• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پہلی جنگ عظیم-چوتھی قسط(دوسرا ،آخری حصہ)خلافت عثمانیہ کا اعلان جہاد۔۔۔۔آصف خان بنگش

پہلی جنگ عظیم-چوتھی قسط(دوسرا ،آخری حصہ)خلافت عثمانیہ کا اعلان جہاد۔۔۔۔آصف خان بنگش

گیلی پولی (Gallipoli)

ترکوں کو انور کی روس کے خلاف کمپین میں زبردست ناکامی ہوئی تھی، انور پاشا نے ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے سارا ملبہ ترک آرمینینز پر ڈال دیا کہ وہ روس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور اپنی خود مختاری کیلئے روسی فوج میں بھرتی ہو رہے ہیں۔ روسی آرمینیا کے علاقے میں پیش قدمی کرنے لگے اور ترک وہاں سے پسپا ہوتے گئے۔ حالانکہ آرمینیا کی اپنی قوت نہ ہونے کے برابر تھی لیکن ترکوں نے ان کے خلاف (Mass Deportation) کا اقدام اٹھایا۔ ہزاروں لوگ شام کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے جو اس وقت عثمانی سلطنت کا حصہ تھا۔ امریکی مشنری ٹریسی ایٹکنسن (Tracy Atkinson) لکھتی ہے کہ میں نے ہزاروں لوگوں کے ریوڑ دیکھے، زیادہ تر عورتیں اور بچے، بیمار پڑے ہوئے۔ وہ چھ ہفتے سے سڑک پر تھے اور نہیں جانتے تھے کہ ان کی منزل کیا ہے۔ ایک جرمن ڈیپلومیٹ حلب شہر سے رپورٹ کرتا ہے کہ آرمینیا کے چند باغیوں کی وجہ سے تمام آرمینیا کے لوگوں کو کڑی سزا دی گئی تھی۔ تقریبا 8 لاکھ آرمینین اس سانحہ میں لقمہ اجل بنے۔ ترکوں نے اس کا ملبہ قحط سالی، خراب موسم اور انتظامیہ کی غفلت پر ڈال دیا۔
3 جنوری 1915 کو روسی زار نے ترک حملوں کے خوف کی وجہ سے اتحادی افواج کو ترکی پر حملہ کرنے کو کہا جس پر برطانیہ نے لبیک کہا۔ استنبول کی حیثیت مشرق میں ایسی ہی تھی جیسے لندن، برلن اور پیرس کی ملا کر مغرب میں جو حیثیت تھی۔ استنبول کا سقوط جنگ کا نقشہ بدل سکتا تھا۔ ترکی کا سرنگوں ہونا روس کی سمندر تک رسائی کا زریعہ تھا۔ فرانس نے بھی اس مہم میں حصہ لینے کی ٹھانی وہ اکیلے برطانیہ کی بحیرہ روم پر حکمرانی نہیں چاہتا تھا۔ 18 مارچ کو برطانوی اور فرانسیسی بیڑے نے آبنائے دردانیال پر دھاوا بولا لیکن ترک توپوں سے اسے منہ کی کھانی پڑی۔ اس دن تین جنگی جہاز ڈوبے، تین ناکارہ اورچار کو نقصان پہنچا۔ اتحادی افواج کو 700 لوگوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ عثمانیوں کیلئے یہ ایک شاندار فتح تھی۔
اتحادیوں نے دوبارہ کوشش کی اور اس بار اسے زمینی دستوں کا بھی ساتھ حاصل تھا جس میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دستے شامل تھے۔ انہیں انزیک (Anzac) کہا جاتا تھا۔ ترک جانتے تھے کہ یہ ان کے وطن کی بقا کی لڑائی ہوگی۔ بہزاد کریم ایک ترک سپاہی لکھتا ہے کہ “میں اپنے ایمان، اپنے وطن اور اپنے استنبول کے لئے اپنی جان نچھاور کر دونگا۔ میں ان ہاتھوں کو توڑ دونگا جو میرے آبائی وطن کی خوشیوں کے در پہ ہیں، جو میرے بچے کی زندگی اور میری بیوی کی عزت پر اٹھے ہیں۔ میں انگریز سے بھی زیادہ سخت دل ہو کر لڑوں گا۔ اے میری آنکھ کے تارے، اے میرے استنبول میں تجھے سلام پپیش کرتا ہوں۔ تجھ پر جان نچھاور کرنے والے تجھے الوداع کہتےہیں۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

25 اپریل 1915 کو 70 ہزار اتحادیوں نے گیلی پولی (Gallipoli) پر دھاوا بول دیا۔ یہ اس وقت کا سب سے بڑا سمندر کے رستے حملہ تھا۔ دستے کشتیوں میں ساحل پر اتارے گئے۔ ترک توپوں نے ان پر زبردست بمباری کی۔ انزیک Anzac دستے غلط جگہ اتار دیئے گئے تھے۔ اور وہ اترتے ہی بدانتظامی کا شکار ہوگئے۔ ترک ان پر مسلسل آگ برسا رہے تھے۔ نیوزی لینڈ کے دستوں نے آسٹریلوی جرنل کو اس کا ذمہ دار ٹھرایا۔ اورانہیں ترک پہاڑوں پر برستی آگ کے بیچ “آسٹریلوی” اور “نیوزی لینڈ” کی قومیتی شناخت بنی۔ ترک ایک جرمن کمک کے انتظار میں تھے جو جرمن جرنیل نے 9 میل دور روکے رکھا تھا، یہ وہ وقت تھا جب ایک 34 سالہ ترک افسر “مصطفی کمال” نے کمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے جوانوں سے خطاب کیا۔ میں تمھیں دشمن پر حملہ کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ تمہیں اپنی جان دینے کا حکم دیتا ہوں۔ جب تک ہم اپنی جانوں سے اس جگہ کا دفاع کریں گے ایک اور دستہ آکر ہماری جگہ لے لے گا۔ مصطفی کمال نے انور پاشا کو ایک خط لکھا جس میں جرمن جرنل پر شدید غصہ کا اظہار کیا۔ ترک انزیک خطرے کو روکنے میں کامیاب رہے تھے۔ گیلی پولی نے مصطفی کمال کو ایک ہیرو بنا دیا تھا۔ اوراس کے 8 سال کے عرصے میں وہ اپنے ملک کا لیڈر بن گیا تھا۔ اسے ترکوں کا باپ یعنی اتاترک کا خطاب ملا تھا۔
برطانوی لینڈنگ بھی ناکامی کا شکار ہوئی تھی، ریور کلائیڈ (River Clyde)ترکوں کی شدید فائرنگ کی زد میں تھا۔ سمندر کا کنارا اتحادیوں کی لاشوں سے بھرا پڑا تھا۔ سمندر کا پانی خون سے لال ہو گیا تھا۔ بالآخر کچھ اتحادی لینڈنگز کامیاب بھی ہوئیں گو کہ شروع میں کوئی پیش قدمی نہیں ہو سکی۔ اب مغربی محاذ کی طرح یہاں بھی دونوں اطراف سے خندقیں کھودی گئیں اور جو ایک خطرناک (Trench War) کا پیش خیمہ تھی۔
آگ اور خون کا کھیل اب فرانس کی طرح گیلی پولی میں بھی شروع ہو گیا تھا۔ آسٹریلوی فوج نے ترکوں پر زبردست حملے کئے۔ ایک ہی دن میں 10 ہزار ترک سپاہی مارے گئے۔ موسم بہار سے گرمی میں بدل گیا اور خندقوں میں لاشوں کا تعفن ناقابل بردشت ہو گیا یہاں تک کہ فائربندی کر کے لاشوں کو دفنانا پڑا۔ بیماری اب ان سپاہیوں کا بڑا دشمن تھی۔ ایک سپاہی لکھتا ہے کہ میرا ساتھی جو ایک خوبرو مضبوط جوان تھا، 10 دن بعد میں اس سے ملنے گیا تو بمشکل رینگ رہا تھا۔ ہم اسے لیٹرین لے گئے۔ اس میں جان نہیں تھی وہ خندق (جو گندگی کے لئے بنائی گئی تھی) میں گر گیا۔ ہم اسے نکال نہیں پائے ہم میں اتنی ہمت اور جان باقی نہیں تھی۔ اتحادیوں کے حوصلے پست ہونے لگے تھے۔ 20 دسمبر 1915 کی رات ترک افسر عزتن (Izzettin) کو ڈیوٹی افسر نے جگایا۔ انہوں نے کچھ جہاز دیکھے تھے۔ وہ سمجھے یہ ایک نیا حملہ ہونے والا ہے لیکن برطانوی سپاہی جہازوں کی طرف واپس بھاگ رہے تھے، اب وہ بالکل نا امید ہو چکے تھے۔ ترکوں کے خیال میں یہ اللہ کی طرف سے نصرت تھی۔ وہ خالی کی گئی اتحادی افواج کی خندقوں میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے پسپا ہوتے دشمن پر گولی نہیں چلائی۔ 9 خونی مہینوں کے بعد گیلی پولی کی پہاڑیاں خاموش ہو گئیں۔ دونوں اطراف کو قریب ڈھائی لاکھ سپاہیوں سے ہاتھ دھونا پڑا تھا، لیکن ترکوں کے لئے یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ استنبول کو جھنڈیوں سے سجایا گیا، شہر میں دوبارہ زندگی بحال ہو گئی تھی۔
جرمن اب بھی مشرق وسطی میں لوگوں کو جہاد پر ابھارنے کے لئے کوشاں تھے۔ جرمن ایجنٹ اور جاسوس افواہیں پھیلاتے کہ افغان جہاد کے لئے تیار ہیں، بعض جگہ وہ مقامی لوگوں کو خودمختاری کا وعدہ کر کے ابھارتے۔ یہ سب انور پاشا کے نظریے کے خلاف تھا، وہ ایک متحد ترک اور اسلامی مملکت چاہتا تھا۔ اس لئے انور نے خود کو جرمن کے اس منصوبے سے علیحدہ کر لیا۔ اب جرمن خود افغانستان پہنچے تا کہ امیر سے انڈیا پر حملہ کرنے کی بات کریں جہاں امیر نے انہیں دو مہنے انتظار کرایا اور پھر 1 کروڑ پاونڈ اور 1 لاکھ رائفلز کی ڈیمانڈ کی۔ افغان امیر دراصل برطانیہ سے زیادہ قریب تھے اس لئے اس نے جرمنوں کو الجھائے رکھا یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔
انور نے ایک 72 سالہ فیلڈ مارشل (von der Goltz) کو عراق میں کمان سنبھالنے بھیجا جہاں سے وہ فارس اور انڈیا کی طرف پیش قدمی کرے گا۔ برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ مشرق وسطی میں اب طاقت کا مظاہرہ ضروری ہے تاکہ عربوں کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ وہاں کے اصل آقا ہیں نہ کہ جرمن اور ترک۔ مئی 1915 میں برطانوی میجر جنرل سر چارلس ٹاونشنڈ (Charles Townshend) ایک ڈیویژن کی قیادت کرتا ہواعراق کی طرف بڑھا۔ اس کا مقصد بغداد پر قبضہ تھا۔ لیکن شہر سے 25 میل دور کوت (Kut) کے مقام پر ترکوں نے ان کا راستہ روکا۔ ترکوں نے برطانوی فوج کا محاصرہ کیا۔ حالانکہ انگلش فوج اچھی طرح محاصرہ کے لئے تیار تھی لیکن جنوری کے بعد حالات مشکل ہو گئے۔ خوراک ختم ہو گئی، اور نہ ہی محاصرہ توڑا جا سکا۔ سرتوڑ کوشش کے باوجود وہ ناکام رہے۔ 24 اپریل کو 270 ٹن خوراک سے لدا ایک جہاز کوت لیجانے کی کوشش کی گئی جسے دجلہ میں روک دیا گیا۔ اب جنرل ٹاونشنڈ نے ترک جرنل خلیل پاشا کو 1 لاکھ پاونڈ کی آفر کی جس کے بدلے کوت سے محاصرہ اٹھا لیا جائے۔ خلیل پاشا نے کہا اگر یہ آفر کسی اور وقت میں کی گئی ہوتی تو میرا ایک ہی جواب ہوتا جو میری بندوق کی نالی سے ادا ہوتا۔ آخرکار 29 اپریل کو برطانوی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے۔ یہ گیلی پولی سے بھی زیادہ ذلت آمیز شکست تھی۔ ایک فوجی لکھتا ہے اس دن بابل کے کنارے بیٹھ کر ہم بہت روئے۔ محاصرے کے دوران 1750 برطانوی اور انڈین فوجی مارے گئے لیکن 12000 فوجیوں کو صحرا میں سے گزارا گیا۔ جن میں سے 4000 قید میں مارے گئے۔ برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کو جنگ کے شروع میں کوئی اہمیت نہیں دی تھی لیکن اب اسے ترکوں کے ہاتھ پے در پے زبردست ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اپنے آبا کے وطن کی حفاظت ترکوں کے حوصلے بلند کئے ہوئے تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply