• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جاوید میانداد اب پیدا ہونا بند ہو گئے ہیں/تحریر- عبدالستار

جاوید میانداد اب پیدا ہونا بند ہو گئے ہیں/تحریر- عبدالستار

جاوید میانداد اب پیدا ہونا بند ہو گئے ہیں،بلال قطب کا تبصرہ

تشنہ حسرتیں بڑی ظالم ہوتی ہیں، ساری زندگی تگنی کا ناچ نچائے رکھتی ہیں، بھلے بندہ جس مرضی عہدے یا مرتبے پر فائز ہو جائے۔
ثبوت کے طور پر آپ مولانا طارق جمیل کی تقاریر سے استفادہ کرسکتے ہیں، جن میں وہ اکثر ایکٹر یا سنگر بننے کی حسرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔دوران ِ تقریر اکثر گنگنانے لگتے ہیں،اپنے اسی ٹیلنٹ کا مظاہرہ حال ہی میں انہوں نے جی سی یونیورسٹی میں بھی فرمایا تھا۔ لطیفہ بازی اور قصّہ گوئی میں تو خیر مولانا کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے، دورانِ  تعلیم رائیونڈ والوں کے ہتھے چڑھ گئے اور حادثاتی طور پر “مولانا یا مبلغ بن گئے، شاید اسی لیے تقریروں میں گنگنا کر اپنی تشنہ حسرتوں کا دم بھرتے نظر آتے ہیں۔

آپ یوٹیوب کھولیں درجنوں نعت خواں ڈسکو سٹائل میں مکمل آلاتِ  موسیقی کے ساتھ پرفارم کرتے نظر آئیں گے، اس کے علاوہ درجنوں روحانی محافل میں مریدین کا ایک وسیع حلقہ اپنے پیرومرشد کے گرد محو ِ رقص دکھائی دے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیا ہے؟
ظاہر ہے یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو ایکٹر یا سنگر بننا چاہتے تھے مگر روایتی جکڑبندیوں یا حالات کے جبر کے ہاتھوں مجبور ہوکر کے حادثاتی طور پر مولوی یا نعت خواں بن گئے،اب بیچارے کیا کریں، دل کی حسرتوں کا؟ جو بار بار زبان پر آتی رہتی ہیں کنارہ کریں تو من گھبرائے ،دل کی مانیں تو معاشرے کو کیا منہ دکھائیں؟

اس قسم کی ذہنیت کو سید ابوالاعلی مودودی کی مشہور زمانہ اصطلاح کے مطابق”مرد صالح” کہا جاتا ہے اور اگر اس اصطلاح کا ترجمہ اہل نظر وفکر کی زبان میں کریں تو کچھ یوں بنتا ہے کہ “اس معاشرے کو پاکیزگی و تقوی کی انتہا تک پہنچانے کے لئے ایسے صالح نوجوانوں کی ضرورت ہے جو جنسی طور پر “مخنث” ہوں، مطلب جن کا عضو تناسل عضو معطل ہو چکا ہو”

بالکل اسی طرح کے ذہنی مخمصے کا شکار قطب آن لائن والی سرکار بلال قطب بھی نظر آتے ہیں، جو حادثاتی طور پر اسکرین کی دنیا میں داخل تو ہوگئے حالانکہ وہ بہت اچھے مبلغ ہیں اور مذہب کی تبلیغ بہت اچھے سے کرتے ہیں۔
اگر وہ مبلغ ہوتے تو زیادہ بہتر پرفارم کرتے، جس قسم کی مضحکہ خیزیاں وہ بطور اینکر کرتے رہتے ہیں ان سے شاید وہ بچ جاتے۔

جاوید میانداد کے ساتھ ایک پروگرام میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
” میری عمر کے لوگ اپنی ماؤں کو “ماں” نہیں کہا کرتے تھے بلکہ “باجی” کہتے تھے، دادی یا نانی کو ماں کہا کرتے تھے۔ہم نے زندگی میں کبھی ڈبل بیڈ کا تصور اپنے ماں باپ کے ساتھ نہیں دیکھا، دو الگ الگ بستر ہوتے تھے ایک دیوار کے ایک کونے پر اور دوسرا دوسرے کونے پر ہوتا تھا۔حیا جب تھی تب تک میانداد اس ملک میں پیدا ہوتے رہے۔”

اس پیراگراف کی اگر کھلے لفظوں میں وضاحت کریں تو موصوف کچھ یوں کہنا چاہ رہے ہیں کہ
“ہماری نسل بہت باحیا تھی اور آج کی نسل سے حیا کوسوں دور ہو چکی  ہے ،یا حیاکا در ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے، اسی لئے آج جاوید میانداد جیسے فرشتہ صفت انسانوں کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔”

اب اس قسم کی مضحکہ خیزی پر کیا کہا جائے حضور؟
بونوں کے دیس میں مہان بونے بستے ہیں، کس کس کا رونا رویا جائے؟

اس گلستاں   کی ہر شاخ پہ درجنوں اُلو بیٹھے ہیں جنہوں نے اقوال و اوہام اور اساطیر کی اپنی اپنی فیکٹریاں کھول رکھی ہیں اور ماورائے عقل قسم کی قصہ خوانیوں میں لگے رہتے ہیں۔
کیا میاں بیوی کو اپنا محبت بھرا رشتہ صرف اس وجہ سے سے چھپانا چاہیے کہ کہیں ان کے بچے خراب نہ ہو جائیں۔
کیا ڈبل بیڈ کا تصور بچوں کو بے حیائی پر اُکساتا ہے اور انہیں بے شرم بنادیتا ہے؟

کیا فطری تعلقات سے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے؟

ویسے سوال تو بنتا ہے کہ بلال قطب جس قسم کے آئیڈیل، باحیا اور الگ الگ بستروں والے معاشرے کی باتیں کر رہے ہیں ایسا دلفریب معاشرہ کہاں پایا جاتا ہے؟
اس قسم کے انوکھے سادھو یا سادہ لوح کہاں پائے جاتے ہیں؟ بدقسمتی سے اس قسم کا دقیانوسی پر مبنی مائنڈ سیٹ ٹی وی اسکرین کے علاوہ یونیورسٹی کے رئیس جامعات، پروفیسرز اور وارثان محراب و ممبر میں بھی پایا جاتا ہے جو سماج کو غاروں کے زمانے میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
یہ آ سائش وسہولیات کے حساب سے تو اکیسویں صدی میں موجود ہیں مگر ذہنی طور پر ابھی بھی ماضی میں اٹکے ہوئے ہیں، عظمتِ  رفتہ کے یہ قیدی گاڑی تو جدید ترین ماڈل کی انجوائے کرنا چاہتے ہیں مگر اسے چلانا ریورس گیئر میں چاہتے ہیں۔

اسی لئے تو جامعات میں طارق جمیل، احمد رفیق اختر اور قاسم علی شاہ جیسوں کا راج ہے اور ٹی وی اسکرین پر بلال قطب جیسے مہان گیانیوں کا۔

مذہبی معاشروں کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ انہیں انسانوں کو فرشتہ بنانے کی فکر لاحق رہتی ہے جینوئن انسان تو انہیں سوٹ ہی نہیں کرتے۔
یہ برائے نام معاشرتی پارسا ایک ایسا انسان نما روبوٹ بنانے کے چکروں میں پڑے رہتے ہیں جو اپنی نفسانی و جنسی خواہشات سے قطع تعلق کر لیں۔
اس قسم کی ذہنیت کو سید ابوالاعلی مودودی کی مشہور زمانہ اصطلاح کے مطابق”مرد صالح” کہا جاتا ہے اور اگر اس اصطلاح کا ترجمہ اہل نظر وفکر کی زبان میں کریں تو کچھ یوں بنتا ہے کہ
“اس معاشرے کو پاکیزگی و تقوی کی انتہا تک پہنچانے کے لئے ایسے صالح نوجوانوں کی ضرورت ہے جو جنسی طور پر “مخنث” ہوں، مطلب جن کا عضو تناسل عضو معطل ہو چکا ہو”

پرہیزگاری و تقویٰ  کی اس اعلیٰ  منزل کو پانے کے لئے حفاظتی بندوبست کے طور پر ہزاروں خانقاہیں و درگاہیں یا لاکھوں مدارس اور مساجد کے علاوہ جماعت اسلامی کے علما  اور فضلا  ہر سال تربیتی کنونشن کا اہتمام کرتے رہتے ہیں جس میں لاکھوں نوجوانوں کو “مردِ صالح” بنانے کا بندوبست ہوتا ہے اور نجانے کب سے جماعت اسلامی کے علاوہ تبلیغی جماعت یا دعوتِ اسلامی کی صورت میں “روحانی ورکشاپس” کا سلسلہ چل رہا ہے جس میں سے ہر سال لاکھوں نوجوان مردِ  صالح کے مرتبے پر براجمان ہو کر   نکلتے ہیں۔ دعوت اسلامی والے تو مراقبہ موت و قبر کا بھی خصوصی اہتمام کرواتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی جسمانی و ذہنی ریاضت کا ماحاصل یا آؤٹ پٹ کیا ہے؟

ایک طرف مدارس ہر سال لاکھوں علما  تیار کر رہے ہیں اور دوسری طرف جماعت اسلامی والے لاکھوں جوان صالح تیار کر رہے ہیں۔
اس سارے بندوبست کے باوجود بھی ہمارا شمار پورن سائٹس دیکھنے والوں میں سرفہرست کیوں ہوتا ہے؟

ناصرف ہم بلکہ دوسرے اسلامی ممالک کا بھی یہی حال ہے آخر کیوں؟

Advertisements
julia rana solicitors

سوچنا ہوگا کہ جہاں آدھی سے زیادہ آبادی صالحین پر مشتمل ہو اور چند ایک گناہگار بستے ہوں تو پھر پورن سائٹس چھپ چھپا کے کون دیکھ رہا ہے؟ جاوید میانداد کے پیدا نہ ہونے کے سبب کے پیچھے چند ایک گناہگار ہیں یا جاوید میانداد کی پیدائش میں منافقت یا فریب کاری کا مہین پردہ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply