وہ جن کے لیے سفر ہی زندگی ٹھہرا۔۔خنساء سعید

انسانی تاریخ چھوٹی چھوٹی کڑیوں سے بنی ایک زنجیر کی طرح ہے جو آگے بڑھتی ہے پیچھے نہیں ہٹتی ،اس میں ہر ایک ترقی کی کڑی پچھلی تمام کڑیوں سے جڑی ہوتی ہے ۔یہی انسانی تاریخ جس کو ہم وقت کی سڑک پر بہت تیزی سے دوڑتا ہوا دیکھ رہے ہیں یہ چند ہزار سال پہلےکسی کمزور بچے کی طرح لڑکھڑاتی ہوئی کھڑی ہونے کی کوشش کر رہی تھی ۔انسان جب غاروں میں رہتا تھا اُس وقت بھی اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اپنے حالات کے مطابق ایجادیں کرتا تھا اور آج جب ہوا ،بلکہ خلاء میں دوڑتا ہے تب ہی آگے ہی کی سوچتا ہے ۔مگر انسانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جس نے اپنے شانوں پر گھر کا سامان لاد کر غاروں سے نکل کر نگری نگری سفر کیا اور جھگیوں تک پہنچا ۔مختصر یہ کہ انسانوں کے ایک طبقے نے غاروں سے نکل کر پوری دنیا کو فتح کیا اور ایک طبقہ ایسا ہے جس نے غاروں سے نکل کر جھونپڑیوں تک کا سفر طے کیا ۔

خانہ بدوشوں کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔خانہ بدوش قبیلوں کا شمار قدیم قبیلوں میں ہوتا ہے مگر ان قبائل کو باقاعدہ قوم کا درجہ آج تک حاصل نہ ہو سکا ۔خانہ بدوش بر صغیر ہندوستان سے گئے تھے اس لیے ان کا تعلق انڈویورپین سلسلے سے ہے ،یعنی یورپ نہیں بلکہ ساری دنیا میں بسنے والے خانہ بدوش ہندوستان کے خطِوں یعنی پنجاب ، راجستھان ، بنگال سے آئے ہیں۔ جب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت ہوئی (ترک سلطانوں کی) تو اِن بنجاروں کے آباؤ اجداد اناطولیہ اور اس کے قرب و جوار کے مسلمان ممالک میں ہجرت کر گئے۔ ہندوستان میں ان لوگوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا ۔انہیں اوڈ ، ڈوم ،چنگڑ ،اور ٹپر ی واس کے ناموں سے پکارا جاتا ۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ خانہ بدوش لوگ اپنا تعلق مصر سے جوڑتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مصری تہذیب سے اپنا تعلق بتا کر اپنی اہمیت بڑھانا چاہتے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق 1000ء میں یہ لوگ پنجاب کو چھوڑکر فارس اور ایران چلے گئے اور یہاں یہ لوگ دو شاخوں میں تقسیم ہو گئے ایک شاخ شمالی افریقا چلی گئی اور دوسری نے یورپ کا رخ کیا۔شمالی افریقہ میں یہ لوگ مقامی آبادی کے ساتھ گھل مل گئے ،مگر یورپی سماج نے ان کو قبول نہ کیا اور ان پر بہت ظلم کیا دوسری جنگ عظیم میں ان لوگوں کو قیدی بنا کر رکھا گیا اور بہت ساروں کو موت کے گھاٹ بھی اُتار دیا گیا ۔ خانہ بدوشوں کی اپنی کوئی تحریری تاریخ نہیں ہے، اور نہ ہی یہ لوگ اپنے ماضی کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں ۔خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے یہ لوگ نہ تو کہیں مستقل قیام کرتے ہیں نہ بستیاں بساتے ہیں نہ جائیداد رکھتے ہیں اور نہ دولت جمع کرتے ہیں۔ جگہ جگہ آنے جانے کی وجہ سے یہ کئی زبانیں بولتے تھے۔ لیکن اُن کی اپنی زبان “روما” کہلاتی ہے ،جو کہ پنجابی زبان کے قریب تر ہے جس میں ہندوستانی زبانوں کے بہت سے الفاظ شامل ہیں۔

خانہ بدوش آندھی ،طوفان ،گرمی ،سردی ،یہاں تک کہ ہر موسم کی تمازت کو برداشت کرتے ہوئے محو سفر رہتےہیں ۔اور جہاں ان کو کوئی کھلی جگہ ملےوہاں یہ کسی گندگی کے ڈھیر یا گندےپانی کے جوہڑ کے قریب عارضی طور پر جھونپڑیاں لگا کر رہنے لگتے ہیں ۔ان کے بچوں کو پینے کے لیے صاف پانی نہیں ملتا ،نہ ہی ان کے بچے سکو ل جاتے ہیں اور اگر یہ ہی بچے بیمار پڑ جائیں تو علاج کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہوتی ۔ان کی عورتیں محنت و مشقت میں اپنی مثال آپ ہیں ۔یہ صنف نازک جب ایک خانہ بدوش عورت کہلاتی ہے تو اُس میں نزاکت سرے سے ہی ختم ہو جاتی ہے ،یہ اتنی بہادر ہوتیں ہیں کہ راہ چلتے بچوں کو جنم دے دیتی ہیں ،اس کا کام صرف بچے پیدا کرنا اور پھر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے شب و روز تگ و دو کرنا ہوتا ہے ۔یہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں ،لوگوں سے خیرات مانگتی ہیں اور اپنے اہل ِ خانہ کے لیے روزی روٹی کماتی ہیں۔ ان کے مرد جرائم پیشہ ہوتے ہیں اور سارا دن سستا نشہ کر کے سوئے رہتے ہیں ۔یہ ہی خانہ بدوش اگر گجر بکروال قبیلے سے ہوں تو یہ ہر جگہ اپنے ساتھ جانور لیے پھرتے ہیں ۔ ان کی عورتیں بہت با صلاحیت ہوتی ہیں وہ دن بھر کام کرتی ہیں جانوروں کو سنبھالتی ہیں بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور رات کے وقت اپنے تہذیب و تمدن کو زندہ رکھنے کے لیے بلب کی مدھم سی روشنی میں موتیوں کا کام کرتی ہیں ۔یہ کپڑوں پر موتی ٹانکتی ہیں ،موتیوں کے زیور بناتی ہیں ،سامان کے تھیلوں کو خوبصورت اور دل کش بنانے کے لیے ان پر رنگ برنگے موتی لگا دیتی یہاں تک مسالوں کے ڈبوں کو جاذب ِ نظر بنانے کے لیے اُن کی آرائش و زیبائش موتیوں سے کرتی ہیں ایک خانہ بدوش عورت محنت و مشقت کا استعارہ کہلاتی ہے ۔اللہ تعالی نے دوسرے لوگوں کی طرح ان لوگوں کو بھی بہت ذہین بنایا ہے ۔اس کی زندہ مثال معروف گلوکارہ ریشماں ،نصیبو لال ، فرح لال، نوراں لال ،اور 2015 سے تاحال شہرت پانے والیں جسٹن بہنیں ثانیہ اور مقدس ہیں ۔ان سب سے اپنی آواز کا جادو چلایا اور سامعین کو مسحور کیا ۔مگر بد قسمتی یہ ہے کہ ان لوگوں کو معاشرے میں ہر طرف سے دھتکار ملتی ہے ان کی ذہانت کو نکھار کر سامنے نہیں لایا جاتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مون سون کا موسم شروع ہو چکا ہے ایک طرف ہم اپنے پکے مکانوں میں بارش سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو دوسری طرف آندھی طوفان سے ان غریبوں کی جھونپڑیاں اُکھڑجاتی ہیں۔مسلسل بارش سے اُن کی گھر بہہ جاتے ہیں گھر کا سارا سامان پانی میں تیرنے لگتا ہے ۔مگر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ہماری حکومتوں کا فارمولا ہے غربت نہیں غریب مکاؤ ۔اور شومئی قسمت تو دیکھئے ان بے گھر لوگوں کو قومی شناخت تک نصیب نہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ ان لوگوں کو قومی شناخت کے ساتھ ساتھ ان کو رہنے کے لیے کوئی مخصوص ٹھکانہ دے۔آئیں ہم سب مل کر ان خانہ بدوشوں کی آواز بنیں اور عید کی خوشیوں میں ان کو بھی شامل کریں ان لوگوں میں بھی گوشت تقسیم کریں کیوں کہ ہماری قربانی پر ان غریبوں کا بھی حق ہے ۔ہم سب اپنی اس ریاست کے مخافظ ہیں ہم ہی مل کر اس کو خوبصورت اور پرامن بنائیں گے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply