آ” آدھا بم “۔۔محمد وقاص رشید

یہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں، جو سانس زندگی کی علامت دھڑکن بنتی ہے،نبض بن کر رگوں میں دوڑتی ہے یہ ہوا سیدھی ہمارے نظام تنفس تک نہیں پہنچتی بلکہ خدا کی پیدا کردہ یہ آزاد ہوا اب زمین کے خداؤں کی قیدی ہے یہ ان ساہو کاروں کے گندم کے کھیتوں اور آٹے کی چکیوں سے گزر کر آتی ہے۔ یہ اپنے ساتھ جو آٹے کے ذرات لے کر آتی ہے حیات زمین پر ان ذرّوں کا خراج ہے۔ بنیادی انسانی حقوق یہاں ان ذرّوں کے عوض گروی رکھی ہوئے ہیں اور غریب اس نظام میں ان ذرْوں کے عوض زندگی کو تج کر اپنی غربت کا تاوان بھرتا ہے۔آٹے کے ترازو پر دوسری طرف باٹ نہیں انسان تُلتے ہیں۔ زمین کے خدا جب چاہیں خدا کی پیدا کردہ گندم کے دانے کے دام بڑھا کر اسکے نائب انسان اور انسانیت کو ہلکا کر دیں۔۔زمینی خدا جو ٹھہرے!

اس سر زمین کی بنیادوں کو اپنے لہو سے سیراب کرنے والوں کی چوتھی نسل آج بھی لہو لہو ہے۔۔۔ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر گھائل اور آنکھیں خون کے آنسو بہاتی ہوئی ۔آبلہ پا مشقت زدہ ہاتھوں کی زخمی پوروں سے آنکھیں مل مل کر دیکھتے ہیں اور اک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ وہ جس نے پاکستان کا مطلب ہونا تھا وہ خدا کہاں ہیں۔ وہ جس نے یہاں کا حاکمِ اعلیٰ  بننا تھا کیوں اب تک معذول ہے ۔ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ وہاں ہم غلام ہیں اور یہاں آکر آزاد ہو جائیں گے تو یہاں ہمارے اپنوں نے ہمیں احتیاج کے قفس میں کیوں جکڑ لیا۔  ہمارے گھر کے ساتھ اُگنے والی گندم آٹا بننے تک ، گنا چینی بننے تک ، مکئی گھی یا تیل بننے تک آخر کیا ہندو اور انگریز  کے کسی گٹھ جوڑ کے نظام سے گزرتا ہے ،جو ہمارے بچوں کے پپڑی جمے بھوکے پیاسے ہونٹوں تک پہنچنے سے پہلے ہمارے خواب ہماری آرزوؤں ہماری خواہشوں اور ہمارے بنیادی حقوق کو بھی پیس کر ریزہ ریزہ کر دیتا ہے۔۔۔جس دن رعایا نے یہ باتیں آپس میں کرنے کی بجائے اشرافیہ سے پوچھنا شروع کر دیں وہ دن ہی اس استبدادی نظام کی بیخ کنی کا پہلا دن ہو گا۔

اس تفاوتی نظام کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہاں 22کروڑ عوام کے وسائل پر 2فیصد اشرافیہ ایک جونک کی طرح قابض ہے۔ اس اشرافیہ کے چہرے پر سرخی و سپیدی دراصل اس عوام کا خون چوسنے ہی کی بدولت ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ اس عوام کے چہرے کی زردی اپنا لہو اس اشرافیہ کو پلانے کے باعث ہے۔ یہ خون چوسنے کے لئے جو نظام رائج ہے اسکو نام نہاد معاشی نظام کہا جاتا ہے۔۔ یہ معاشی نظام درحقیقت اشرافیہ کا چولہا ہے جس میں عوام کا خون پسینہ ایندھن بن کر جلتا ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ کی مراعات کے لیے عوام ٹیکس دیتے ہیں اور اپنی دیہاڑیوں ، مزدوریوں اور تنخواہوں سے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر عوام اشرافیہ کے لئے مراعات سہولتوں اور زندگی کی رعنائیوں کا بندوبست کرتے ہیں اور انکی چکا چوند زندگیوں کو عمر بھر حسرت سے دیکھتے ہیں۔ اس بندوبست کا نام مہنگائی ہے۔۔

زندگی  ہر عہد میں عوام کی پہنچ سے دور ہوتی گئی اور حکمران اشرافیہ عوام سے پرینک کر کے عوام کو دور کھڑی زندگی کی طرف اشارہ کر کے کہتی رہی کہ ہمارے وعدے تو ایک مزاق تھے وہ رہا زندگی کا کیمرہ اسے ہاتھ ہلا دیں۔۔لیکن افسوسناک بات یہ نہیں کہ ہم حسرت سے ہاتھ ہلاتے رہے بلکہ زیادہ شومئی قسمت یہ کہ ہم ہر پرینک کو سچ سمجھتے رہے۔۔

لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ہم عوام سے سب سے بڑا پرینک تبدیلی کے نام پر ہوا۔۔پچھلوں کے تمام پرینکس کو  گلیوں چوکوں چوراہوں میں عوام کے سامنے بے نقاب کر کر کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے موجودہ حکمران سے زیادہ پاکستان کی تاریخ میں کسی شخص کے بیانات آئینہ بن کر اسکے قول و فعل کے تضاد کا منہ نہیں چڑاتے۔ وہ جو سٹیج اور کنٹینر پر چڑھ کر یہ فرمایا کرتے تھے اور ملکی معیشت کو عوامی روزمرہ زندگی کے پیمانے پر جانچنے کا جن کا فارمولا انتہائی سادہ تھا کہ اگر گزر اوقات کی چیزیں مہنگی ہوں تو سمجھ لو حکمران چور ہے۔۔۔کیونکہ حکمران کی کرپشن اور چوری کی قیمت عوام مہنگائی سے دیتے ہیں اور محض اتنا ہی نہیں اس پر بلند و بانگ دعوے کہ عوام اگر انہیں ووٹ دیں تو محض 90دن میں اس ظالمانہ نظام میں بنیادی اصلاحات کر کے وسائل کو اشرافیہ کے پنجوں سے نکال کر عوام کی دہلیز پر رکھ دیں گے۔

وہ عمران خان جو فرمایا کرتے تھے کہ مہنگائی کر کے عوام کی زندگیاں اجیرن کر کے تو کوئی بھی معیشت چلا سکتا ہے میں ایسا نہیں کروں گا کا دعویٰ  کرنے والے شخص کی حکومت کے پچھلے تین سالوں میں روزمرہ زندگی کی کوئی ایسی شے نہیں جس کی قیمت آسمان سے باتیں نہیں کر رہی۔۔ماشاللہ جس بھی شے کا نوٹس لیا وزیر تبدیل ہوتے رہے چیزوں کی قیمتیں واپس نہ آئیں ۔آٹا ،چینی ،گھی ،دال ،چاول ،چائے ،دوا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے ساتھ بجلی ،گیس ، پیٹرولیم مصنوعات کے بلوں نے عوام کا بھرکس نکال دیا ۔

عوام کو دیا گیا عید کا تحفہ پیٹرول بم کی صورت زندگی کے پرخچے اڑانے کے مترادف ہے جہاں پہلے ہی حکومتی نااہلی کی وجہ سے لا قانونیت کا راج ہے اس پیٹرول بم کی مد میں ہر شے کی قیمت مزید کتنی بڑھے گی کوئی نہیں جانتا۔ چند دن پہلے بجٹ میں مہنگائی نہ کرنے کے دعوے عوام کے ساتھ اس پیٹرول بم کی زد میں آکر کس طرح چیتھڑے چیتھڑے ہونگے۔ اس کی پرواہ بھی کسے ہے کیونکہ ان تین سالوں میں اگر روزمرہ عوامی زندگی پالیسیز کا محور عملا ً ہوتی تو اگر کچھ بھی نہ بدلتا تو تین سال سے ایک ہی تقریر کی کیسٹ ضرور بدل جاتی جس میں خود نمائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

راقم کو جو چیز سب سے زیادہ اذیت دیتی ہے وہ اس نظام کی مکاری اور منافقت ہے۔ جب بھی عوام پر بجلی ،گیس یا پیٹرولیم مصنوعات کا بم گرایا جاتا ہے تو انتہائی سفاکانہ عیاری اور انتہا درجے کی سنگدلی سے یہ خبر روتی ،سسکتی اور بلکتی رعایا میں حکمران کی طرف سے پہنچائی جاتی ہے کہ اسکی حکومت نے سمری تو اتنے کی بھیجی تھی لیکن مخلوقِ خدا کا درد اور احساس رکھتے حاکم نے حاتم طائی کی بجائے عوام کی قبر پر لات مار کر آدھے پیسے بڑھائے ہیں ۔۔

یہاں میرے ذہن میں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں وہ یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭اگر 5 روپے چالیس پیسے بڑھا کر حکمران عوام پر احسان جتلاتا ہے تو 11 روپے کی سمری بھیجنے والی اپنی حکومت سے باز پُرس کیوں نہیں کرتا کہ انہوں نے زیادہ پیسوں کی سمری کیوں بھیجی ؟

٭باقی ماندہ 5روپے 60پیسے اگر واقعی حقیقی لاگت تھی تو یہ سبسڈی کیسے ادا کی جائے گی اور اگر یہ سبسڈی دی جا سکتی ہے تو پہلے سے پستی ہوئی عوام کی مشکلات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بڑھائے گئے 5 روپے 40پیسے بھی عوام کی بجائے اپنے دعوی کردہ direct r taxation system کے ذریعے اشرافیہ سے کیوں نہیں نکلوائے گئے ؟

٭ وہ جو بطور اپوزیشن لیڈر مکے کنٹینر پر کھڑے ہونے سے لے کر پچھلے دنوں بطورِ حکمران ہر تقریر میں مخالفین کے لتے لیتے ہوئے کہا جاتا رہا ہے کہ وہ چور ڈاکو روزانہ کی بنیاد پر اتنے ارب کی کرپشن کرتے تھے سوال یہ ہے کہ اب تو کرپشن بھی نہیں ہو رہی تو ان اربوں کھربوں روپوں میں سے کم از کم پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں ہی عوام کو مہنگائی کے طوفان سے بچانے کے لئے باقی ماندہ 5 روپے 60 پیسے ادا کیوں نہیں کر سکتے ؟

٭ آپ کے حال ہی میں اپنی حکومتی معیاد کے تیسرے بجٹ کی تقریر کے دوران کیے گئے دعوے کے بقول معیشت جو کہ درست سمت میں روانہ ہو چکی اسکے اثرات عوام تک کب منتقل ہونگے اور وہ ان روزمرہ مہنگائی کے بموں میں اپنی ضروریات کے پرخچے اڑتے نہیں دیکھیں گے؟

٭اگر آپ سے کچھ تبدیل نہیں ہوتا تو کم ازکم تبدیلی کے خوابوں کی اتنی بھی لاج نہیں رکھ سکتے کہ خود ہی گیارہ روپے کی سمری دلوا کر محض ریاکارانہ عیاری و مکاری کے لیے پانچ روپے چالیس پیسے بڑھانے کا یہ فرسودہ سفاکانہ اور بے حس طریقہ تو ہی تبدیل کر دیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

٭ سب سے اہم اور آخری سوال کہ کیا آپ کی زندگی کو اس مہنگائی سے اثر پڑا کیا آپ کے بچوں تک ضروریات زندگی کی رسد کئی گنا بڑھائی گئی قیمتوں کے باعث کم ہوئی ؟ یقیناً نہیں تو آپ براہِ کرم مدینے کی ریاست کا نام لے کر اسے بدنام نہ کیا کریں جہاں پڑنے والے قحط کا اثر حاکمِ وقت کے گھر تک جاتا تھا۔۔۔۔۔ آپ اس مکارانہ عیارانہ اور استبدادی نظام کو بعنوانِ تبدیلی تھامے رکھیں اور اسکے سربراہ ہونے کا جشن مناتے رہیں جس میں عوام پیٹرول بم گرائے جانے پر ماتم کناں ہوں بھوکے پیٹوں مدقوق سینوں کو پیٹ رہے ہوں اور آپ انکے خون پسینے کی کمائی سے چلتے اونچے اونچے ایوانوں سے تسبیح پکڑے انہیں پیغام دیں کہ میرا احسان مانو کہ تم پر آدھا بم گرایا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply