شانِ فاروق اعظم ؓ ۔ بزبانِ اٹالین ملحدہ

 ” کرسٹینا ” نے جیسے ہی اٹالین لہجے کے تڑکے کے ساتھ ” مائن فور بلڈ است اُ مٙر بن کھطاب ” (عمر بن خطاب میرے “رول ماڈل ” ہیں ) کہا میرے سمیت سبھی ہم مکتب چونک پڑے ۔۔ ۔ میں تو اس لیے چونکا کہ جناب عمر سے واقف تھا جبکہ باقی غیرواقفیت کی بنا پر … لیکچرر نے فوراً ہی اسے بورڈ کے پاس آنے اور مذکورہ ” شخصیت ” کا تعارف کروانے کو کہا ۔ ۔ وہ اپنی نشست سے اٹھی ۔  ایک لمحے کو مجھے دیکھا ۔ ۔ ۔ ہلکا سا مسکرائی اور بورڈ کی جانب چل دی ۔ “کرسٹینا ” کی مسکراہٹ نے مجھے ساری کہانی سمجھادی اور مجھے قریباً سات ماہ قبل کا وہ دن یاد آگیا ۔
وہ بھی عام دنوں کی طرح کا ایک دن تھا ۔ ۔ ۔اس دن دوران لیکچر میں ” چائلڈ لیبر ” کے موضوع پر کچھ معلومات ڈسکس ہوئی تھیں ۔ ۔ چند ہم مکتب دوستوں نےدانستہ اس حوالے سے ہونے والی زیادتیوں کو ایشین ممالک کے بجائے خصوصاً پاکستان اور بہت حد تک اسلامی قوانین کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوشش کی تھی   اور موصوفہ اس میں پیش پیش تھیں ۔ میں نے اپنے تئیں کافی حد تک اس معاملے کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی مگر مقامی زبان کے مپتدی طالب علم ہونے کی وجہ سے ٹھیک وضاحت نہ کرسکا تھا اور ساتھ میں لیکچر کا وقت بھی ختم ہوچکا تھا سو وہ بات وہیں کی وہیں رہی ۔
بعد از لیکچر ہم جیسے ہی کمرہ جماعت سے باھر نکلے ” کرسٹینا ” نے مجھے روک لیا تب اس کے ساتھ مزید دو لڑکیاں بھی تھیں جنھیں میں نہیں جانتا تھا ممکن  ہے کسی اور کلاس کی ہوں ۔ ۔ بہرحال ! اس نے قدرے تمسخرانہ انداز میں مجھے مخاطب کیا اور کہنے لگی کہ ” میں پچھلے سات سال سے صحافت سے وابستہ ہوں اور میں اپنی تحقیق کے بعد  اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ بچوں   اور خواتین کے حوالے سے سب سے زیادہ زیادتیاں اور بے قاعدگیاں مسلم ممالک میں ہوتی ہیں   اور میں تو اس سے یہ ہی مطلب اخذ کیا ہے  کہ “اسلام ” نے اس حوالے سے کوئی باقاعدہ قوانین نہیں فراہم کیے   بلکہ مجھے تو لگتا ہے تم مسلمانوں نے مار دھاڑ کے علاوہ کچھ کیا ہی نہیں “
میری خوش قسمتی تھی کہ ‘کرسٹینا” انگریزی زبان پر کافی عبور رکھتی تھی سو میں نے اسے کوئی جواب دینے  کی بجاۓ اس پر ایک سوال کردیا کہ آیا وہ جانتی ہے کہ ” کنڈر گیلڈ ” یعنی وہ وظیفہ جو بچوں کو پیدائش سے ہی  ملنا شروع ہوجاتا ہے اور یورپ کے اس قانون کی دنیا بھر میں مثالیں دی جاتی ہیں ایک عرب مسلم “خلیفہ ” کا شروع کردہ نظام ہے ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس حقیقت کو یکسر فراموش کیا جاتا ہے اور ساتھ میں  نے اسے جناب فاروق کے قائم کردہ ڈیڑھ درجن سے زائد انتظامی شعبوں میں سے چند ایک کے حوالے سے بتایا   اور اس دوران اچانک مجھے اپنے بیگ میں پڑے ایک کتابچے کی بابت یاد آگیا جوکہ جناب فاروق کی انتظامی ایجادات کے حوالے سے تھا اور گزشتہ ہفتے ” کیونگ سٹراسے ” سے گزرتے ہوۓ ایک سٹال سے لیا تھا ۔ کتابچہ جرمن زبان میں تھا اور تب وہ تقریباً  میری سمجھ سے باہر  تھا ۔
“کیونک سٹراسے” پر عموما ہفتے کے روز ایک عرب بزرگ ایک اسلامی کتب کا سٹال لگاتے ہیں اور بہت سی  چھوٹی کتب بلا قیمت ہدیہ کرتے ہیں ،   میں نے بھی مذکورہ کتابچہ وہیں سے لیا تھا ۔۔ سو میں نے کتابچہ بیگ سے نکالا اور ” کرسٹینا ” کو تھماتے  ہوۓ کہا کہ ممکن ہے کچھ وقت کے بعد تم اسے سمجھ سکو، لے لو ہوسکتا ہے تمھارے سوال کا جواب مل جاۓ ۔ ۔ ۔ یہ میری طرف سے تمھارے لیے تحفہ ہے  ۔اس نے تین دفعہ میرا شکریہ ادا کیا جس سے مجھے لگا کہ وہ اپنی بدتمیزی پر تھوڑی شرمندہ ضرور ہوئی ہے ۔ بعد ازاں دوبارہ کبھی اس موضوع پر بات نہیں ہوئی اور سب معمول کے مطابق چلتا رہا ۔
آج سات ماہ بعد ” کرسٹینا ” بورڈ کے سامنے کھڑی تھی ۔ ۔ ۔ اور شان فاروق  اعظم بیان کررہی تھی اور سب کو بتا رہی تھی کہ وہ کیوں اس ” شخصیت ” سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اسے اپنا ” فوربلڈ ” یعنی رول ماڈل کہہ رہی ہے ۔ ۔ ۔ میں نہیں جانتا کہ اس ” کتابچے ” میں کیا تھا  لیکن اتنا ضرور معلوم تھا کہ واقعہ فتح بیت المقدس سے لے کر   فرات کے کنارے پیاس سے مرنے والے کتے کی ذمہ داری تک کے جو واقعات اس نے بیس منٹس میں بیان کیے وہ یقیناً  کافی ہفتوں یا مہینوں کی تحقیق کا نتیجہ تھے ۔ وہ فضائل عمر بیان کرتی رہی  تھی اور میرے ہم مکتبوں کے سوالات کے جوابات دیتی رہی  تھی جبکہ میں اس سوچ میں مگن رہا کہ اس دن ” کرسٹینا ” کے تمسخرانہ سوال کے جواب میں اگر اسی کی سطح پر آکر اسی کے انداز میں جواب دیتا تو کیا آج وہ یہاں اس حالت میں کھڑی یہی سب کہہ رہی ہوتی ؟

Save

Facebook Comments

عثمان ہاشمی
عثمان ھاشمی "علوم اسلامیہ" کے طالب علم رھے ھیں لیکن "مولوی" نھیں ھیں ،"قانون" پڑھے ھیں مگر "وکیل" نھیں ھیں صحافت کرتے ھیں مگر "صحافی" نھیں ھیں جسمانی لحاظ سے تو "جرمنی" میں پاۓ جاتے ھیں جبکہ روحانی طور پر "پاکستان" کی ھی گلیوں میں ھوتے ھیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply