و اَن پڑھ ہو کر بھی برہمن ہے ،جبکہ شودر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے باوجود شودر اور قابل نفرت ہی رہے گا۔

عالمِ  غیب سے نازل ہونے والے ہدایت نامے‘ آخری آسمانی کتاب قرآن اور آخری نبی ﷺکے ارشادات کی صورت مکمل ہو چکے‘ اب مزید کسی کتاب کی ضرورت ہے نہ کسی نبی کی۔ لہٰذا اس دین فطرت نے قیامت تک ظہور میں آنے والے ہر معاملے میں نسل انسانی کی رہنمائی کر دی ہے۔ دین فطرت و برحق ہونے کے ناطے یوں تو اسلام کی ہر خصوصیت ہی امتیازی ہے لیکن اس کی واضح ترین خصوصیت جو اسے دوسرے ادیان سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی نظر میں آقا اور غلام‘ معزز اور حقیر‘ چھوٹا اور بڑا‘ ادنیٰ و اعلیٰ‘ امیر و فقیر‘ سب برابر ہیں۔ صہیب و بلال جو آزاد شدہ غلام تھے‘ سرداران قریش کے پہلو بہ پہلو ان کا نام ہے۔ اسلام کے سامنے صرف ایک ہی چیز ہے جس سے انسانوں کے باہمی رتبے میں تفریق ہو سکتی ہے‘ یعنی تقویٰ اور حسن عملِ ،ترجمہ: تم میں معزز وہی ہے جو زیادہ متقی ہے (الحجرات‘13)۔

آپﷺ نے صرف ایک فقرے میں مراتب کی تفریق کر دی، بزرگی اور بڑائی صرف تقویٰ و حسن عمل ہے (ترمذی باب مفاخرۃ)۔

ایک کو دوسرے پر فضیلت نہیں اور تقویٰ کے سوا اور کوئی حق ترجیح و فضیلت نہیں ہے(مشکوۃ باب مفاخرۃ)۔

تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنا تھا‘ پس سب آپس میں برابر ہیں (مشکوۃ باب مفاخرۃ)۔

مساوات قانونی کی اصلی تصویر صرف اسلام کے البم ہی میں مل سکتی ہے۔ قانون اسلام کی نگاہ میں حاکم و محکوم اور امام و عام انسان یکساں ہیں۔ کیا اسلام سے پہلے یہ ممکن تھا کہ بادشاہ اپنی رعایا کے مقابلے میں ایک معمولی آدمی کی طرح عدالت میں حاضر ہو؟ حضرت عمرؓ اور ابی ابن کعبؓ میں ایک معاملہ کی نسبت جھگڑا ہوا۔ زید بن ثابت کے ہاں مقدمہ پیش ہوا۔ حضرت عمرؓ جب ان کے پاس گئے تو انہوں نے تعظیم کے لیے جگہ خالی کر دی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ابن ثابت! یہ پہلی بے انصافی ہے جو تم نے اس مقدمے میں کی‘ یہ کہہ کر اپنے فریق کے برابر بیٹھ گئے (کتاب الخراج)۔ اسی طرح حضرت علیؓ جب ایک مقدمہ میں مدعا علیہ بن کر آئے تو ان کو مدعی کے برابر کھڑا ہونا پڑا (عقد الفرید)۔

قانون اسلامی میں قریب و بعید کا بھی کوئی امتیاز نہیں‘ آپ نے صاف فرما دیا: خدا کی  حدود یعنی خدا کے مقرر کردہ قوانین و آئین دور و قریب‘ رشتہ دارو غیررشتہ دارسب پر یکساں جاری کرو اور خدا کے معاملہ میں تم ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پرواہ نہ کرو (ابن ماجہ کتاب الحدود)۔

جبلہ بن ایہم غسانی ایک عیسائی شاہزادے نے عہد فاروقی میں اسلام قبول کیاتھا۔ طواف کعبہ کے موقع پر اس کی چادر کا ایک گوشہ ایک شخص کے پاؤں کے نیچے آگیا۔ جبلہ نے اس کے منہ پر ایک تھپڑ کھینچ مارا۔ اس نے بھی برابر کا جواب دیا۔ جبلہ غصہ سے بیتاب ہو گیا اور حضرت عمرؓ کے پاس آ کر شکایت کی۔ آپ نے سن کر کہا کہ تم نے جیسا کیا تھا‘ ویسی ہی اس کی سزا بھی پالی۔ اس نے کہا: ہمارے ساتھ کوئی گستاخی کرے تو اس کی سزا قتل ہے۔ مگر حضرت عمرؓ نے فرمایا ”ہاں‘ جاہلیت میں ایسا ہی تھا‘ لیکن اسلام نے شریف و ذلیل اور پست و بلند کو ایک کر دیا“۔ جبلہ اس ضد میں پھر عیسائی ہو گیا اور روم بھاگ گیا‘ لیکن خلیفہ اسلام نے مساوات اسلامی کی قانون شکنی گوارا نہ کی۔

مساوات قانونی کو چھوڑ کر اسلام کی عام طرز مساوات پر غور کرنا چاہیے۔ حضور اکرم ﷺ تمام مسلمانوں کے آقا اور سردار تھے‘ تاہم آپ نے عام مسلمانوں سے اپنے لیے کبھی کوئی زیادہ امتیاز نہیں چاہا۔ ایک سفر میں کھانا پکانے کے لیے صحابہ نے کام تقسیم کر لیے تو جنگل سے لکڑیاں لانے کی خدمت سرور کائنات نے خود اپنے ذمہ لی۔ حضرت انسؓ دس برس خدمت نبوی میں رہے لیکن ان کا بیان ہے کہ اس مدت طویل میں میں نے جتنی خدمت آپ کی کی‘ اس سے زیادہ آپ نے میری کی۔ مساوات کا یہ عالم تھا کہ،یعنی تحکمانہ کام لینا یا جھڑکی دینا تو بڑی بات ہے‘ کبھی آپ نے اتنا بھی نہ کہا کہ فلاں کام یوں سے یوں کیوں کیا؟ ایک صحابی نے اپنے غلام کو مارا تو آپ نے فرمایا: ”یہ تمہارے بھائی ہیں‘ جن کو خدا نے تمہارے ہاتھ میں دیا ہے۔ جو خود کھاؤ وہ ان کو کھلاؤ‘ جو خود پہنو‘ وہ ان کو پہناؤ“۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسلام نے نہایت شدت کے ساتھ اس سے روکا کہ کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو خواہ وہ کیسا ہی ادنیٰ درجہ کا کیوں نہ سمجھا جاتا ہو‘ ”غلام“ اور ”باندی“ کہے کیونکہ سب خدا ہی کے غلام ہیں۔ اسی طرح غلاموں کو فرمایا کہ اپنے مربیوں کو آقا نہ کہیں کہ مساوات اسلامی میں اس سے فرق آتا ہے۔ خلفائے راشدین جو تعلیم اسلامی کے زندہ پیکر تھے‘ ان کا بھی ہمیشہ یہی طرز عمل رہا۔ حضرت عمرؓ اور ان کا غلام سفر بیت المقدس میں باری باری سے سوار ہوتے تھے۔ بیت المقدس کے جب قریب پہنچے تو غلام کی باری تھی۔ غلام نے عرض کیا کہ آپ سوار ہوں کہ شہر نزدیک آگیا۔ آپ نے نہ مانااور آخر خلیفہ اسلام بیت المقدس میں اس طرح داخل ہوا کہ اس کے ہاتھ میں اونٹ کی مہار تھی اور اونٹ پر اس کا غلام سوار تھا، حالانکہ یہ وقت تھا جبکہ تمام شہر خلیفہ اسلام کی شان و عظمت کا تماشہ دیکھنے کے لیے امنڈ آیا تھا۔ (حوالہ جات‘ اسلام اور جمہوریت از آزاد)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply