ڈرامے کیلئے خواجہ سرا کی فرضی کہانی کیوں ؟-ثاقب لقمان قریشی

میری زیادہ تر تحریریں خواجہ سراء کمیونٹی اور معذور لڑکیوں کے مسائل پر مبنی ہوتی ہیں۔ نئی لڑکیاں اور خواجہ سراء اکثر رابطہ کرتے رہتے ہیں۔ خواجہ سراء میرے گھر بھی آتے ہیں اور اپنی تقریبات میں مدعو بھی کرتے ہیں۔ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کی بیگم بُرا نہیں مناتیں۔ بیگم صاحبہ اور میرا رشتہ میاں بیوی سے زیادہ دوستوں والا ہے۔ میرے موبائل کا پاس ورڈ بیگم اور بچوں تک کو پتہ ہے۔

میں ہفتے میں دو تحریریں لکھتا ہوں۔ پھر چھٹی کے روز میں بیگم کے ساتھ مل کر انکی ایڈیٹنگ کرتا ہوں۔ چند روز قبل بیگم صاحبہ نے بتایا کہ اے-آر-وائی پر “سر راہ” کے نام سے ڈرامہ سیریز میں خواجہ سراء کی زندگی پر ایک قسط بنائی گئی ہے آپ ضرور دیکھیے گا۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے آج جتنی بھی آگہی ہے اس میں میرا اور میری بیگم کا کردار اہم ترین رہا ہے۔ اس لیے ہم خواجہ سراؤں کے حوالے سے چلنے والی ہر خبر پر نظر رکھتے ہیں۔

عدیل رزاق صاحب نے ڈرامہ تحریر کیا ہے۔ اسکی کاسٹ میں نبیل، جویریہ سعود اور صبا  قمر جیسے باصلاحیت اداکارشامل ہیں ۔ ڈرامے کو یوٹیوب پر اب تک 80  لاکھ سےز یادہ ویوز مل چکے ہیں۔
کہانی خواجہ سراء بچے کے فرضی کردار پر گھومتی ہے۔ جس کی ماں پیدائش کے بعد فوت ہو جاتی ہے۔ باپ دوسری شادی کر لیتا ہے۔ شادی کے وقت نہیں بتاتا کہ پہلی بیوی سے پیدا ہونے والا بچہ خواجہ سراء ہے۔

دوسری بیوی سے بھی ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ یہیں سے سوتیلی ماں کے ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ سوتیلی ماں کی نفرت کہانی کو چار چاند لگا دیتی ہے۔

دو سین اس قدر شاندار تھے کہ انھوں نے مجھے بھی جذباتی کر دیا۔ ایک سین میں خواجہ سراء بچہ فیل ہو جاتا ہے اور پریشان ہو کر رزلٹ باپ کو دکھاتا ہے۔ جس پر باپ خوشی سے ناچنے لگتا ہے۔ بچے کو موٹیویٹ کرنے کیلئے گانا گاتا ہے۔ پھر سوتیلی ماں کی آمد ہوتی ہے۔ جو میاں سے کہتی ہے کہ تم کچھ بھی کر لو یہ پڑھنے والا نہیں ہے۔

دوسرے سین میں سوتیلی ماں بچے کو ورغلاتی نظر آتی ہے۔ اسے خواتین کے کپڑوں اور میک سے پیار کی ترغیب دیتی ہے۔ پھر میک اپ کرکے ڈانس کرنے کا کہتی ہے۔ ڈانس کے دوران باپ کی آمد ہوتی ہے۔ میاں بیوی کی لڑائی کا یہ سین بھی کمال کا ہے۔

نبیل نے باپ کا کردار بڑی خوبصورتی سے نبھایا ہے۔ باپ کو نہایت شفیق اور روشن خیال دکھایا گیا ہے۔ جو بچے کو غلط سوسائٹی سے بچانا چاہتا ہے۔ بچہ گھر میں سوتیلی ماں کے ظلم و ستم کا شکار ہے تو دوسری طرف سکول میں بچے تنگ کرتے ہیں۔ باپ بچے کو سمجھاتا ہے کہ تم سپیشل ہو۔ تمھیں سب سے آگے نکلنا ہے۔ باپ کی حوصلہ افزائی سے بچہ کامیاب ہوتا چلا جاتا ہے اور سی ایس ایس کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔

جس دن سی ایس ایس کا رزلٹ نکلتا ہے عین اسی دن باپ کو ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے۔ خواجہ سراء ہسپتال جانا چاہتا ہے اور صبا  قمر کی ٹیکسی میں بیٹھ جاتا ہے۔ صبا  قمر اسے دلاسا دیتی ہے اس طرح اسکی صبا    سے دوستی ہو جاتی ہے۔

پورے ڈرامے میں بہت سے جذباتی سین نظر آئے ،جو اسکی کامیابی کی اصل وجہ بنے۔ ہمارے ڈراموں میں شادی بیاہ، موت اور ظلم کے مناظر کو اس طرح فلمایا جاتا ہے کہ آپ جذباتی ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ میں نے اپنی والدہ کو جذباتی مناظر پر روتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔

فرضی کہانیوں کے غمگین مناظر انسان کو تھوڑی دیر کیلئے افسردہ تو کر دیتے ہیں لیکن ان سے معاشرہ تبدیل نہیں ہوتا۔ حقیقی واقعات پر سنجیدہ نوعیت کی بحث، ڈرامے اور فلموں سے سوسائٹی کی بہتری میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انکا اثر بھی دیرپا ہوتا ہے۔

چار سال قبل میں نے معذور افراد کے انٹرویوز اور سچی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ میں ملک کے ہر کونے میں رہنے والے معذور فرد کی آواز بننا چاہتا تھا۔ اس لیے میری کوشش ہوتی تھی کہ اگر ایک انٹرویو پنجاب سے لیا ہے تو دوسرا کسی اور صوبے سے ہونا چاہیے۔ ڈھائی سالہ طویل سلسلے کی بدولت بہت سے نئے لیڈرز کو سامنے آنے کا موقع ملا۔ ملک میں معذور افراد کے حوالے سے آج جتنی بھی آگہی پائی جاتی ہے۔ اس میں میرے انٹرویوز اور کالمز کا اہم کردار ہے۔

معذور افراد کے مسائل پر لکھنے کے دوران میری نظر خواجہ سراؤں کے مسائل پر پڑی تو میں نے ان پر بھی لکھنا شروع کر دیا۔ میں خواجہ سراؤں کے مسائل پر بھی ساٹھ سے زائد کالمز لکھ چکا ہوں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے بھی آج جتنی آگہی پائی جاتی ہے۔ یہ بھی میری ہی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔

میری کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں ملاوٹ کا عنصر نہیں ہوتا۔ جس نے اپنا مسئلہ بتایا اسے ویسے ہی لکھ دیا۔میرا کام دولت، شہرت، لائیکس اور ویوز کیلئے نہیں ہوتا۔ میں ربّ  کی رضا کیلئے کام کرتا ہوں۔ اسی لیے میرے ہر کام کا رزلٹ دکھائی بھی دیتا ہے۔

وطن عزیز کی خواجہ سراء کمیونٹی میں بہت سے ڈاکٹر، وکیل، ایم-بی-اے، اے-سی-سی-اے، ایم-اے، ایم-فل موجود ہیں۔ انکی سچی کہانیاں اتنی شاندار ہیں کہ اگر ان پر ڈرامہ بنے تو معاشرے کی سوچ پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح میں ایسی معذور لڑکیوں کی کہانیاں لکھ چکا ہوں جن کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر میں خود بھی پھوٹ پھوٹ کر رویا ہوں۔

فرضی کہانیاں ہمیں کچھ دیر کیلئے جذباتی تو کر سکتی ہیں، لیکن انکا اثر دیرپا نہیں ہوتا۔ حقیقی مسائل پر مبنی ڈرامہ انسانی حقوق کے فروغ اور معاشرے کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اے-آر-وائی کے اس ڈرامے کو کروڑوں ویوز بھی مل جائیں تب بھی معاشرے کی تبدیلی میں اسکا کردار صفر ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈرامہ لکھنے والے حضرات سے ہماری گزارش ہے کہ جب تک آپ اس ملک اور اس میں رہنے والے  لوگوں کے حقیقی مسائل پر بات نہیں کریں گے اس وقت تک معاشرہ تبدیل نہیں ہوگا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ آنے والے  دور میں    آپکی فرضی تحریروں پر سوال ضرور اٹھیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply